پاک بحریہ کے سابق سربراہ (اور سعودی عرب میں پاکستان کے سابق سفیر) ایڈمرل عبدالعزیز مرزا سے یہ ملاقات دو، اڑھائی گھنٹوں پر محیط تھی۔دس سال قبل مکہ مکرمہ میں ہونے والی اس گفتگو کا مفصل بیان مقصود نہیں۔ پاک بھارت جنگوں میں، پاک بحریہ کی کہانی کا ضروری حصہ آپ گزشتہ کالم میں پڑھ چکے۔ آج کچھ اور باتیں اختصار کے ساتھ:
ایڈمرل صاحب بتا رہے تھے: فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں، ایس ایم چودھری پاک بحریہ کے سربراہ تھے، ان کا ایوب خان سے عموماً جھگڑا رہتا کہ نیوی کی ڈویلپمنٹ پرضروری توجہ نہیں دی جارہی۔ وہ اصرار کرتے کہ نیوی پر... بلکہ صرف نیوی پر نہیں، سارے میری ٹائم سیکٹر کی ڈویلپمنٹ پر توجہ دی جائے، جس میں بندرگاہوں کی ڈویلپمنٹ، شپ بلڈنگ، شپ بریکنگ اور بحری تجارت وغیرہ آتے ہیں لیکن بہت عرصہ تک ہمارے پالیسی سازوں اور حکمت کاروں میں یہ سوچ غالب رہی کہ بھارت سے اصل مقابلہ زمینی ہوگا‘ اس لیے اصل توجہ اور اصل اہمیت اسی طرف ہونی چاہیے۔ ایوب خاں (اور کچھ اور لوگوں) کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ نیوی کی ضرورت ہی نہیں۔ 1971کی جنگ کے بعد بھٹوصاحب آئے تو انہوں نے جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹر بنایا، بنیادی تصور یہ تھاکہ تینوں افواج، آرمی، ایئرفورس اور نیوی میں کوآرڈی نیشن ہو۔ ان کی یہ سوچ بھی تھی کہ تینوں افواج میں ایک طرف کا توازن رکھا جائے اور بجٹ میں سب کا مناسب حصہ ہو...
٭۔یہ جواپنے ہاں وقتاً فوقتاً ''ٹیک اوور‘‘ ہوتا رہا تو کیا اس میں ایئرفورس اور نیوی کا بھی کوئی حصہ ہوتا تھا؟... بس اطلاع دیدی جاتی تھی، مثلاً 12اکتوبر 1999کے ٹیک اوور میں، مشرف صاحب تو ہوائی جہاز میںتھے۔ زمین پر چیف آف جنرل سٹاف جنرل عزیز اور کورکمانڈر جنرل محمود تھے۔ آرمی 5بجے موو کرگئی تھی جب ایئر چیف پی کیو مہدی اور مجھے فون کرکے بتا دیا گیا کہ ہم موو کر رہے ہیں، آپ بھی الرٹ ہو جائیں۔
٭۔کچھ کارگل کا بتائیں... میں اس وقت نیوی میں وائس چیف تھا۔ کارگل آپریشن کے حوالے سے نیوی اور ایئر فورس تو کجا، دوسرے سینئر فوجی افسران کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا‘ سوائے چند جرنیلوں کے، جن میں کور کمانڈر راولپنڈی جنرل محمود شامل تھے۔ ناردرن ایریاز کے کمانڈر جاوید حسن تھے، جنرل توقیر ضیا تھے (تب ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز)، جنرل احسان تھے (ڈی جی ایم آئی، بعد میں چیئرمین جوائنٹ سٹاف کمیٹی)... جنرل مشرف اور جنرل عزیز کا تو یہ برین چائلڈ تھا ہی... اس آپریشن میںاچھی خاصی شہادتیں ہوئیں۔ پاکستان کی پوزیشن خراب ہوتی جارہی تھی۔ نوازشریف کو سیزفائر کیلئے واشنگٹن جانا پڑا۔
٭۔ کچھ نائن الیون کے متعلق؟... اکتوبر 2002 کے الیکشن سے پہلے نیشنل سکیورٹی کونسل کے علاوہ دس، بارہ وزرا پر مشتمل وفاقی کابینہ بھی ہوتی تھی لیکن یہ معاملہ نیشنل سکیورٹی کونسل میں زیر بحث آیا تھا جس میں تینوں سروس چیفس کے علاوہ جنرل عزیز، جنرل محمود (آئی ایس آئی چیف)، جنرل احسان، شریف الدین پیرزادہ، اٹارنی جنرل عزیز اے منشی، وزیر خزانہ شوکت عزیز، وزیر داخلہ جنرل معین الدین حیدر، کمیونیکیشن منسٹر جنرل قاضی جاوید اشرف، وزیر خارجہ عبدالستار، سیکرٹری خارجہ انعام الحق اور طارق عزیز تھے (یہ امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کی کال آنے سے پہلے کی بات ہے)۔ میں نیوی کے دورے پر کراچی میں تھا، واپسی پر چکلالہ ایئرپورٹ سے سیدھا میٹنگ میں پہنچا۔ میٹنگ رات 2 بجے تک چلتی رہی۔ اکثریت کی رائے تھی کہ ہمیں امریکہ کا ساتھ دینا چاہیے۔
٭۔ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت کسی نے محسوس نہ کی؟... یہ تجویز بھی آئی تھی، لیکن اس پر فیصلہ نہ ہو سکا۔ ایک رائے یہ تھی کہ غیر مشروط حمایت کی بجائے امریکہ سے قرضے رائٹ آف کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ بعض نے کہا کہ آرمڈ فورسز کی ضروریات کی فہرست بنا کر پیش کی جائے، فہرست بنائی بھی گئی، اگلے دن کا بینہ کی میٹنگ میں اس کی توثیق بھی کرائی گئی...
٭۔ وار آن ٹیرر میں تعاون کی کچھ حدود و قیود بھی طے پائی تھیں؟... اس وقت مصحف میر ایئر فورس کے سربراہ تھے۔ کراچی سے اوپر بلوچستان کے بارڈر کے ساتھ ساتھ ایک کوریڈور ہے۔ میٹنگ میں طے پایا کہ امریکی اسی کے اندر آپریٹ کریں گے۔ فیولنگ اور دیگر لاجسٹک سپورٹ کیلئے شمسی ایئربیس دیا گیا تھا، انٹیلی جنس تبادلے کی بات بھی ہوئی تھی... بعد میں امریکہ نے جو رویہ اختیار کرلیا، یہ جو ڈرون حملے ہورہے ہیں‘ یہ سب کچھ غلط ہے، پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہے۔ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا۔
٭۔ مشرف دور پر آپ کا تبصرہ؟... پہلے تین سال‘ نیول چیف کے طور پر میں نیشنل سکیورٹی کونسل میں شامل تھا۔ جنرل مشرف آل پاور فل تھے۔ پھر الیکشن آ گیا۔ اس میں کچھ کمپرومائز ہوئے، کچھ رگنگ ہوئی، کچھ اور گیمز بھی ہوئیں۔ مقصد اپنے اقتدار کو طول دینا تھا جس کے لیے ایک سویلین حکومت کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے بدعنوان لوگوں سے بھی مفاہمت کرنا پڑی۔
٭۔ وارآن ٹیرر میں پاکستان نیوی کا بھی کوئی کردار ہے؟ ... بالکل ہے۔ پاکستان نیوی نے سمندر میں کئی کشتیاں پکڑیں جن میں ہتھیار تھے۔ اس میں پاکستان کوسٹ گارڈز کا بھی ایک رول ہے۔ بحرین میں امریکی سینٹرل کمانڈ کا جو ہیڈکوارٹر ہے اس میں امریکہ کا تھری سٹار یا ٹو سٹار ایڈمرل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی پاکستان نیوی کی بھرپور کوارڈی نیشن ہے جو سمندر میں ہتھیاروں یا دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتی ہے۔
٭۔ 26 نومبر2008 کو تاج ہوٹل ممبئی کا واقعہ، پاکستان سے سمندر کے راستے دہشت گردوں کے وہاں پہنچنے کی کہانی؟... یہ قطعاً ممکن نہ تھا۔ اس میں بہت سے لنک مسنگ ہیں۔ پاکستان سے کشتیوں میں جاکر ممبئی کے ساحل پر اترنا، وہاں سے اسلحہ کے تھیلوں سمیت اتنی صحیح روڈ میپنگ کے ساتھ اہداف پر پہنچنا، یہ سب فلمی مناظر لگتے ہیں۔ کراچی یا ٹھٹھہ کے ساحل سے ممبئی کے ساحل تک 500 میل کا فاصلہ ہے۔ اس میں چیک پوسٹیں آتی ہیں، کوسٹ گارڈز ہوتے ہیں۔ ان سے دور کسی جگہ اترنا اور پھر اہداف تک پہنچنا ''مقامی تعاون‘‘ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
٭۔ نیوی کے حوالے سے پاک، سعودی تعلقات؟... سعودی عرب کے ساتھ ہماری باقاعدہ مشقیں ہوا کرتی تھیں، ایک سال سعود ی سمندر میں اور ایک سال پاکستانی پانیوں میں۔ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد پابندیاں لگیں تو ہمارا بجٹ بھی متاثر ہوا؛ چنانچہ مشقیں باقاعدہ نہ رہیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ سعودی بحریہ کے سربراہ پرنس فہد کی بنیادی تربیت تو برطانیہ میں ہوئی لیکن انہوں نے کئی کورس پاکستان میں بھی کئے۔ وہ پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ انہی کے کہنے پر سعودی کیڈٹس کی ٹریننگ پاکستان میں ہوئی۔ 1971 کے بعد ایک وقت تھا کہ پاکستان نیول اکیڈمی میں سعودی کیڈٹس کی تعداد پاکستانیوں سے زیادہ تھی۔ اب بھی سعودی نیوی اور کوسٹ گارڈز میں پانچ، چھ سو افسر پاکستان کے تربیت یافتہ ہیں۔ 1987 میں سعودی عرب کی اپنی نیول اکیڈمی شروع ہوگئی تو یہاں سے کیڈٹ پاکستان جانا بند ہوگئے۔ پرنس فہد سعودی نیوی کے سربراہ بنے تو کچھ کیڈٹس پاکستان بھی جانے لگے۔
اس ملاقات میں ایک اہم سوال، پاک سعودی تجارت کے انتہائی کم حجم کے حوالے سے تھا۔ سعودی عرب میں پاکستان کے سابق سفیر کا کہنا تھا: میں اس کے لیے سعودیوں کو نہیں اپنے ہم وطنوں کو الزام دوں گا۔ کسی بھارتی وزیر کا دورہ ہوتا ہے تو وہ پوری تیاری اور ہوم ورک کے ساتھ آتے ہیں معاہدے اور سمجھوتے پہلے سے تیار ہوتے ہیں، دورے کے موقع پر صرف دستخط ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ایسا کوئی اہتمام نہیں کرتے۔ ایجنڈے میں تجارتی تعاون شاید کہیں آخر میں ہوتا ہے۔ پرنس ولید بن طلال دنیا کے چند بڑے سرمایہ کاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ میں ان سے 2003 میں ملا اور کہا، عرصہ ہوا آپ پاکستان نہیں گئے۔ انہوں نے رضامندی کا اظہار کیا لیکن مجھے اپنی حکومت کاباضابطہ دعوت نامہ لینے میں 8 ماہ لگ گئے۔ پرنس ولید کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان میں کوئی میگا پراجیکٹ دیں،جو آئندہ نسلوں تک چلنے والا ہو۔ میں نے فارن آفس اور متعلقہ لوگوں کو بریف کردیا۔ پرنس ولید پاکستان گئے۔ وزیر اعظم شوکت عزیز سے ان کے پرانے تعلقات تھے ۔ پرنس کی صدر مشرف سے بھی ملاقات ہوئی لیکن کام کی بات بس اتنی ہوئی کہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں ہوٹل بنا دو اور وہ بھی آج تک نہیں بنے کہ انہیں نہ جگہ دی گئی، نہ کوئی اور پیش رفت ہوئی۔