جگرؔ مراد آبادی نے کہا تھا
ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا
تجھے اے جگرؔ مبارک یہ شکستِ فاتحانہ
اپوزیشن بھی چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی کو '' شکستِ خانہ‘‘ قرار دے سکتی ہے کہ ''سیکرٹ بیلٹ‘‘ کے باوجود تحریک کے حق میں پچاس اور مخالفت میں پینتالیس ووٹ آئے تھے‘ جبکہ اس سے قبل ایوان میں64ارکان نے کھڑے ہو کر اس کی حمایت کی تھی۔ معاملہ پردے کے پیچھے گیا‘ تو 14کا'' ضمیر‘‘ جاگ اٹھا‘ ان میں سے9نے مخالفت میں ووٹ دیا‘ 5نے بیلٹ ضائع کرکے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا۔لیکن عشق کا ایک امتحان ابھی باقی تھا‘ ڈپٹی چیئر مین کے خلاف تحریک عدم اعتماد ‘جو ''حکومت‘‘ نے پیش کی تھی اور اس کی حمایت میں صرف 32ووٹ آئے۔ اپوزیشن نے یہاں حکمت عملی تبدیل کرلی تھی‘ اس نے ڈپٹی چیئر مین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا‘ یوں اس کی صفوں میں ''اصحابِ ضمیر‘‘ کو پردے کے پیچھے جاکر‘ ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کا موقع ہی نہ ملا۔
ادھر سوشل میڈیا پر ''ضمیر ‘‘ دلچسپ تبصروں کا موضوع بن گیا ہے۔شخصیت پر نام کے اثرات کی بات ہورہی تھی۔ ایک صاحب گویاہوئے:میرے سب سے بڑے بھائی کا نام عابد ہے‘ پانچ فرض نماز وں کے علاوہ تہجد اور اشراق بھی ان کے معمول کا حصہ ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ اورادووظائف کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ ان کے بعد صابر صاحب ہیں‘ بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی حرفِ شکایت زباں پر نہیں لاتے۔ تیسرے شاکر ہیں‘ پانی کا پہلا گھونٹ اور کھانے کا پہلا نوالہ بھی شکر کے کلمات کے بغیر منہ میں نہیں ڈالتے‘ پھر صاعقہ بہن ہیں ‘ غصہ ان کی ناک پر دھرا رہتا ہے‘کوئی معمولی سی ناپسندیدہ بات بھی ہو‘ بجلی کی طرح لپکنا اور کڑکنا ان کی عادت ہے‘ پھر شگفتہ بھابی ہیں‘ انہیں شاید ہی کبھی غصہ آیا ہو۔ مسکراہٹ ان کی شخصیت کا مستقل حصہ ہے۔ سب سے چھوٹے ضمیر میاں ہیں‘ سوئے رہنا ان کی عادت ہے‘ لیکن فائدے کی کوئی بات ہو‘ تو بڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔
تفنن برطرف‘ پارلیمان کے ایوانِ بالا میں اس ''شکستِ فاتحانہ‘‘ کے بعداپوزیشن کو اب ''ڈیمج کنٹرول‘‘ کا چیلنج درپیش ہے۔ کہا جاتا ہے‘ اس کی صفوں میں شکوک وشبہات کے سائے تو پہلے سے موجود تھے‘ حاصل بزنجویا اپوزیشن کے کسی اور سرکردہ کی طرف سے ہارس ٹریڈنگ یا کسی اور دیدہ و نادیدہ دبائو کی تردید یا اظہارِ لاعلمی دراصل اپنی صفوں کو مستحکم رکھنے اور اپنے ارکان کو مایوس وناامیدی سے بچانے کا حربہ تھا۔یہ بھی پڑھنے سننے میں آیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ایوان کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے‘ شہبازشریف کے برنچ میں یہ جناب مشاہد حسین تھے‘ جنہوں نے راجہ ظفر الحق اوررضا ربانی کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ ''ڈیل‘‘ ہوچکی ‘ زیر حراست آصف زرداری سے گزشتہ رات ڈھلے یہ معاملہ ملک کے ایک بڑے ٹائیکون کے ذریعے طے پایا‘ جس کے بعد اپنے قابلِ اعتماد سندھی ووٹروں کو پس پردہ کردار کے لیے پیغام پہنچا دیا گیا (لیکن نوجوان بلاول اس سے بے خبر تھے؛چنانچہ جمعرات کی سہ پہر نتیجہ آنے کے بعد ‘ شہبازشریف اور دیگر اپوزیشن لیڈروں کی موجودگی میں میڈیا سے ان کی جذباتی گفتگو اداکاری نہیں تھی‘وہ واقعی صدمے میںتھے)
دلچسپ بات یہ کہ تحریک کی ناکامی کے بعد‘ اپوزیشن کے اجلاس میں پھر وہ سب سینیٹر موجود تھے جنہوں نے ایوان میں کھڑے ہو کر تحریک کی حمایت کی تھی( ان میں ''اصحاب ضمیر‘‘ بھی تھے)جناب رضا ربانی اتنے شکستہ خاطر تھے کہ استعفے کا اعلان کردیا۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا‘ نوجوان مصطفی نواز کھوکھر دوسرا قطرہ بنے اور پھر استعفوں کی بارش ہو گئی‘ پیپلز پارٹی کے سبھی سینیٹر ز نے استعفے پیش کردیئے۔
مسلم لیگ (ن)کے سینیٹرز بھی رضا کارانہ استعفوں کے لیے تیار تھے‘ لیکن شہباز صاحب نے روک دیا۔ سینیٹر علامہ ساجد میر کی جمعیت اہل حدیث کے سیکرٹری جنرل حافظ عبدالکریم بھی میر صاحب کی طرح مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر ہیں‘ وہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہورہے تھے۔ ان کا کہنا تھا : تحقیقات کا آغاز مجھ سے ہو کہ اس کے بعد مجھے حج پرجانا ہے۔شہباز صاحب کا کہنا تھا کہ آپ اطمینان سے جائیں‘ کسی کو آپ پر شک نہیں۔ جنرل(ر) عبدالقیوم بھی شکوک کی زد میں تھے‘ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی کا معاملہ بھی یہی تھا۔سوشل میڈیا پر ''اصحاب ضمیر‘‘ کی فرضی فہرستیں گردش کررہی تھیں۔ ایک معتبر اخبار نویس کے مطابق14''اصحاب ضمیر‘‘میں سے سات کا تعلق پیپلز پارٹی سے ‘ پانچ کا مسلم لیگ (ن) سے اور 2کا جمعیت علماء اسلام (ف) سے تھا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہناتھا ‘ اپنے ساتھیوں میں سے کس پر شک کروں ؟ نوجوان لیڈر نے معاملے کی تحقیقات کے لیے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر قیادت پانچ رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔ شہباز صاحب نے اپنی تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی مسلم لیگی سینیٹر رانا مقبول (سابق آئی جی پولیس) کو سونپی ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔
بلاول بھٹو زرداری نے تحقیقات کے نتائج آنے تک اس حوالے سے کسی قسم کی بیان بازی سے منع کردیا ہے۔ یہی ہدایت شہبازشریف کی طرف سے اپنے مسلم لیگی رفقا کے لیے ہے۔ اس ڈیمج کنٹرول ایکسر سائز کے دوران خواجہ محمد آصف کا ایک ٹی وی انٹرویو بھی آیا‘ جس میں انہوں نے سینیٹ میں اس ڈرامے کا اصل ذمہ دار آصف زرداری کو قرار دیتے ہوئے چار پانچ مسلم لیگیوں پر بھی (نام لئے بغیر)ضمیر فروشی کا الزام لگادیا تھا۔
اس دوران مولانا فضل الرحمن کی خاموشی کو بھی یار لوگوں نے تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بنایا۔ ماحولیات کی وزیر مملکت زرتاج گل نے تو ''اعلان گمشدگی‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ٹویٹ کردیا: ''جب سے سینیٹ کے انتخابات ہوئے ہیں‘ تب سے فضل الرحمن نامی ایک جانا پہچانا شخص لاپتہ ہے۔ ان کے بارے میں معلومات پلیز!‘‘۔لیکن دو دن کی خاموشی کے بعد مولانا پھر سرگرم ہوئے ہیں‘ اتوار کی شام انہوں نے میاں شہبازشریف اور بلاول بھٹو زرداری سے فون پر رابطہ اور آئندہ لائحہ عمل کے لیے مل بیٹھنے پر تبادلۂ خیال کیا۔ دونوں کو مولانا سے اتفاق تھا‘ ان تین ''بڑوں ‘‘کی ملاقات‘ دو تین روز میں متوقع ہے‘ جبکہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان تو انہوں نے جمعرات کے شام ہی کردیا تھا۔
ادھر میر حاصل بزنجوملک کی سپریم ایجنسی کے سربراہ کے متعلق اپنے ریمارکس پر ہدفِ تنقید ہیں‘ بزنجو صاحب نے جمعرات کی شام تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد‘ پارلیمنٹ گیلری میں چلتے ہوئے ایک اخبار نویس کے سوال پر یہ ریمارکس دیئے تھے۔ (جو میڈیا پر نہیں آئے تھے) ہم جیسوں کو اس کی اطلاع ‘ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مذمتی ٹویٹ سے ہوئی۔ ادھر ان ریمارکس پر بزنجو صاحب کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمے کے اندراج کی درخواستیں بھی دائر کی جارہی ہے‘گوجرانوالہ اور فیصل آباد کی سیشن کورٹ نے اس سلسلے میں بزنجو صاحب کو نوٹس بھی جاری کردیئے ہیں۔ ادھر ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان نے بھی بزنجو کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف(اور اس کے اتحادیوں)کے خیال میں میر حاصل بزنجو پر جو الزامات ہیں‘ اس حوالے سے ان کے خلاف آواز خود ان کے اپنے صوبے بلوچستان کے حلقوں سے نہیں اٹھی‘ آخر وہاں بھی تو تحریک انصاف اور اس کے اتحادی موجود ہیں۔ ہمارے لیے یہ حیران کن ہے کہ میر حاصل بزنجو کے بارے یہ باتیں پنجاب سے اٹھی ہے حالانکہ یہ باتیں بلوچستان میںپاکستان تحریک انصاف کے رہنما بھی کر سکتے تھے۔اگر وہاں کے حلقوں سے یہ آوازیں اٹھتیں تو ان کا اثر شاید مختلف ہوتا۔