ہفتے کی شام ‘ مسلم لیگ(ن) کے ارکانِ پنجاب اسمبلی کی بنی گالا میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میڈیا کی بریکنگ نیوز بن گئی۔ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی نعیم الحق نے اپنے ٹویٹ میں ان کی تعداد15بتائی (لیکن نام بتانے سے انکار کردیا)۔ ''باوثوق ذرائع‘‘ سے جو نا م منظر عام پر آئے‘ ان میں سے بیشتر نے ملاقات کی سختی سے تردید کردی۔ ایک آدھ جگہ قومی اسمبلی کے رکن ریاض پیرزادہ کا نام بھی آیا‘ جس کی تردید میں انہوں نے لمحہ بھر تاخیر نہ کی۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ مشکل کی گھڑی میں اپنے لیڈر سے بے وفائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مسلم لیگ (ن)کے ذرائع پندرہ کی بجائے اپنے پانچ ایم پی ایز کی وزیر اعظم سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہیں اور ان میں سے بھی شیخوپورہ کے مولانا جلیل شرقپوری اور شکر گڑھ کے مولانا غیاث الدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم سے ان کی ملاقات اپنے علاقے کے مسائل کے حوالے سے تھی اور یہ کہ انہوں نے تحریکِ انصاف میں شمولیت کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ دیگر ملاقاتیوں میں خانیوال کے فیصل نیازی اور نشاط ڈاہا اور مظفر گڑھ کے اظہرچانڈیہ شامل ہیں۔ گوجرانوالہ کے اشرف انصاری کا معاملہ دلچسپ ہے۔ ان کے بقول‘ انہوں نے نہیں بلکہ ان کے بھائی یونس انصاری نے وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی۔ اشرف انصاری کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے ان کی وفاداری پر شک نہ کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ بھی چار سے پانچ مسلم لیگی ارکان کی وزیر اعظم سے ملاقات کا امکان رد نہیں کرتے۔ مبینہ ملاقاتیوں کا کچا چٹھابیان کرتے ہوئے ا ن کا کہنا ہے کہ خانیوال کے فیصل نیازی تحریکِ انصاف کا ٹکٹ نہ ملنے پر آخر ی روز نون لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ گوجرانوالہ کے اشرف انصاری کو نون لیگ نے پنجاب اسمبلی کا ٹکٹ دے کر واپس لیا اور پھر دے دیا۔ شیخوپورہ کے مولانا جلیل شرقپوری کے لیے بھی سیاسی مسافرت معمول کی بات ہے۔ ایک دور میں نوازشریف سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ پھر قاف لیگ میں ٹھکانہ کرلیا۔ کچھ عرصہ پاکستان تحریک ِ انصاف میں رہے اور جولائی2018ء کے الیکشن سے چند روز قبل تحریک ِ انصاف سے نون لیگ میں آگئے۔ خانیوال کے نشاط ڈاہا کے لیے بھی اِدھر اُدھر آنا جانا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ بعض مسلم لیگیوں کا کہنا ہے کہ وہ جس بھی جماعت میں چلے جائیں ‘ رہتے مسلم لیگی ہی ہیں اور خود مسلم لیگ کو بھی ان کی واپسی کا خیر مقدم کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتی‘ وہ اسے صبح کے بُھولے کی شام کو واپسی کا نام دیتی ہے۔وہ تو میاں صاحب تھے‘ جنہوں نے مشرف دور کے اپنے بعض بے وفائوں پر واپسی کے دروازے سختی سے بند کئے رکھے۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب کا مینڈیٹ پامال نہیں ہونے دیں گے اور ''لوٹوں‘‘ کے گھروں کا خود گھیرائو کریں گے۔ سیاسی لغت میں ''لوٹا‘‘ کی اصطلاح کا آغاز لاہور کے ڈاکٹر عالم سے ہوا۔ آزادی سے پہلے انہوں نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور جیت کر یونینسٹ ہوگئے ۔تب سے سیاسی بے وفائوں‘ موقع پرستوں اور چڑھتے سورج کے پجاریوں کا نام ''لوٹا‘‘ پڑ گیا۔ 1993ء میں اس اصطلاح کا احیا ہوا۔اپریل1993ء میں صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں نوازشریف کی پہلی حکومت کی برطرفی کے وقت پنجاب میں غلام حیدر وائیں وزیر اعلیٰ تھے ۔ وفاق میں نوازشریف سے نجات کے بعد صدر صاحب کو صوبوں میں بھی اپنے وفادار سیٹ اپ کی ضرورت تھی۔ باقی تین صوبوں میں یہ کام آسانی سے ہوگیا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں درویش وزیر اعلیٰ ‘ کسی قیمت پر سیاسی بے وفائی پر آمادہ نہ تھے۔ یہاں یہ بیڑہ میاں منظور وٹو نے اٹھایا(جو1985ء سے مسلسل سپیکر چلے آرہے تھے ۔1985 ء کا معاملہ اور تھا‘ لیکن 1988ء اور 1990ء کی اسمبلی میں تو وہ نوازشریف کی آشیر باد کے ساتھ ہی اس منصب پر فائز ہوئے تھے(وزارتِ اعلیٰ کی خواہش بھی کبھی کبھار چٹکی لیتی)۔ نوازشریف حکومت کی برطرفی کے بعد‘ اس خواب کی تعبیر کا موقع آگیا تھا۔ ارکانِ پنجاب اسمبلی کو انہوں نے یہ کہہ کر ساتھ ملالیا کہ معزول وزیر اعظم کے وفادار غلام حیدر وائیں کی وزارتِ اعلیٰ کے ساتھ اسمبلی برقرار نہیں رہ سکتی (تب اسمبلیاں توڑنے والا آرٹیکل 58/2B موجود تھا) چنانچہ وائیں صاحب کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آگئی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی‘ وائیں کابینہ میں وزیر خزانہ تھے۔ تحریک عدم اعتماد کی مخالفت(اور وائیں صاحب کی حمایت) میں ان کی تقریر ‘ اسمبلی کی شاہکار تقریروں میں ایک تھی۔ وائیں صاحب کے خلاف عدم اعتماد ہوگیا اور منظور وٹو وزیر اعلیٰ بن گئے۔ نوازشریف کی برطرفی پر ہی عوام میں غم وغصہ کیا کم تھا کہ اب پنجاب میں بھی ایوانِ صدر کی آشیر باد کے ساتھ بغاوت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بے وفائی کے مرتکب ارکان اسمبلی کے لیے شہر تو کجااپنے دیہات میں بھی جانا مشکل ہوگیا۔ وہ جدھر جاتے‘ ''لوٹا‘لوٹا‘‘ہوجاتی۔ مئی میں سپریم کورٹ سے نوازشریف حکومت کی بحالی کے بعد''صبح کے بھولے‘‘ شام کو ماڈل ٹائون پہنچ گئے۔ وزیر اعلیٰ وٹو کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آگئی‘ اس کے بعد جو کھیل ہوا‘ وہ الگ کہانی ہے۔1993ء کے انتخابات میں پنجاب میں نوازشریف والی مسلم لیگ سنگل لارجسٹ کی حیثیت میں (آزاد امید واروں کو سا تھ ملا کر ) حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کوئی ڈیڑھ درجن ارکان کی اکثریت کے ساتھ مسلم لیگ سے آگے تھی‘ یہاں محترمہ کا (دوسری بار) وزیر اعظم بننا یقینی تھا۔ مقتدر حلقوں کو1988-90ء والا کھیل دوبارہ مطلوب نہیں تھا‘( جب بے نظیر صاحبہ کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران پنجاب میں نوازشریف وزیر اعلیٰ تھے) چنانچہ مسلم لیگ کو پنجاب میں حکومت بنانے سے روک دیا گیا۔ محترمہ بھی پنجاب میں نوازشریف کی مسلم لیگ کا راستہ روکنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار تھیں؛چنانچہ حامد ناصر چٹھہ نے اپنے مسلم لیگی دھڑے کے اٹھارہ ووٹوں کے ساتھ منظور وٹو کو وزیر اعلیٰ بنوالیا۔ لیکن گزشتہ دور والا ''لوٹا‘‘ ان کے ساتھ ایسا چپک گیاتھا کہ وہ جدھر جاتے‘ لوٹا لوٹا کا شور مچ جاتا۔ یاد پڑتا ہے ‘ انہی دنوں لاہور ہاکی سٹیڈیم میںایک انٹرنیشنل میچ میں صدر فاروق لغاری مہمانِ خصوصی تھے۔ انہوں نے بگھی میں گرائونڈ کا چکر لگایا‘ وزیر اعلیٰ وٹو بھی ساتھ تھے اور سٹیڈیم میں لوٹا‘ لوٹا ہورہی تھی۔ وزیر اعلیٰ صاحب ایک بار سرگودھا گئے تو لوگوں نے گلیوں میں لوٹے لٹکا دیئے۔ وزیر اعلیٰ ایوان میں آتے تویہاں بھی لوٹا‘ لوٹا ہوجاتی؛ چنانچہ وہ ایوان میں کم کم ہی آتے اور اپنے چیمبر ہی میں ضروری کام نمٹا کر واپس چلے جاتے۔ ایک روز ایوان میں ان کی آمد یقینی تھی‘ انعام اللہ نیازی پلاسٹک کا چھوٹا سا لوٹا ساتھ لے آئے‘ ادھر وزیر اعلیٰ اپنی نشست کی جانب بڑھے‘ ادھر نیازی نے جاکر لوٹا ان کے مائک پر لٹکا دیا۔ وٹو صاحب کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہوگیا تھا۔ انہوں نے انعام اللہ کو مخاطب کرکے کہا: تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اجلاس برخواست ہوا اور انعام اللہ نیازی اسمبلی کے باہر گرفتار کرلئے گئے۔
لیکن اس ''شر‘‘ سے ''خیر ‘‘ کا پہلو یہ نکلا کہ سرکاری دفاتر کے واش رومز سے (تب انہیں بیت الخلا کہا جاتا تھا) لوٹے اٹھا دیئے گئے ۔ اب یہاں شاور کا اہتما م تھا۔سوموار کی دوپہر جب یہ سطور قلم بند کی جارہی تھیں‘ ٹی وی پر خبر چل رہی تھی‘ گوجرانوالہ میں 'متوالوں‘نے انڈوں کے ساتھ اشرف انصاری کے گھر پر دھاوا بول دیا تھا۔ رانا صاحب کی لائن‘ ان کے بغیربھی چل پڑی تھی۔ سنا ہے ‘ اندر خانے کا م جاری ہے۔ جس دن تعداد 25تک پہنچ گئی‘ مسلم لیگ (ن) فارورڈ بلاک کا قیام عمل میں آجائے گا۔ لیکن آٹھ دس ماہ کی بھرپور کاوش کے بعد تعداد صرف پانچ ہوئی ہے توپچیس کی زلف سر ہونے کو کتنا وقت درکا رہوگا ؟ خصوصاً اس عالم میں کہ نئے بجٹ کے پہلے ہی دن چیخیں کہیں سے کہیں جاپہنچی ہیں۔