برادرم خورشید ندیم سے معذرت کے ساتھ!
یہ خود پسندی سے بھی کہیں آگے خود پرستی کا معاملہ ہے۔کورونا نے ساری دنیا کو بدترین بحران سے دوچار کر دیا ہے‘ یہ بحران کتنا عرصہ جاری رہے گا؟ فی الحال کچھ کہنا ممکن نہیں۔ ابھی تو ہر آنے والا دن بحران کے سنگین تر ہونے کی خبر لا رہا ہے۔ اٹلی اور سپین میں گزشتہ روز ہونے والی اموات‘ اس بحران کے کسی بھی دن ہونے والی اموات سے زیادہ تھیں۔ اپنی عسکری و اقتصادی قوت اور جدید ترین ٹیکنالوجی پر فخر کرنے والی سولو سپر پاور کی لاچارگی‘ بے کسی اور بے بسی بھی ساری دنیا پر عیاں ہو چکی۔ ربِ ذوالجلال اپنے بندوں کیلئے اس ابتلاکو مزید طول نہ دے۔ ایک بات واضح ہے‘ دنیا بدل چکی‘ اس بحران کے بعد والی دنیا‘ ایک بدلی ہوئی دنیا ہوگی‘ یکسر تبدیل شدہ دنیا۔ استادِ محترم جناب الطاف حسن قریشی نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا: ''اب تک تاریخ میں قبل از مسیح اور بعد از مسیح کی تقسیم تھی‘ جبکہ آئندہ قبل از کورونا وائرس اور بعد از کورونا وائرس کی اصطلاحات استعمال ہوں گی‘‘۔
ادھر پاکستان میں بھی‘ ابھی تو ہر آنے والا دن بحران کے سنگین تر ہونے کی خبر لا رہا ہے۔ یہاں تک کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمن بھی یہ کہے بغیر نہیں رہے کہ وہ حالات کو بگڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے بقول مریضوں کا ڈیٹا صورت حال کی حقیقی عکاسی نہیں کر رہا‘ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کورونا کے مثبت ٹیسٹ والوں کو ہسپتال کی بجائے ان کے گھروں میں ہی رکھنے کی خبر دے رہی ہیں (ان کے بقول‘ اس کیلئے ضروری ''ایسی او پیز‘‘ (SOPS) تیار کئے جا رہے ہیں)۔
پاکستانی قوم کو قدرت نے بدترین حالات سے بھی ''سروائیو‘‘ کر جانے کی صلاحیت سے وافر مقدار میں نوازا ہے‘ لیکن قدرت نے اس وقت جنہیں خواجگی عطا کی ہے‘ کیا وہ اس سنگین بحران میں قومی قیادت کیلئے مطلوبہ صلاحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟
نکمی اور ناہنجار اپوزیشن (اسے کرپٹ‘ بد دیانت اور بدعنوان بھی کہہ لیں) اس سے زیادہ کیا کر سکتی تھی؟ ابھی طوفان کے آثار نمایاں ہو رہے تھے‘ جب بلاول بھٹو زرداری نے یک طرفہ مفاہمت کا رضاکارانہ اعلان کر دیا۔ نوجوان لیڈر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان پر تنقید بہت ہو چکی‘ اس کیلئے آئندہ بھی بہت وقت ہوگا‘ لیکن فی الحال وہ یہ سلسلہ بند کر رہے ہیں کہ قومی اتحاد و اتفاق کے ساتھ کورونا کے اس بحران سے نمٹا جا سکے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے بھی لندن سے آنے والی آخری پرواز پکڑی اور پاکستان پہنچ گئے۔ لندن ایئر پورٹ پر روانگی کے وقت بھی اور اتوار (22مارچ) کی صبح اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچ کر بھی‘ وہ قومی ابتلا کے اس مرحلے پر حزبِ اختلاف کی طرف سے مکمل تائیدو حمایت کا اعلان کر رہے تھے‘ اس حوالے سے حکومت کی (اب تک کی) کارکردگی کے حوالے سے انہوں نے تفتان میں مناسب انتظامات نہ ہونے سے زیادہ کچھ نہ کہا‘ (لیکن یہی بات تو وزیرریلوے شیخ رشید بھی کہیں زیادہ کھل کر کہہ چکے تھے اور اس کا اعتراف‘ خود فواد چودھری بھی گزشتہ روز ایک ٹاک شو میں کئے بغیر نہ رہے) ۔جماعت اسلامی بھی (اپنی الگ پرواز کے ساتھ) اپوزیشن ہی میں شمار ہوتی ہے۔ جناب سراج الحق بھی حکومت کو اپنی جماعت کی طرف سے غیر مشروط اور لامحدود تعاون کا یقین دلا رہے تھے۔ یہ اعلان محض زبانی کلامی نہیں تھا‘ جماعت اسلامی نے اپنے شعبہ خدمت خلق کی 300ایمبولینسز‘ 50سے زائد ہسپتال اور 10 جدید لیبارٹریاں بھی حکومت کی ڈسپوزل میں دے دی تھیں۔ کراچی (اور سندھ) میں یہ تعاون وسیع تر تھا۔ جماعت کا ذیلی ادارہ الخدمت بھی پہلے سے کہیں زیادہ سرگرم ہو گیا تھا۔ شہباز شریف نے بھی ''اتفاق‘‘ ہسپتال اور جاتی امرا کے جدید ترین شریف میڈیکل سٹی میں دستیاب تمام طبی سہولتیں کورونا متاثرین کیلئے وقف کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے 10ہزار حفاظتی کٹس اور اتنی ہی تعداد میں ماسک کی فراہمی کا اعلان بھی کیا۔ ''خادم پنجاب‘‘ نے اپنے دور کے وزراء صحت پر مشتمل میڈیکل ٹاسک فورس کے قیام کے اعلان میں بھی تاخیر نہ کی۔ ملک بھر میں اپنے کارکنوں کیلئے ان کا پیغام تھا کہ وہ مقامی سطح پر‘ حکومتی پروگرام میں بھرپور شرکت کریں۔ خواجہ سعد رفیق خواجہ رفیق شہید فاؤنڈیشن کی طرف سے 10ہزار مستحق خاندانوں کو خوراک کی کفالت کا اعلان کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی ''انصار الاسلام‘‘ کے چالیس ہزار کارکن بھی حکومت کے بلاتنخواہ رضا کار بننے کو تیار تھے (ڈاکٹر امجد ثاقب کی ''اخوت‘‘ اور سیلانی ٹرسٹ سمیت متعدد رفاہی و خیراتی اداروں کی خدمات الگ ہیں۔ ہم اس کی تفصیل میں اس لئے نہیں گئے کہ یہ ''غیر سیاسی‘‘ تنظیمیں ہیں)
اپوزیشن کے اس غیر مشروط اور رضاکارانہ تعاون پر‘ جناب وزیراعظم اور ان کے رفقا کا رویہ کیا تھا‘ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا‘ بہت کچھ کہا جا چکا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی 73سالہ تاریخ میں (اور اگر بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان‘‘ سے شروع کریں تو 49سالہ تاریخ میں) کسی قومی بحران میں کسی حکمران کی طرف سے اس رویے کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ جس کا مظاہرہ اب اس بدترین بحران میں دیکھنے میں آیا۔ایوب خاں نے 1965ء کی جنگ میں (حکومت اور اپوزیشن میں بدترین کشیدگی کے باوجود) قومی اتحاد و اتفاق کیلئے‘ اپوزیشن کو جس طرح آواز دی اور اس نے جس خوش دلی اور جوش و خروش کے ساتھ اس پر لبیک کہا‘ وہ بات پرانی ہو چکی‘ لیکن بھٹو صاحب کے نئے پاکستان سے شروع کریں‘ تو یہاں بھی اس حوالے سے شاندار (قابل ِقدر اور لائقِ تقلید) مثالیں موجود ہیں۔ ''قائدِ عوام‘‘ کی خود پسندی اور آمرانہ خُو بُو ایک دنیا میں مشہور تھی‘ لیکن جولائی 1972ء میں اندرا گاندھی سے مذاکرات کیلئے شملہ جاتے ہوئے انہوں نے اپنی اَنا کو قومی اتحاد و اتفاق کی راہ میں حائل نہ ہونے دیا؛ چنانچہ ان کی بدترین سیاسی مخالف جماعت اسلامی کے رہنما میاں طفیل محمد بھی انہیں الوداع کہنے کیلئے لاہور کے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین ان دنوں اپوزیشن کی کسی بھی جماعت سے زیادہ مؤثر سمجھی جاتی تھی۔ جاوید ہاشمی اس کے صدر تھے۔ بھٹو نے نوجوان طلبا قیادت کو اعتماد میں لینا بھی ضروری سمجھا۔
جاوید ہاشمی کو ملاقات سے گریز تھا‘ وہ چپکے سے اپنے گاؤں (مخدوم رشید) چلے گئے۔ بھٹو صاحب نے مولانا مودودی کی وساطت سے ہاشمی صاحب کو پیغام بھجوایا جس کے بعد ہاشمی صاحب کیلئے انکار ممکن نہ رہا۔ اردو ڈائجسٹ والے جناب الطاف حسن قریشی‘ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی‘ ''زندگی‘‘ والے مجیب الرحمن شامی اور (بھٹو صاحب کے ترقی پسند دوست) حسین نقی (اور ان کے ''پنجاب پنچ‘‘ کے پبلشر)کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ بھٹو صاحب نے شیخ حامد محمود کو بھیج کر انہیں بھی ''اعتماد‘‘ میں لینا ضروری سمجھا۔ (حامد محمود بعد میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کی صاحبزادی منزہ حسن‘ پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی رہیں۔ وہ گزشتہ اسمبلی میں موجود تھیں) 1973 کے آئین کی تدوین کے مراحل میں بھٹو صاحب نے مولانا مودودی سے ملاقات کیلئے اچھرہ آنے کی خواہش کا اظہار کیا‘ جس کے جواب میں مولانا کا کہنا تھا‘ اس نیک کام کیلئے انہیں گورنر ہاؤس آ کر ملاقات میں بھی کوئی عار نہ ہوگی۔