"RTC" (space) message & send to 7575

’’میرے ہاتھ میں قلم ہے‘‘

رنج اور اندوہ کی کیفیت طنز ومزاح کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔ یہی معاملہ عرفان صدیقی کے ساتھ اندوہناک واقعہ کے حوالے سے ہوا ۔ عرفان صدیقی کی گرفتاری ‘ہتھکڑیوں کے ساتھ پیشی اور 14روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا واقعہ‘ ہفتے کی شب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد کے صاحبزادے صہیب نیاز کے ولیمے کے شرکا میں بھی زیر بحث تھا کہ سجاد میر بھی آگئے۔'' میر صاحب! کیا آپ نے تھانے والوں کو اپنی نئی رہائش کی اطلاع دے دی یا آپ کا ارادہ بھی عرفان صدیقی صاحب کی طرح گرفتار ہونے‘ ہتھکڑیوں کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل جانے کا ہے؟‘‘۔ میر صاحب نے ساری جوانی کراچی میں بتادی‘ ادھیڑ عمری میں لاہور واپسی ہوئی‘ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا ڈبل سٹوری گھر بڑے شوق سے بنوایا‘لیکن شہر سے دور جانے کو دل نہیں مانتا۔ نہر کنارے ایک سوسائٹی میں وہ برسوں سے مقیم تھے‘قریب ہی ان کے بھائی جناب اقبال بٹ کا گھر تھا۔ بچوں کی شادی کے بعدبٹ صاحب کو تنگی کا احساس ہوا تو بڑے گھر میں شفٹ ہوگئے اورمیر صاحب دوسرے گھر میں اُٹھ آئے۔یہ دو بھائیوں کا باہمی معاملہ ہے۔ہم نے مئی2017ء میں ایک ٹاؤن میں گھر بیچا‘ تونئے مکان کی تعمیر تک قریب ہی کرائے پر آگئے‘تب ہمیں قانونِ کرایہ داری کی اس شق کا علم ہوا کہ متعلقہ تھانے کو اس کی اطلاع بھی دینا ہوتی ہے۔
میاں صاحب کے جیل چلے جانے کے بعد عرفان صاحب بھی منظر سے ہٹ گئے تھے۔ شہباز صاحب کے ساتھ ان کی کچھ ایسی ایکوایشن نہ تھی۔ مریم نواز کے ساتھ شا ید جنریشن گیپ کا معاملہ تھا۔ وہ اپنے ابو کے رفیق ِخاص کو عزت واحترام تو دیتی ہیں‘ لیکن ظاہر ہے ان کا حلقۂ رفاقت الگ ہے‘ جن کے ساتھ وہ کمفرٹ محسوس کرتی ہیں۔ مریم اورنگ زیب صاحبہ کے علاوہ ڈاکٹر مصدق‘ طلال ‘ دانیال‘ زبیر اور پرویز رشید جس میں شامل ہیں۔ (بے نظیر صاحبہ کے ساتھ بھی''انکلز‘‘ کے حوالے سے یہی معاملہ تھا) میاں صاحب کے ساتھ عرفان صاحب کی مصروفیات میں‘ ان کی تقریر لکھنا بھی تھا‘لیکن مریم کا اپنا سٹائل ہے‘ وہ لکھی ہوئی تقریر نہیں کرتیں ''منہ زبانی‘‘ تقریر کے نوٹس بھی خود تیار کرتی ہیں؛ چنانچہ عرفان صدیقی کے لیے ان دنوں فراغت ہی فراغت ہے۔ بیشتر وقت پڑھنے یا بھولی ہوئی داستانوں کو یاد کرنے میں گزرتا ہے۔ شوکت واسطی نے کہا ہے۔ْ 
شوکتؔ ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
عرفان صاحب منظر سے غائب ہوئے تو یار دوست طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ''میاں صاحب کو مروا کر خود چھپ گئے‘ دبئی بھاگ گئے‘‘ لیکن قدرت یوں مہربان ہوئی کہ وہ یکایک قومی وبین الاقوامی میڈیا کی خبروں ‘ تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بن گئے۔جمعہ کی نصف شب کوئی درجن بھر گاڑیوں میں باوردی اور بے وردی اہل کاروں کے ساتھ پولیس G/10اسلام آباد میں ان کی گرفتاری کے لیے پہنچی‘ تو وہ اپنے بیڈ روم میں کچھ پرانے نوٹس دیکھ رہے تھے‘ قلم بھی ان کے ہاتھ میں تھا‘ دروازے کی گھنٹی بجی تو وہ اسی طرح باہر چلے آئے۔ انہیں جس طرح دھکیل کر یا گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا گیا‘ اس کی تفصیل میڈیامیں آچکی ‘اس دھکم پیل میں انہوں نے قلم کوہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اگلے روز جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیشی کے موقع پر ہتھکڑی کے ساتھ یہ قلم بھی بلند تھا‘ ہتھکڑی میں دوسرا ہاتھ کرائے دار جاوید اقبال کا تھا۔ ضلع کرک کے جاوید اقبال نے پچیس تیس سال دبئی میں محنت سے پیسہ کمایا۔کچھ عرصہ پہلے اپنے وطن میں کاروبار کے لیے لوٹ آئے‘ تین دن قبل ان کے بچے بھی دبئی سے واپس آگئے اور کرائے کے اس مکان میں مقیم ہوئے‘ جو ''فساد کی جڑ‘‘ بن گیا۔ عرفان صاحب کے گھر سے چند گلیوں کے فاصلے پر G-10/3 میں ان کے صاحبزادے عمران خاور صدیقی کا مکان ہے (جو دبئی میں مقیم ہیں)۔ کرایہ نامہ میں بھی مالکِ مکان کے طور پر انہی کا نام ہے۔ ایف آئی آر میںقانون کرایہ داری کی خلاف ورزی کا الزام ہے‘ جس کے مطابق 30دن کے اندر متعلقہ تھانے کو کرایہ دار کے متعلق تفصیلات مہیا کرنا ہوتی ہیں۔کہا جاتا ہے ‘ کرایہ نامہ 20جولائی کو فائنل ہوا‘ 23جولائی کو کرایہ دار فیملی یہاں منتقل ہوئی اور صرف تین دن بعد عرفان صاحب (اورکرایہ دار)تھانے کو اطلاع نہ دینے کے جرم میں دھر لیے گئے۔ وفاقی وصوبائی ترجمان ‘اب عرفان صاحب پر اپنے صاحبزادے کے جعلی دستخط کا الزام لگا رہے ہیں‘ لیکن ایف آئی آر میں تو الزام کچھ اور تھا۔ اور کیا یہ الزام اتنا سنگین تھا اور 78سالہ ملزم اتنا خطرناک تھا کہ اسے ہتھکڑیاں لگا کر پیش کرنا لازم تھا۔ سرکاری ترجمانوں کے مطابق ‘ جناب وزیر اعظم نے بھی نوٹس (گرفتاری پر نہیں) ہتھکڑیاں لگانے پر لیا ہے۔
جناب عرفان صدیقی نے سرسید کالج ‘راولپنڈی جیسے ممتاز تعلیمی ادارہ میں25سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس طویل عرصہ میں ان کے کئی شاگرد سول اور فوج میں اعلیٰ عہدوں پر بھی پہنچے‘بعض سیاست میں بھی نمایاں ہوئے۔ 1988ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کوچۂ صحافت کا رخ کیا کہ قلم وقرطاس سے ان کا رشتہ دورانِ تدریس بھی قائم تھا۔ صحافت کے ابتدائی مراحل ہی میں انہیں صلاح الدین شہید اور شامی صاحب جیسے نامی گرامی مدیران کی رفاقت حاصل ہوگئی اور انہوں نے افغانستان میں طالبان کے ظہور سمیت متعدد معرکۃا لآرا چیزیں تحریر کیں۔ جناب رفیق تارڑ کا سپریم کورٹ سے ریٹائر منٹ کے بعد ‘انٹرویو بھی شامل تھا‘جس کی بنا پر تارڑ صاحب‘ الیکشن کمیشن سے صدارتی الیکشن کے لیے نااہل قرار پائے(سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم کردیا)12اکتوبر 1999ء کو عرفان صاحب‘ صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری تھے‘ وہ مستعفی ہونا چاہتے تھے‘ لیکن صدر صاحب نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اکٹھے آئے ہیں ‘ اکٹھے جائیں گے۔ایوان صدر سے تارڑ صاحب کی رخصتی کے ساتھ عرفان صاحب نے بھی سامان باندھ لیا۔ قدرت‘ اب ان سے کوئی اور کام لینا چاہتی تھی۔ ادھر ایک قومی روزنامہ میں ان کی کالم نگاری کا آغاز ہوا‘ ادھر نائن الیون کے بعد پاکستان میں بھی منظر بدل گیا۔ امریکہ کے زیر عتاب افغان طالبان اور ڈاکٹر قدیر کی حمایت میں ان کے کالموں نے دیکھتے ہی دیکھتے ‘ کالم نویسوں کی برادری میں انہیں نمایاں تر کردیا۔ ''نقش خیال‘‘،''جادو نگری‘،‘''کالم کہانی‘‘،‘''جو بچھڑ گئے‘‘ اور جنرل اختر عبدالرحمن پر ان کی کتاب نے بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ 
میاں نوازشریف سے جان پہچان ان دنوں ہوئی جب وہ ایوان ِصدر میں پریس سیکرٹری تھے۔ جلا وطنی کے دوران قربت میں اضافہ ہوا اور پھر وہ میاں صاحب کے حلقۂ مشاورت میں اہم تر افراد میں شمار ہونے لگے۔ اس دوران وہ ان کے تقریر نویس بھی ہو گئے۔ اپنی تیسری وزارتِ عظمیٰ کے دوران میاں صاحب انہیں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی ذمہ داریاں سوپنا چاہتے تھے۔ پرویز رشید کیلئے انہوں نے ایک اور اہم تر ذمہ داری سوچ رکھی تھی‘ لیکن عرفان صاحب ٹالتے رہے۔ آخر کار '' قومی تاریخ اور ادبی ورثہ‘‘ کے نام سے قائم ہونیوالے نئے ڈویژن کی ذمہ داریاں انہوں نے قبول کر لیں ( مشیر کے طور پر ان کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر تھا) سرکاری ذمہ داری سے گریز کا بنیادی سبب ان کا یہ ''اصول ‘‘ تھا کہ سرکاری منصب قبول کرنے کے بعد انہیں کالم نویسی ترک کرنا پڑے گی(اس بار ے میں میاں صاحب کے ساتھ ان کی ایک ملاقات میں ہم بھی موجود تھے)
عرفان صاحب خوش قسمت ہیں کہ قانونِ کرایہ داری میں پکڑے گئے‘ ورنہ یہاں ایف آئی اے اور اینٹی نارکوٹکس بھی موجود تھے۔گرفتاری کی طرح عرفان صاحب کی رہائی بھی ڈرامائی تھی‘ جس عدالت نے ہفتہ کے روز 14روزہ ریمانڈ پر جیل بھیجا تھا‘ اسی نے اگلے ہی روز (اتوار کے باوجود)ضمانت پر ان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا ۔ ''قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے‘‘ پرانی کہاوت ہے۔ ہتھکڑیوں والے ہاتھ میں قلم شاید کچھ زیادہ طاقتور ثابت ہوا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں