لندن سے آمدہ خبروں کے مطابق شہباز شریف، ایک بار پھر سیاسی (اور عوامی سطح) پر متحرک ہو گئے ہیں۔ گزشتہ روز وہ ایک ریسٹورنٹ میں ''عوام میں گھل مل‘‘ گئے۔ متوالوں نے ان کے ساتھ سیلفیاں بنوائیں۔ بعض ویڈیوز (یا فوٹیج) تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بھی بن جاتی ہیں۔ ایک فوٹیج نواز شریف کی بھی تھی۔ وہ ایک ریسٹورنٹ میں شہباز شریف‘ اسحاق ڈار اور گھر کے کچھ اور افراد کے ساتھ تھے، جس پر یار لوگوں نے کیا کیا تبصرے نہ کئے۔ ''کئی بیماریوں کے ساتھ ہریسہ، سری پائے اور نہاری کا ناشتہ‘‘... حالانکہ میز پر ان کھابوں کے کوئی آثار نہ تھے۔ حسین نواز کے بقول، یہ شام ساڑھے چار پانچ بجے کا وقت تھا۔ ڈاکٹروں کی ایڈوائس کے مطابق میاں صاحب ہوا خوری (اور چہل قدمی) کیلئے نکلے تھے۔ اس دوران ایک ریسٹورنٹ میں چائے کی پیالی کے لیے رک گئے۔
ایک فوٹیج معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی تھی، جس میں وہ سندس فائونڈیشن میں خون کا عطیہ دے رہی تھیں‘ لیکن اس میں کچھ تکنیکی خامیاں رہ گئیں مثلاً خون کا پائپ، سوئی کے بغیر ڈاکٹر صاحبہ کے بازو پر بندھی ہوئی پٹی میں داخل کیا جا رہا تھا اور میز پر پہلے سے بھرا ہوا خون کا بیگ پڑا تھا۔ مخالفین کو تو موقع چاہیے تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ وضاحتیں کرتی رہیں، یہ فائونڈیشن کے بروشر کیلئے محض فلم شوٹ تھا۔ وہ اس سے پہلے 22 بار خون کا عطیہ دے چکی تھیں، اب 23ویں بار بھی اس کیلئے تیار تھیں لیکن ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ انہیں خون دینے کے بعد کم از کم دو گھنٹے ہسپتال میں رکنا پڑے گا۔ شہر میں دیگر مصروفیات کے باعث ان کیلئے یہ ممکن نہ تھا؛ چنانچہ محض فلم شوٹ پر اکتفا کر لیا گیا۔ (ہمیں بھی تین، چار بار خون کا عطیہ دینے کی سعادت حاصل ہوئی، ہمیں تو ڈاکٹر اسی وقت چلتا کرتے تھے۔ ہماری اہلیہ (مرحومہ) جگر کے عارضے کے باعث ہسپتال میں تھیں۔ انہیں خون کی ضرورت رہتی۔ بچوں کا بلڈ گروپ، ماں کے گروپ سے ملتا تھا۔ مزید ضرورت ہوتی تو بچوں کے کلاس فیلو آنٹی کو خون دینے پہنچ جاتے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوتا۔ ادھر بیگ بھرا، اُدھرجوتے پہنے اور روانہ ہو گئے۔
سوشل میڈیا پر ایک اور تصویر، وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ سندھ کے آئی جی کلیم امام کی ملاقات کی ہے۔ باوردی آئی جی کی سٹِک (چھڑی) اس کے سامنے میز پر پڑی تھی (یہ چھڑی جسے ''اتھارٹی راڈ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، افسر مجاز کے اختیار کا اظہار ہوتا ہے)۔ جناب عمران خان ذاتی طور پر ایک کمپلیکس فری شخصیت ہیں، لیکن یہاں معاملہ پرائم منسٹر آف پاکستان کے ضروری آداب و احترام (بلیو بک کی زبان میں پروٹوکول) کا ہے۔ جناب پرائم منسٹر (اور ان کے پروٹوکول سٹاف) کی طرف سے اسے نظر انداز کرنے کا معاملہ الگ، لیکن خود آئی جی صاحب کو تو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ پرائم منسٹر سے ملاقات میں، چھڑی کو ان کی میز پر رکھنا آداب کے خلاف ہے۔ ملاقات سے ایک روز قبل موصوف کراچی میں ایک تقریب میں فرما چکے تھے کہ میرے خلاف سازش کی گئی (اشارہ سندھ حکومت کی طرف سے ان کے تبادلے پر اصرار کی طرف تھا) لیکن میں اتنی جلدی جانے والا نہیں، میں گیا بھی تو... مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔
کالم کا آغاز لندن میں شہباز شریف کے فعال ہونے کے حوالے سے تھا۔ ان کی تازہ ترین (بھرپور) سرگرمی ڈیلی میل کے پبلشر اور رپورٹر ڈیوڈ روز کے خلاف لندن کی رائل کورٹس آف جسٹس میں ہتک عزت کا دعویٰ ہے جو الیکٹرانک میڈیا کی بریکنگ نیوز اور اس کے بعد رات گئے تک ٹاک شوز کا اہم ترین موضوع بن گیا۔ شہباز صاحب نے یہ مقدمہ، ڈیلی میل کی ایک سٹوری پر دائر کیا ہے۔ 2500 الفاظ کی یہ سٹوری، ساڑھے چھ ماہ قبل (16 جولائی) کو شائع ہوئی تھی۔ پاکستان میں اسے محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ایک باقاعدہ پریس کانفرنس میں بریک کیا تھا۔ ڈیوڈ روز کی یہ سٹوری اکتوبر 2005 کے زلزلہ زدگان کے لیے، انگلستان کے سرکاری ادارے DFID کی 50 ملین پائونڈ کی امداد میں (مبینہ) خرد برد سے متعلق تھی (اس الزام میں شہباز صاحب کے داماد علی عمران اور صاحبزادے سلمان شہباز کا نام بھی تھا)۔
برسوں سے انگلستان میں مقیم ہمارے یارِ طرحدار پروفیسر طارق احمد، ان دنوں زندہ تھے۔ کینسر سے نبرد آزما، پروفیسر کی زندہ دلی اسی طرح توانا تھی۔ طارق نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ ڈیلی میل کو یہاں کوئی بھی معقول شخص سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ یہ ان ٹیبلائڈز میں شمار ہوتا ہے جن کا کاروبار ہی شرفا کی پگڑیاں اچھالنا ہے۔ انگلستان میں مقیم کچھ اور دوستوں نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات کی۔ پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ ملک، پی ایچ ڈی کے لیے 5 سال لندن میں رہے۔ ڈیوڈ روز کی سٹوری کا حوالہ دیئے بغیر ڈیلی میل کا ذکر کیا، تو ان کا جواب بھی یہی تھا، Rubbish-Trash۔ احسن اقبال کے بقول، وکی پیڈیا بھی ڈیلی میل کو ٹیبلائڈز میں شمار کرتا ہے اور اس کی خبروں کو ریفرنس نہیں بناتا۔
اس سٹوری کے جواب میں سب سے اہم چیز خود DFID کی تردید تھی۔ برطانوی ادارے کے ترجمان کے مطابق ''ایرا‘‘ (زلزلہ زدگان کے لیے ریلیف اور بحالی کا کام کرنے والے وفاقی حکومت کے ادارے) کو مہیا کی گئی رقوم کا باقاعدہ آڈٹ اور تصدیق کی جاتی ہے۔ DFID مطمئن تھا کہ برطانوی ٹیکس دہندگان کی ایک ایک پائی درست استعمال ہوئی‘ اور اس میں کہیں فراڈ نہیں ہوا۔ شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ ان پر ملتان میٹرو میں اربوں کی کرپشن کا الزام آیا تو خود متعلقہ چینی فرم نے اس کی تردید کردی تھی۔
مریم اورنگ زیب کا استدلال تھا کہ زلزلہ 2005ء میں آیا تھا۔ تب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف (اور پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی) کی حکومت تھی۔ شہباز شریف باقی فیملی کے ساتھ جلا وطن تھے۔ اور یہ بھی کہ زلزلے میں زیادہ تر متاثرہ علاقے خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کے تھے۔ شہبازشریف جلاوطنی کے خاتمے پر 2008 سے 2013 تک وزیر اعلیٰ رہے۔ زلزلہ زدگان کے لیے بیرونی امداد وفاقی حکومت کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں، ''ایرا‘‘ کے ذریعے خرچ ہوئی اور تب وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔
ہمیں یاد آیا، اکتوبر 2005 میں شریف فیملی جدہ میں مقیم تھی۔ میاں نوازشریف نے آزادکشمیر کے زلزلہ زدگان کے علاج معالجے کے اہتمام لئے مسلم لیگ(ن)کے زیر اہتمام ریلیف کیمپ قائم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس مہم کی نگرانی ڈاکٹر سعید الٰہی کے سپرد ہوئی۔ سعید الٰہی نے لاہور سے نوجوان ڈاکٹروں اور نرسوں کی ٹیم کے ساتھ مظفر آباد میں ڈیرے ڈال لئے۔ میاں صاحب تقریباً ہر شام سعید الٰہی کے فون پر رابطہ کرتے... ایک اور بات یاد آئی۔ شہباز صاحب امریکہ میں علاج کے بعد کینسر سے صحت یاب ہوئے تو شوکت خانم ہسپتال کو (شکرانے کے طور پر) 30 لاکھ روپے بھجوائے جس کا شکریہ ادا کرنے عمران خان خود سرور پیلس تشریف لائے۔
ڈیلی میل کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے اپنے قانونی تقاضے تھے۔ اس کے لیے پہلا قانونی نوٹس 25 جولائی کو بھجوایا گیا۔ بعد میں دو اور نوٹس بھی بھجوائے گئے۔ اور اب 30 جنوری کو باقاعدہ مقدمہ دائر کردیا گیا۔ شہباز صاحب نے (اپنے وکلا کے ہمراہ) پریس کانفرنس میں ڈیلی میل کی سٹوری کو ''پلانٹڈ‘‘ اور ''فیبریکیٹڈ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری وزیر اعظم اور معاونِ خصوصی شہزاد اکبر پر عائدکی (مریم اورنگ زیب نے وزیر اعظم کے ساتھ ڈیوڈ روز کی بنی گالہ میں ملاقات کی تصویر بھی دکھائی تھی‘ جسے ڈیوڈ روز نے ایک گزشتہ انٹرویو کی تصویر قرار دیا) شہباز شریف نے وزیر اعظم اور ان کے معاون خصوصی کے خلاف لندن میں مقدمہ درج کرانے کا اعلان بھی کیا تھا، لیکن وکلا کے خیال میں، یہ معاملہ برطانوی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اس سوال پر کہ کیا ان کے خلاف پاکستانی عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا؟ شہباز شریف کا جواب تھا کہ وہ اپنی عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، لیکن یہاں ایسے مقدمات کے فیصلے برسوں نہیں ہو پاتے جبکہ برطانیہ میں ان کا فیصلہ ڈیڑھ، دوسال میں ہوجاتاہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم صاحب کے خلاف ان کی طرف سے دائر کئے گئے ہتک عزت کے تین مقدمات، پاکستانی عدالتوں میں ایک عرصہ سے زیر سماعت ہیں اور حالت یہ ہے کہ مدعا علیہ کے وکیل بھی پیشی پر نہیں آتے۔