بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت کراچی سے شروع ہونے والا ''کاروانِ بھٹو‘‘ لاڑکانہ کے لیے رواں دواں ہے۔ شیخ رشید کی وزارتِ ریلوے نے اس کے لیے 14 ڈبوں پر مشتمل خصوصی ٹرین فراہم کر دی تھی۔ اس سال چار اپریل کو بلاول کے نانا کی چالیسیوں برسی ہے اور پیپلز پارٹی اسے اپنی سیاسی طاقت کے بھرپور مظاہرے کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے۔ گزشتہ ہفتے (بدھ کو) اسلام آباد میں کورٹ کے باہر جیالوں کی بھرپور ''مارا ماری‘‘ نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نیا حوصلہ دیا ہے۔
بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی نے1967ء کے اواخر میں لاہور میں جنم لیا تھا۔ 1970 میں پنجاب ہی اس کا اصل پاور بیس ثابت ہوا۔ انتخابی نتائج کی خبر پر، حنیف رامے کے ''مساوات‘‘ کی سرخی ''برج الٹ گئے‘‘ پنجاب ہی کے حوالے سے تھی۔ بھٹو نے ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے اور ''اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کا اعلان بھی لاہور ہی میں (مینار پاکستان کے زیر سایہ) کیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں پیپلز پارٹی کا ایک بھی امیدوار نہیں تھا۔ صوبہ سرحد میں خود بھٹو صاحب، مفتی محمود کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔ بلوچستان میں بھی شاید ان کا ایک بھی امیدوار نہیں جیتا تھا اور ''آبائی‘‘ صوبہ سندھ کی اسمبلی میں بھی اسے سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی (ساٹھ کے ایوان میں اٹھائیس نشستیں) چنانچہ یہاں حکومت سازی کے لیے اسے جوڑ توڑ کے ناروا حربے اختیار کرنا پڑے تھے۔
پیپلز پارٹی اب پنجاب میں قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی دس نشستوں تک محدود ہو چکی۔ سندھ ہی اب اس کی Core constituency ہے۔ جولائی 2018 کے الیکشن میں سخت نامساعد حالات کے باوجود اس نے سندھ کی حد تک بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ اور وہاں واضح اکثریت کے ساتھ (کسی اور جماعت کی بیساکھیوں کے بغیر) اپنی حکومت بنا لی۔ کراچی شہر میں بھی اس نے قومی اسمبلی کی تین نشستیں جیت لی تھیں (البتہ لیاری والی نشست پر خود بلاول کی شکست پیپلز پارٹی کے لیے ایک بڑا اپ سیٹ تھی۔ لیاری 1970 سے کراچی میں پیپلز پارٹی کا ''لاڑکانہ‘‘ تھا، اس بار یہاں بھٹو کا نواسہ اور شہید بی بی کا بیٹا، اپنے ہی ایک سابق جیالے سے ہار گیا (جس کے پاس عمران خان کی پی ٹی آئی کا ٹکٹ تھا) کراچی (اور سندھ) میں کبھی نواز شریف کی مسلم لیگ نے بھی اپنے لیے خاصی سپیس پیدا کر لی تھی۔ 1997 کے الیکشن میں سندھ سے قومی اسمبلی میں اس کی بارہ نشستوں میں کراچی کی تین نشستیں بھی تھیں۔ تب پیپلز پارٹی کے مخالف الیکٹ ایبلز، ورکرز اور ووٹرز کا فطری انتخاب نواز شریف کی مسلم لیگ ہی تھی۔ پھر یہاں اس کا بوریا بستر کیوں گول ہو گیا؟ (زیادہ صحیح الفاظ میں اس نے اپنا بستر کیوں سمیٹ لیا؟) یہ ایک الگ کہانی ہے۔ 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ نے کراچی میں ملیر سے قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت لیا تھا۔ عبدالحکیم بلوچ کراچی (اور سندھ) سے اس کے واحد ایم این اے تھے، لیکن میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہی وہ پارٹی چھوڑ گئے (پارٹی سے ان کی مایوسی کی اپنی وجوہ تھیں)۔ جولائی 2018 میں پیپلز پارٹی لیاری کی ''آبائی نشست‘‘ ہار گئی لیکن ملیر سے قومی اور صوبائی نشستیں دوبارہ حاصل کرنا، شہر قائد میں اس کی اہم پیش رفت تھی۔
منگل کی صبح کراچی کینٹ سے کاروانِ بھٹو کی پُر جوش اور بھرپور روانگی توقعات کے عین مطابق تھی۔ لاڑکانہ تک بیس بائیس مقامات پر بلاول بھٹو زرداری کے والہانہ خیر مقدم (یا طاقت کے مؤثر مظاہرے) میں بھی حیرت کی کوئی بات نہیں ہو گی۔ ووٹر اور ورکر کی اپنی نفسیات ہوتی ہے‘ جو خاص حالات میں سیاسی غیرت اور جماعتی حمیت میں ڈھل جاتی ہے۔ تب وہ میرٹ (یا ڈی میرٹ) پر نہیں اسی غیرت اور حمیت کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔ الیکشن کے دنوں میں یہ ''بخار‘‘ اپنی انتہا پر ہوتا ہے۔ الیکشن کے بعد ماحول بدلنے اور سیاسی درجہ حرارت معمول پر آنے لگتا ہے۔ تب ووٹر (اور ورکر) کی نظر اپنی جماعت کی کارکردگی پر آ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی (اور مسلم لیگ ن کو بھی) پی ٹی آئی کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے وفاق اور تین صوبوں میں اپنی حکومت کے قیام کے بعد بھی سیاسی ٹمپریچر کو نیچے نہیں آنے دیا؛ چنانچہ ووٹر اور ورکر اب بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں 25 جولائی کے الیکشن سے پہلے تھا۔ ادھر مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ پی ٹی آئی کے ووٹر میں مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ ٹاک شوز میں آنے والے مستقل چہروں کی بات الگ، لیکن گلی، محلے میں اور تھڑے اور فٹ پاتھ پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے، اپنی حکومت کی چھ ماہ کی ''کارکردگی‘‘ کا دفاع مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اپنی ''ناکردگی‘‘ کا ذمہ داری ''سابقون‘‘ پر ڈال کر کب تک کام چلایا جا سکتا ہے؟ زرداری اور بلاول سمیت سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات اور سندھ حکومت کے خاتمے کے لیے وفاق کی مہم جوئی بھی پیپلز پارٹی کے ورکر اور ووٹر میں مزاحمت کی نفسیات کا باعث بنی ہے۔
چند روز قبل لاہور میں کچھ سندھی دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ہمارا معصومانہ سوال تھا: کیا کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہئے؟ جواب میں وہ پھٹ پڑے: ہونی چاہیے، لیکن صرف سیاسی مخالفین کے خلاف کیوں؟ اور پھر انہوں نے ایک لمبی فہرست گنوا دی اور پوچھا، کیا یہ لوگ دودھ کے دُھلے ہیں؟ کیا بینکوں سے قرضے معاف کروانا کرپشن نہیں؟ اس کے لیے تو کسی انکوائری، کسی انویسٹی گیشن کی بھی ضرورت نہیں، سب کچھ بینکوں کے ریکارڈ میں موجود ہے۔
بلاول کا کراچی سے لاڑکانہ تک ''بھٹو کاروان‘‘ کیا سندھ کارڈ کھیلنے کی حکمت عملی ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو، کو ''چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ کہا جاتا تھا اور ان کی پیپلز پارٹی نے بحیثیت مجموعی ''وفاق کی سیاست‘‘ کی۔ اگرچہ وہ ''ضرورتِ شعری‘‘ کے تحت کبھی کبھار ''سندھ کی بیٹی‘‘ بھی بن جاتی تھیں۔ 1993 میں چیف جسٹس نسیم حسن شاہ والی سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت کی بحالی کا حکم جاری کیا تو بی بی نے اس پر ''چمک‘‘ کی پھبتی کے علاوہ سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعظم کے ساتھ مختلف سلوک کا نکتہ بھی اٹھایا تھا۔ (1990ء میں چیف جسٹس افضل ظلہ والی سپریم کورٹ نے بے نظیر حکومت کی برطرفی کو جائز قرار دیا تھا)۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ والی فل کورٹ کے دس ججوں نے نواز شریف حکومت کی برطرفی کو ناجائز قرار دیا۔ صرف جسٹس سجاد علی شاہ تھے‘ جنہوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا، اور اس کے لیے سپریم کورٹ کے 1990 کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت کی برطرفی کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ وہ بے نظیر صاحبہ کی حکومت کو سندھی وزیر اعظم کی حکومت‘ اور نواز شریف حکومت کو پنجابی وزیر اعظم کی حکومت قرار دے رہے تھے۔ سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے خیال میں سندھی قوم پرست، پیپلز پارٹی کو اپنے راستے کی اصل رکاوٹ سمجھتے ہیں (ہمارے دوست نصیر سلیمی کے الفاظ میں یہ الگ بات کہ سندھی قوم پرست پانچ سال تک جو فضا بناتے ہیں، اس کا فائدہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو پہنچتا ہے)
''کاروانِ بھٹو‘‘ سے دو روز قبل بلاول نے ''مرسوں مرسوں پاکستان نہ ڈیسوں‘‘ کا نعرہ لگایا۔ (زرداری صاحب نے بی بی کی شہادت پر، بعض سندھی نوجوانوں کے نعروں کے جواب میں ''پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے کے ساتھ اپنی نئی سیاست کا آغاز کیا تھا)
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب نے بھی ایک ٹاک شو میں ''خدا لگتی بات‘‘ کہی۔ انہوں نے کہا: غداری یا مودی کی یاری کے نعرے محض ''سیاسی‘‘ ہوتے ہیں۔ بلاول غدار ہے، نہ مودی کا یار۔
کاروانِ بھٹو کا اگلا مرحلہ کراچی سے پنڈی تک ٹرین مارچ ہو گا۔ یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ سپریم کورٹ سے میاں نواز شریف کی چھ ہفتے کے لیے ضمانت اور لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم کی خبر آ گئی۔ قومی سیاست نیا رخ لے رہی ہے۔ سیٹھی صاحب کی ''چڑیا‘‘ گزشتہ شب یہ خبر لائی کہ ''ریاست‘‘ سیاسی استحکام کو ضروری سمجھتی ہے لیکن وزیر اعظم کسی کو این آر او دینے پر آمادہ نہیں۔ ''چڑیا‘‘ کی خبر میں یہ بات بھی شامل تھی کہ زرداری صاحب کے خلاف وہ کیس بھی دوبارہ کھل سکتے ہیں‘ جن میں وہ بے گناہ قرار پا چکے ہیں۔ کچھ لوگ ڈٹ گئے ہیں اور وہ ''ریاست‘‘ کی بات بھی نہیں مان رہے۔