"RTC" (space) message & send to 7575

ضمانت پر رہائی

سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ زیر بحث تھا۔ کسی عدالتی فیصلے پر ''فیئر کمنٹس‘‘ توہین عدالت میں نہیں آتے، لیکن فرزند راولپنڈی (جو خیر سے عمران خان کی مخلوط کابینہ میں وزیر ریلوے بھی ہے) کا اس فیصلے کو ''بارگین‘‘ قرار دینا بھی کیا ''فیئر کمنٹس‘‘ میں آئے گا؟ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر ولید اقبال نے کسی ''اگر مگر‘‘ اور ''چونکہ چنانچہ‘‘ کی بجائے صاف لفظوں میں کہا، یہ توہین عدالت کا کیس تو بنتا ہے لیکن اس میں قانونی کارروائی خود عدالت کا کام ہے۔ 
''این آر او‘‘ کے الفاظ حالیہ مہینوں میں اس کثرت سے استعمال ہوئے کہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے نیم خواندہ (بلکہ ناخواندہ) شخص کو بھی ازبر ہو گئے ہیں۔ کوئی بھی (سیاسی یا غیر سیاسی) ایونٹ ہو، ''این آر او نہیں ملے گا‘‘ کے الفاظ وزیر اعظم صاحب کے وردِ زبان ضرور ہوتے ہیں جس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) والوں کا سوال ہوتا ہے کہ کون، کس سے این آر او مانگ رہا ہے؟ پیپلز پارٹی والے تو دو قدم آگے بڑھ جاتے ہیں: این آر او کوئی آپ سے کیوں مانگے گا؟ شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کو این آر او مانگتے خود دیکھا اور سنا ہے (اور اس دعوے میں وزن پیدا کرنے کے لیے، وہ مصرع طرح پر گرہ بھی لگا دیتے ہیں، کہ ''میں نے اپنی قبر میں جانا ہے‘‘۔ کسی سیانے کی بات یاد آئی: اس نے ایک بات کہی، میں نے یقین کر لیا۔ اس نے دوبارہ وہی بات کہی، مجھے شک پڑ گیا۔ اس نے تیسری بار قسم کھا کر وہی بات کہی تو مجھے یقین آ گیا کہ جھوٹ بول رہا ہے۔ شہباز شریف اتنے سادہ اور بھولے تو نہیں ہو سکتے کہ جنابِ شیخ کی موجودگی میں این آر او مانگ رہے ہوں۔ تو کیا وہ چلمن کے پیچھے، این آر او والی بات دیکھ اور سن رہے تھے؟ اور پھر 26 مارچ کو نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کے فیصلے کو موصوف نے این آر او والے دعوے کی دلیل بنا لیا۔ ان کے بقول، یہ بارگیننگ تھی جس کا ماسٹر مائنڈ شہباز شریف تھا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے حوالے سے اپنے کمنٹس پر شیخ کا کہنا تھا: مجھ پر توہین عدالت لگتی ہے، تو لگ جائے۔
اس میں شک نہیں کہ صحت کی بنیاد پر، سزا یافتہ قیدی کی ضمانت پر رہائی کی یہ پہلی مثال ہے، لیکن یہ کوئی ''انہونی‘‘ نہیں۔ عدالتیں خاص حالات میں، خاص فیصلے صادر کرتی رہتی ہیں اور یہ فیصلے آئندہ کے لیے ''نظیر‘‘ (Precedents) بھی بن جاتے ہیں۔
خود حکومت کے مقرر کردہ پانچ میڈیکل بورڈز کی رپورٹس بھی بتا رہی تھیں کہ سابق وزیر اعظم کی صحت کے مسائل سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کی زیر صدارت سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے تمام معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا، اس حوالے سے درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث کے ساتھ طویل سوال ، جواب بھی ہوئے جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے درخواست گزار کی چھ ہفتے کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹوں میں، ان کی ''میڈیکل ہسٹری‘‘ کی تفصیل موجود ہے۔ میڈیکل رپورٹوں کے مطابق انہیں دل، گردہ، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے امراض لاحق ہیں، جس کے لیے انہیں دل اور گردہ کے ماہر ڈاکٹروں کی بیک وقت نگرانی کی ضرورت ہے؛ چنانچہ طبی بنیادوں پر ان کی ضمانت پر رہائی کی درخواست قابلِ جواز نظر آتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے اتحادی، شیخ رشید کے کمنٹس اپنی جگہ لیکن خود وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں اور نواز شریف کی صحت کے لیے دعا گو ہیں۔ کہا جاتا ہے، وزیر اعظم کو یہ خبر کابینہ کے اجلاس کے دوران ملی... اور پھر معاملہ ''یک نہ شد، دو شد‘‘ والا ہو گیا۔ یہ منگل مسلم لیگ (ن) اور شریف فیملی کے لیے بطور خاص، سعادت والا دن بن گیا تھا۔ پہلے ای سی ایل سے شہباز شریف صاحب کے نام کے اخراج کی خبر آئی (لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ) اور پھر سپریم کورٹ سے بڑے میاں صاحب کی ضمانت کی خبر آ گئی۔ 
اس پر حکومتی ترجمانوں کا ردِ عمل دلچسپ تھا۔ ان کے بقول، سپریم کورٹ کے فیصلے میں نئی بات کیا تھی؟ پاکستان کے کسی بھی ہسپتال سے (میاں صاحب کی خواہش کے مطابق) علاج کی پیشکش تو حکومت بھی کئی بار کر چکی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے اور حکومتی پیشکش میں فرق تو سب کو بھی نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں صاحب 6 ہفتے کے لیے آزاد ہیں۔ اب دورانِ علاج وہ زیر حراست نہیں ہوں گے (ان کی ''علاج گاہ‘‘ سب جیل نہیں ہو گی) اس دوران وہ کہیں بھی آنے جانے، کہیں بھی رہنے میں آزاد ہوں گے۔ وہ جس سے چاہیں، ملاقات کر سکیں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل حکومت کے لیے اپنی ''نیک نامی‘‘ پیدا کرنے کا موقع موجود تھا کہ وہ میاں صاحب کو علاج کے لیے ''پیرول‘‘ پر رہا کر دیتی (لیکن یہ بڑے دل کا معاملہ تھا، اپنی انا سے اوپر اٹھنے کی بات تھی) حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف ''اپنی مرضی کے ہسپتال میں علاج‘‘ کی پیش کش تھی تو دوسری طرف ذاتی معالج، بیٹی، والدہ اور بھائی کے لیے جیل میں مریض کی مزاج پرسی کی اجازت بھی واپس لے لی گئی تھی اور اسے جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار ملاقات تک محدود کر دیا گیا تھا۔ مریم کے ٹویٹ کے مطابق میاں صاحب کا ذاتی معالج (اور وہ خود) پانچ روز تک ''مریض‘‘ سے ملاقات نہ کر سکے۔ ان کے بقول جمعہ (22 مارچ) کو ڈاکٹر عدنان دو گھنٹے جیل کے باہر کھڑے رہے اور تھک ہار کر لوٹ آئے۔ مریم کا کہنا تھا کہ وہ اگلے روز (ڈاکٹر عدنان کے ساتھ) کوٹ لکھپت جیل جائیں گی اور (ملاقات کی اجازت نہ ملنے کی صورت میں) وہیں بیٹھ رہیں گی۔ حکومت پنجاب کے ترجمان شہباز گل جوابی ٹویٹ میں دھرنے کے دوران مریم کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کر رہے تھے (جلتی پر تیل ڈالنے والی بات) لیکن عقل سلیم (Better Sense) بروئے کار آئی۔ رات گئے مریم کا ٹویٹ تھا، انہیں اور ڈاکٹر عدنان کو اگلے روز ملاقات کی اجازت مل گئی تھی۔ یہ 23 مارچ کا تاریخی دن تھا، کارکنوں کی بڑی تعداد بھی اپنے قائد سے اظہار یکجہتی کے لیے کوٹ لکھپت جیل کے باہر پہنچ گئی تھی۔ کوٹ لکھپت ریلوے سٹیشن بھی جیل کے قریب ہی ہے۔ کارکنوں نے پنڈی سے کراچی جانے والی ٹرین روک لی، کچھ زیادہ ہی پُر جوش متوالے، ریلوے انجن کے اوپر چڑھ گئے، ٹرین کی ''بازیابی‘‘ میں پولیس کو بیس منٹ لگ گئے تھے۔
میاں صاحب کی ضمانت پر رہائی سیاسی و صحافتی حلقوں میں تبصروں اور تجزیوں کا اہم موضوع بن گئی تھی (اور اس کے ساتھ ای سی ایل سے شہباز شریف کا اخراج، سونے پر سہاگہ) ایسے بھی تھے جو اسے شہباز شریف کی مفاہمت پالیسی کی فتح اور نواز شریف کے جارحانہ بیانیے کی شکست قرار دے رہے تھے (وہی پرانا راگ)۔ نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر کو نیب کورٹ نے ایوان فیلڈ اپارٹمنٹس والے ریفرنس میں 6 جولائی کو دس سال، آٹھ سال اور ایک سال سزا سنائی تھی۔ کیپٹن (ر) صفدر نے 8 جولائی کو پنڈی میں ایک بڑے جلوس میں اپنی گرفتاری پیش کر دی۔ میاں صاحب اور مریم، بیگم صاحبہ کی مزاج پرسی کے لیے لندن میں تھے۔ مریم نواز کے سمدھی چودھری محمد منیر کے ذریعے، انہیں پیغام بھجوایا گیا کہ وہ لندن میں ہی رہیں (اور الیکشن تک واپس نہ آئیں) لیکن باپ بیٹی 13 جولائی کو (گرفتار ی دینے) لاہور پہنچ گئے۔ حامد میر کے بقول انہوں نے جیل کا انتخاب کر کے شہباز شریف کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔ شہباز شریف سے کہا گیا تھا کہ وہ بڑے بھائی کے خلاف اعلانیہ بغاوت کر دیں تو وزیر اعظم بن سکتے ہیں، شہباز شریف نے بغاوت سے انکار کیا اور یوں عمران خان کے لیے وزیر اعظم بننا آسان ہو گیا۔
اُڑتی اُڑتی سنی ہے کہ خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ، میں اگر اپنی مرضی سے اور اپنے طریقے کے مطابق حکومت نہیں چلا سکتا تو چھوڑ کر چلا جاتا ہوں، آپ خود حکومت چلا لیں۔ واللہ اعلم۔
ہم باز آئے محبت سے، سنبھالو پاندان اپنا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں