آئین میں 26ویں ترمیم کے بل پر قومی اسمبلی میں خواجہ محمدآصف کا خطاب جذبات سے بھرپور تھا۔ یہ بل خیبر پختو نخوا اسمبلی میں فاٹا کی نشستوں میں اضافے کے لیے ہے۔ انضمام کا فیصلہ ہوا تو صوبائی اسمبلی میں فاٹاکی نشستوں کی تعداد 16قرار پائی۔ اب ان نشستوں کو16سے24کرنا مقصود ہے‘انضمام کے بعد صوبائی نشستوں کے لیے یہ پہلے انتخابات ہوں گے۔قومی اسمبلی میں ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر خواجہ محمدآصف نے ترمیمی بل کی پرزور حمایت کے ساتھ‘ ان مصائب کا ذکر بھی کیا دہشت گردی کی جنگ میں فاٹا والوں کو جن کا سامنا رہا۔ ان کا کہنا تھا: نائن الیون کے بعد افغانستان پر مسلط کی جانے والی جنگ ہماری نہیں تھی۔ انہوں نے سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کو بھی ''دوسروں کی جنگ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے یہ'' انکشاف‘‘ بھی کیا کہ سوویت یونین کی ہم سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ ان کے بقول: ''نام نہاد جہاد ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ڈکٹیٹروں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پاکستان کو اس آگ میں جھونک دیا ۔
جہاں تک ''دہشت گردی کی جنگ‘‘ کا تعلق ہے‘ ہمیں سوفیصد اتفاق ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی۔ کمانڈو صدر کو Legitimacyکا مسئلہ درپیش تھا۔ 12کتوبر1999ء سے پہلے کی تینوں فوجی کارروائیوں میں کسی جھوٹے سچے قومی مفاد کو جواز بنایا گیا تھا‘ لیکن12اکتوبر کے ٹیک اوور کے بارے میں بی بی سی سے انٹرویو میں خود جنرل مشرف کو یہ کہنے میں کوئی باک نہ تھا کہ ''وہ مجھے برطرف نہ کرتا تو آج بھی وزیر اعظم ہوتا‘‘۔ پاکستان کا فارن آفس شاہ عبداللہ (تب ولی عہد) سے پاکستان کے نئے حکمران کی ملاقات کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے تھا‘ لیکن ادھر مسلسل خاموشی تھی۔ آخر کار جنرل مشرف عمرے کے بہانے سرزمینِ حرمین پہنچے‘ ولی عہد کے پاس جدہ یا ریاض میں ملاقات کا وقت نہیں تھا؛ چنانچہ ینبع میں ملاقات ممکن ہوپائی جہاں ولی عہد دورے پر آئے ہوئے تھے۔ کوالالمپور میں وزیر اعظم مہاتیر محمد سے ملاقات کے بعد ملائشیا کے وزیر خارجہ نے وضاحت ضروری سمجھی کہ یہ ملاقات مشرف کی اپنی درخواست پر ہوئی جس میں مہمان نے 12اکتوبر کی کارروائی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ میزبان کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہ تھی۔ ادھر امریکیوں کا معاملہ یہ تھا کہ صدر کلنٹن بھارت اور بنگلہ دیش کے ہفتہ بھر کے دورے سے واشنگٹن واپسی پر اسلام آباد میں صرف6گھنٹے کے سٹاپ اوور پر رضا مند ہوئے‘ اس شرط کے ساتھ کہ مشرف کے ساتھ ان کی کوئی تصویر میڈیا پر نہیں آئے گی(تب جناب محمد رفیق تارڑ ابھی ایوانِ صدر میں موجود تھے)۔سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خاں راوی ہیں کہ پرویز مشرف جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے لیے امریکہ آرہے تھے اوران کا اصرار تھا کہ صدرکلنٹن سے ملاقات کااہتمام کیا جائے۔ فارن آفس اور پاکستانی سفارت خانے کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود یہ ''ملاقات‘‘ اس عشائیے میں ممکن ہوئی جو امریکی صدر دنیا بھر سے آئے ہوئے سربراہوں کے اعزاز میں دیتا ہے اوریہاں بھی امریکی پروٹوکول نے پورا اہتمام کیا کہ کلنٹن کی مشرف سے ہاتھ ملانے کی تصویر نہ بننے پائے اور پھر 2000ء کے صدارتی انتخابات میں بُش جونیئر آگئے اور چند ماہ بعد ''نائن الیون‘‘ نے سارا منظر بدل دیا۔ وزیر خارجہ کولن پاول کی ایک ٹیلی فونک کال پر صدر مشرف جس طرح ڈھیر ہوگئے‘ اس کی تفصیل باب وڈ ورڈ کی کتاب''بش ایٹ وار‘‘ میں موجود ہے۔ بُش اپنے وزیر خارجہ سے حیرت کے ساتھ پو چھ رہاتھا: مشرف نے ساتوں مطالبات مان لیے‘ تم نے سب کچھ پالیا؟
کیا سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد(جسے خواجہ صاحب''نام نہاد‘‘ قرار دیتے ہیں) بھی امریکی جنگ تھی؟ گرم پانیوں تک رسائی وہ خواب تھا جو سرخ انقلاب سے پہلے زاروں کے دور میںبھی روسی دیکھتے آئے تھے۔ وسط ایشیائی مسلم ریاستوں کو ہڑپ کرنے کے بعد روس افغان سرحد پر آن پہنچا تھا۔ ظاہر شاہ کے عہد میں کابل‘ ماسکو کے حلقۂ اثر میں تھا۔ دہلی کے ساتھ کابل کے تعلقات بھی ہمیشہ پرُجوش رہے (افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی) ضیا الحق کے ابتدائی مہینوں میں صدر دائود پاکستان کے دورے پر آئے ۔لاہور کے تاریخی شالامار باغ میں شہری استقبالیہ میں انہوں نے ضیا الحق کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اسلام آباد اور کابل کو یک جان دوقالب قرار دیا۔ ماسکو اور دہلی سے دوستی کا مزہ چکھنے کے بعد اب بھٹکے ہوئے آہو کا رخ سوئے حرم تھا۔ کابل کی یہ نئی سوچ ماسکو کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔صدر دائود پاکستان سے واپسی پر دم بھی نہ لے پائے تھے کہ قتل کردیئے گئے۔ اب کابل کے تخت پر نور محمد ترہ کئی براجمان تھے۔ ان کی بدقسمتی کہ ویانا میں غیر وابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر صدر ضیا الحق سے ملاقات کر بیٹھے‘ یہ ملاقات‘ ایک اور ملاقات کے پروگرام پر اختتام کو پہنچی۔ ماسکو کے دل میں گرہ پڑ گئی تھی۔ کابل کے کمیونسٹ دھڑوں ''پر چم‘‘ اور ''خلق‘‘ میں کشمکش بھی تیز تر ہورہی تھی‘ کچھ عرصہ بعد ترہ کئی بھی قتل کردیئے گئے۔ حفیظ اللہ امین ان کے جانشین تھے۔ کابل اور اسلام آباد میں رابطے کسی نہ کسی طور جاری تھے۔ پاکستانی وزیر خارجہ آغا شاہی کابل جانے کے لیے پشاور کے ہوائی اڈے پر موجود تھے کہ حفیظ اللہ امین کے قتل کی خبر آگئی۔ 25دسمبر1979ء کی شب روسی ٹینک افغانستان میں داخل ہوئے ۔حفیظ اللہ امین قتل کردیئے گئے۔ اب ان کی جگہ ببرک کا رمل تھے‘ جو روسی ٹینکوں پر سوار ہوکر کابل آئے تھے۔پاکستان سینڈوچ بن گیا تھا‘ مشرقی سرحد پر بالا دستی کے جنون میں مبتلا بھارت پہلے ہی موجود تھا۔ اب شمال مغربی سرحد پر ایک سپر پاور آن بیٹھی تھی‘ گرم پانیوں تک رسائی‘ جس کا دیرینہ خواب تھا‘ بلوچستان کے ساحل پر گوادر کی بندرگاہ۔
تب صدر کارٹر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر برزنسکی جنرل ضیا کو حوصلہ دینے آئے۔ وہ صدرکارٹر کی طرف سے 40ملین ڈالر کی پیشکش بھی لائے تھے جسے ضیا الحق نے مونگ پھلی قرار دے کر مسترد کردیا۔ حریت پسند افغان اپنے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین کے سامنے سینہ سپر ہوگئے تھے اورپاکستان ان کی پشت پر تھا۔1980ء کے صدارتی انتخاب میں کارٹر‘ ریگن کے ہاتھوں کھیت رہے ۔ اس دوران افغان جہاد دنیا پر اپنا پوٹینشل ظاہر کر چکا تھا۔ اگلے سال کے آخر میں واشنگٹن بھی اس میں حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھا اور پاکستان نے یہ امداد اپنی شرائط پر قبول کی‘یہ کہ افغانوں کے ساتھ امریکیوں کا براہِ راست رابطہ نہیں ہوگا۔ واشنگٹن سے امداد اسلام آباد آئے گی اور افغانوں میں تقسیم بھی پاکستان کے ہاتھوں ہوگی۔ یہ فیصلہ بھی پاکستان کرے گا کہ مجاہدین کے کس گروپ کو کیا دینا ہے۔ پاکستان نے اس جنگ کی اونرشپ اپنے ہاتھ میں رکھی تھی۔ مسلم ملکوں کی عظیم اکثریت کے ساتھ ساری آزاد دنیا بھی پاکستان کی پشت پر تھی۔ دنیا کے127ملک افغان جہاد کے حق میں ووٹ دے رہے تھے۔ سرخ ریچھ افغانستان میںBleedہونے لگا۔ گرم پانیوں تک رسائی کے خواب افغانوں کے جذبۂ حریت سے ٹکرا کر چور چور ہوگئے۔ سپر پاور کی معیشت روبہ زوال تھی۔ گو ربا چوف نے افغانستان کو سوویت یونین کیلئے ''رستا ہواناسور‘‘قرار دیا اور واپسی کا فیصلہ کرلیا۔ یہ پسپائی مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مظلوم ومحکوم قوموں کے لیے عزمِ نو اور ولولۂ تازہ کا سبب بن گئی۔ نئے حالات خطے میں اور باقی دنیا میں بھی پاکستان کے لیے جوامکانات لائے تھے‘ ان کی صورت گری کیوں نہ ہوسکی؟ خود امریکیوں نے پاکستان کے مفادات کو محدود اور مسدود کرنے کی جو کارروائی کی‘ وہ ایک الگ کہانی ہے اور یہ جو پاکستان اس دوران ایٹمی طاقت بن گیا‘ کچھ اور نہیں تو افغان جہاد کی یہ ایک اچیومنٹ بھی کیا کم ہے؟
خواجہ صاحب کو لفظ ''جہاد‘‘ سے چڑ ہے تو ہم اسے افغان مزاحمت کہہ لیتے ہیں۔ یہSlip of tongueکا دور ہے‘ ممکن ہے خواجہ صاحب کی یہ بات کہ روس کی ہم سے کوئی دشمنی نہیں تھی‘slipof tongueہو‘ ورنہ انہیں سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے‘ دہلی اور ماسکو کے درمیان 50 سالہ دفاعی تعاون کے معاہدے کا علم تو ہوگا۔