ریاض خیر آبادی کے سامنے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا ڈھیر تھا ؎
جام ہے توبہ شکن، توبہ مری جامِ شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
یہاں موضوعات کا انبار ہے اور ہر موضوع ایک مکمل کالم کا متقاضی۔ انہی دو تین دنوں پر نظر ڈال لیں۔ یہ خیال بے جا نہ تھا کہ بنی گالہ میں دو چھٹیاں گزارنے کے بعد جناب وزیر اعظم پُر سکون ہوں گے، لیکن سوموار کی سہ پہر حویلیاں ہزارہ موٹر وے کی ''افتتاحی تقریب‘‘ میں، وہ حسبِ معمول غصے میں تھے، ناقدین جسے ان کی فرسٹریشن اور ڈپریشن سے تعبیر کررہے تھے۔ انہوں نے نواز شریف کی بیماری اور پھر بیرونِ ملک علاج کے معاملے کو موضوع بنایا۔ فرمایا، کابینہ کی اکثریت (علاج کے لیے) بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی مخالف تھی‘ مگر مجھے رحم آ گیا (لیکن کابینہ کے اس اجلاس کی بریفنگ میں تو اطلاعات و نشریات کی معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے فرمایا تھا کہ وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں اس پر باقاعدہ ووٹنگ کرائی (اس کے لیے شو آف ہینڈز کا طریقہ اختیار کیا گیا) تو بھاری اکثریت نے نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی حمایت کی تھی۔ بہت کم افراد تھے جنہوں نے مخالفت کی۔ اخبارات میں ان کے نام بھی آئے، مثلاً فواد چودھری، فیصل وائوڈا، علی زیدی، علی امین گنڈا پور، غلام سرور خان اور شیریں مزاری وغیرہ) اب وزیر اعظم صاحب کا کہنا تھا کہ کابینہ کی اکثریت بیرون ملک اجازت دینے کی مخالف تھی ؎
کس کا یقین کیجئے، کس کا یقیں نہ کیجئے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
یہی سوال، معاونِ خصوصی صاحبہ سے کیا گیا تو ان کا مسکراہٹ آمیز جواب تھا: Boss is always right
وزیر اعظم کا کہنا تھا: ہم نے 7 ارب کی انڈیمنٹی بانڈ کی شرط لگائی تو کیا بُرا کیا؟ اتنی سی رقم تو شریف فیملی ٹپ میں دے سکتی ہے۔ پی ٹی آئی میں شامل بیرسٹر علی ظفر اور پی ٹی آئی کی کولیشن پارٹنر ایم کیو ایم کے بیرسٹر سیف تک انڈیمنٹی بانڈ کی شرط کو آئین اور قانون کے منافی قرار دے رہے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی درخواست پر اس شرط کو خلافِ قانون قرار دیتے ہوئے، دونوں بھائیوں کی طرف سے پچاس، پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر (علاج کے فوراً بعد) واپسی کی یقین دہانی پر اکتفا کیا۔ اٹارنی جنرل منصور علی خان اور وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اسے 7 ارب کے انڈیمنٹی بانڈ سے بھی کڑی شرط قرار دے رہے تھے۔ ان کے بقول، دونوں بھائیوں نے خود کو گروی رکھ دیا تھا، اور اپنی گردنیں عدالت عالیہ کے شکنجے میں دے دی تھیں۔ لیکن جناب وزیر اعظم، اس پر نا خوش تھے، اپنی تقریر میں انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں کہ یہاں طاقت ور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہے۔
طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون کی بات، ظاہر ہے، عدلیہ پر تنقید تھی۔ کہتے ہیں، جج نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ سپریم کورٹ (یا نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے والی ہائی کورٹس) نے رجسٹرار کے ذریعے جوابی (وضاحتی) بیان جاری کرنے کی بجائے، اسے نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا کہ عوامی سطح پر جواب الجواب میں الجھنا، عدلیہ کے منصب کے شایانِ شان نہ تھا۔
وزیر اعظم کی تقریر کے 48 گھنٹے بعد، جناب چیف جسٹس ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی تھے۔ انہوں نے نہایت متانت اور شائستگی کے ساتھ، اس حوالے سے اپنا نقطۂ نظر قوم کے سامنے پیش کرنا ضروری سمجھا۔ موقع محل کی مناسبت سے ان کی تقریر انگریزی میں تھی۔ ایک مرحلے پر انہوں نے اسے ایک طرف رکھا، چشمہ اتارا اور کہا کہ اب میں کچھ باتیں اردو میں کہنا چاہتا ہوں۔ اور پھر نہایت تحمل اور بردباری کے ساتھ انہوں نے جناب وزیر اعظم (اور قوم) کے سامنے کچھ حقائق بیان کیے، مثلاً وزیر اعظم نے جس کیس کا حوالہ دیا، اس میں خود وزیر اعظم نے'' انہیں‘‘ باہر جانے کی اجازت دی، ہائی کورٹ میں تو محض طریقہ کار پر بات ہوئی۔ ہمیں طاقت وروں کا طعنہ نہ دیں، ہمارے سامنے قانون کے سوا کوئی طاقت ور نہیں۔ ہم نے ایک وزیر اعظم کو سزا دی (جناب یوسف رضا گیلانی کو این آر او کے حوالے سے سوئس عدالت کو خط لکھنے سے انکار پر توہین عدالت میں سزا (تا برخواست عدالت حراست) جس پر وہ وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے علاوہ، پانچ سال کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل بھی قرار پائے) دوسرے وزیر اعظم (نواز شریف) کو نا اہل قرار دیا (حسنِ اتفاق کہ ان دونوں بینچوں میں جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ شامل تھے) اب ایک سابق آرمی چیف کا فیصلہ بھی جلد آنے والا ہے (یہاں جناب چیف جسٹس صاحب نے دونوں مکے بھی فضا میں بلند کئے۔ یہ جنرل پرویز مشرف کی اس تقریر کی طرف اشارہ تھا جو انہوں نے 12 مئی کی شام اسلام آباد کے جلسے میں کی تھی۔ اس روز کراچی میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے استقبال کے لیے سڑکوں پر نکلنے والے عوام پر سرکار کی سرپرستی میں فائرنگ کی گئی تھی، جس میں 50 افراد مارے گئے تھے۔ اور مشرف مکے لہراتے ہوئے، اسے اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ قرار دے رہے تھے...) جناب چیف جسٹس نے مزید فرمایا، ہمارا (موجودہ عدلیہ کا) موازنہ 2009 سے پہلے والی عدلیہ کے ساتھ نہ کیا جائے، اب یہ آزاد عدلیہ ہے۔ (مارچ 2007 میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی... اور پھر 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی پلس کے تحت چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت تقریباً 60 ججوں کی بر طرفی (اور نظر بندی) کے خلاف ''عدلیہ بحالی تحریک‘‘ کا آخری اور فیصلہ کن مرحلہ نواز شریف کی زیر قیادت 15 مارچ 2009 کی سہ پہر لاہور سے روانہ ہونے والا لانگ مارچ تھا‘ جس کے گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 2 نومبر کی عدلیہ کی بحالی کا اعلان کر دیا تھا۔
نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی طرف سے ہوائوں کا رخ تبدیل ہونے کی بات، اور یک طرفہ احتساب کا تاثر ختم کرنے کا عزم... گجرات کے چودھری برادران اور ایم کیو ایم کے بعد، اب پی ٹی آئی کے ایک اور کولیشن پارٹنر سندھ کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے بھی، وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے حوالے سے اظہار عدمِ اطمینان، سیاسی و صحافتی حلقوں میں تبصروں کا نیا موضوع ہے۔
ادھر سابق وزیر اعظم نواز شریف لندن پہنچ چکے ہیں۔ ایک ابتدائی ٹیسٹ ہو گیا ہے۔ پلیٹ لیٹس کے مرض کی تشخیص کے لیے کچھ اور ٹیسٹ ہونا ہیں جس کے بعد امریکہ جانے یا لندن ہی میں علاج کرانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ میاں صاحب چھوٹے صاحبزادے حسن نواز کے فلیٹ میں مقیم ہیں جہاں ایک کمرے میں، ان کے لیے تمام ضروری طبی سہولتوں کا اہتمام ہے۔ بیگم صاحبہ (مرحومہ) کے بغیر، یہ لندن میں ان کا پہلا قیام ہے۔ قتیل شفائی کی ایک طویل نظم کے کچھ مصرعے:
''میں اور میری تنہائی/ اکثر یہ باتیں کرتے ہیں/ تم ہوتیں تو کیسا ہوتا/ تم یہ کہتیں، تم وہ کہتیں/ تم اس بات پر حیران ہوتیں/ تم اس بات پر کتنا ہنستیں/ تم ہوتیں تو ایسا ہوتا/ تم ہوتیں تو ویسا ہوتا/ میں اور میری تنہائی/ اکثر یہ باتیں کرتے ہیں/ یہ پتیوں کی ہے سرسراہٹ/ کہ تم نے چپکے سے کچھ کہا ہے/ یہ سوچتا ہوں میں کب سے گم سم/ جبکہ مجھ کو بھی یہ خبر ہے/ کہ تم نہیں ہو، کہیں نہیں ہو/ مگر، یہ دل ہے کہ کہہ رہا ہے/ تم یہیں ہو‘ یہیں کہیں ہو‘‘