"RTC" (space) message & send to 7575

دھماکوں کی کہانی‘ جاوید ہاشمی اور جنرل زینی کی زبانی

بھارت نے دودنوں میں پانچ دھماکے کئے تھے‘ تین دھماکے گیارہ مئی کو اور دو دھماکے‘دودن بعد تیرہ مئی کو۔ پاکستان نے ایک ہی دن (اٹھائیس مئی کو) پانچ دھماکے کردیئے۔ حساب برابر ہوگیا تھا‘ لیکن پاکستان نے تیس مئی کو چھٹا دھماکہ بھی کردیا ۔صدر کلنٹن‘ اپنا اوراپنے اتحادیوں کاسارا زور لگا کر بھی وزیر اعظم نوازشریف کو اٹھائیس مئی کے دھماکوں سے نہیں روک سکے تھے‘ اب چھٹے دھماکے پر کہہ رہے تھے: یہ ہیرو شیما والے ایٹم بم سے زیادہ طاقت کا تھا۔ تیس مئی کی شب وزیر اعظم نوازشریف لاہور پہنچے۔ دھماکوں کے بعد یہ لاہور میں ان کی پہلی آمد تھی۔ ریگل چوک میں جشن کا سماں تھا۔ اپنے خطاب میں وزیر اعظم پاکستان کا بھارتی قیادت سے کہنا تھا : ہم نے تمہارے پانچ دھماکوں کا جواب28مئی کو دے دیا تھا‘اس چھٹے دھماکے کو اپنے آئندہ کسی دھماکے کا پیشگی جواب سمجھو ۔ 
اتوار کی شام ''دنیا نیوز‘‘کے پروگرام ''اختلافی نوٹ‘‘ میں جاوید ہاشمی کا کہنا تھا :یہ چھٹا دھماکہ وزیر اعظم نوازشریف کے اصرار پر کیا گیا۔ یہ ایک نئی بات تھی‘ جس کی تفصیل جاننے کے لیے ہم نے ہاشمی صاحب کو فون کیا ‘ان کا کہنا تھا: میاں صاحب نے چھٹے دھماکے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایک رائے یہ تھی کہ بھارت نے دوقسطوں میں پانچ دھماکے کئے تھے‘ ہم نے ایک ہی دن‘ ایک ہی قسط میں حساب برابر کردیاہے۔ دنیا کے سامنے ہمارا مؤقف تھا کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن قائم ہوگیاہے۔یہ ڈیٹرنٹ بھارت کے جارحانہ عزائم کی راہ روکے گا اور اس سے کشمیر سمیت باہمی تنازعات کے پرُ امن حل کی راہ ہموار ہوگی۔ ا ب چھٹا دھماکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مزید چڑانے والی بات ہوگی‘ویسے بھی دھماکے پر خرچ بہت آتا ہے جبکہ دھماکوں کے نتیجے میں عائد ہونے والی عالمی اقتصادیوں میں‘ ہمیں ایک ایک پیسے کی ضرورت ہوگی۔اس پر میاں صاحب کا جواب تھاکہ اقتصادی پابندیاں تو لگ چکیں‘ رہی خرچے کی بات توجہاں اتنا خرچہ ہوگیا‘ تھوڑا اورسہی۔ 
فرزندلال حویلی میڈیا کے ''ڈارلنگ ‘‘ ہیں۔ انہیں اس اعتراف میں کوئی عار نہیں ہوتی کہ وزیر اعظم عمران خان کے کولیشن پارٹنرز میں ان کی عوامی مسلم لیگ سب سے چھوٹی پارٹی ہے‘ ملک بھر میں جس کا صرف ایک ایم این اے ہے (اور وہ موصوف خود ہیں)اور اس کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کہ میڈیا میں وہ سب سے بڑی پارٹی ہے‘ جس کی میڈیا/سوشل میڈیا‘ فالوئنگ50لاکھ سے کم نہیں۔ شیخ صاحب کا یہ دعویٰ ایسا بے جا بھی نہیں‘ لیکن کیا یہ فالو ئنگ ان کی ووٹر بھی ہے ؟ شیخ صاحب اس حوالے سے حقیقت پسندی کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ ان کے بقول‘ ان کی انتخابی طاقت مختلف حلقوں میں زیادہ سے زیادہ تین ‘ چار فیصد ہوگی ۔ بیشتر حلقوں میں یہی تین چار فیصد ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کے بیلٹ بکس میں جاکر اس کی فتح کا باعث بنتے ہیں۔ ہم میڈیا میں شیخ صاحب کی مقبولیت کی بات کررہے تھے جس کا ایک ثبوت شیخ صاحب کے ساتھ مختلف چینلز کے عید سپیشل شو تھے۔ لیکن میڈیا دو دھاری تلوار بھی ہے۔ خود شیخ صاحب کو بھی وقتاً فوقتاً اس تلخ تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یومِ تکبیر کو اتنے روز گزر گئے لیکن ایٹمی دھماکوں کے کریڈٹ کا معاملہ اب بھی زیر بحث ہے۔ ہفتے کی دوپہر لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں شیخ صاحب کا دعویٰ تھا کہ28مئی کے دھماکے راجہ ظفر الحق ‘ گوہر ایوب اور شیخ رشید نے کرائے ورنہ وزیر اعظم سمیت پوری کابینہ تو مخالفت کررہی تھی ۔اس موقع پر ایک اخبار نویس کا سوال تھا: لیکن اس روز آپ کہاں تھے؟ شیخ صاحب کے لیے یہ سوال خلافِ توقع تھا‘ لیکن انہوں نے حواس برقرار رکھے ‘ اور کہا'' میں اس روز ایک اہم قومی ذمہ داری کے سلسلے میں ملک سے باہرتھا‘ وہ اہم قومی ذمہ داری کیا تھی‘یہ ایک اہم قومی راز ہے‘ یہ راز ہی رہے تو بہتر ہے‘‘۔لیکن یہ اہم قومی راز ''دنیا نیوز‘‘ کے ''اختلافی نوٹ‘‘ میں خود شیخ صاحب کی زبانی فاش ہوگیا۔ یہ ان کے ایک پرانے انٹرویو کا کلپ تھا جس میں وہ فرما رہے تھے کہ پاکستان کے دھماکوں کے حوالے سے میں خوف زدہ تھا کہ یہ بڑا حساس معاملہ ہے‘ کہیں کوئی پٹاخہ آگے پیچھے نہ ہوجائے؛چنانچہ میں نے فلائٹ پکڑی اور بیرون ملک (دبئی )چلا گیا‘ یہاں اترتے ہی میں نے اپنے میزبان سے کہا‘ ٹی وی لگائو‘ پاکستان نے کامیابی سے ایٹمی دھماکے کرلئے تھے؛ چنانچہ میں نے اگلی فلائٹ پکڑی اور واپس آگیا۔''دنیا نیوز‘‘ کے ٹاک شو میں جاوید ہاشمی کہہ رہے تھے:دھماکوں کا معاملہ بہت اہم تھا‘ نوازشریف اس پر قوم کے مختلف طبقات سے مشاورت کررہے تھے‘ انہیں اعتماد میں لے رہے تھے۔ کابینہ کے اجلاس میں‘ وہ دھماکے کے حامیوں کی حوصلہ افزائی کرتے‘لیکن دھماکے کے مخالفین کے اپنے دلائل تھے۔ جن میں سرتاج عزیز‘ چودھری نثار اور جنرل مجید ملک بھی شامل تھے۔ ہاشمی صاحب نے یہاں کابینہ کے ایک اجلاس کی کہانی بھی سنائی ''میں سوئٹزر لینڈ میں تھا‘ کابینہ کے اس خصوصی اجلاس کے لیے مجھے طلب کیا گیا تو میں بھاگم بھاگ ‘ زیورچ اور لندن سے ہوتا ہوا لاہور پہنچا‘ یہاں اسلام آباد کے لیے کوئی فلائٹ دستیاب نہ تھی؛ چنانچہ بذریعہ کار روانہ ہوا اور سیدھا کیبنٹ روم پہنچ گیا‘ شیوبڑھی ہوئی تھی۔ طویل سفر کے آثارچہرے پر نمایاں تھا۔ کابینہ میں ایک رائے یہ تھی کہ آپ نے دھماکہ کیا تو چند دن شادیانے بجیں گے ‘ لیکن معاشی پابندیاں لگیں تو لوگ بلبلا اٹھیں گے۔ میں نے اس کے جواب میں دھماکے کے حق میں طویل گفتگو کی تو میاں صاحب نے ایک چٹ پر لکھ کر بھیجا:Javed Hashmi I am proud of you
ہاشمی صاحب کے بقول‘ اختلاف کرنے والوں کی رائے بھی دیانتدارا نہ تھی۔ ایئر مارشل اصغر خان جیسے عظیم قومی ہیرو کی رائے بھی مخالفت میں تھی‘ ایئر مارشل نورخان بھی نیو کلیئر کارڈ کو دور اندیشی کے ساتھ استعمال کرنے پر زور دے رہے تھے ۔ ان کے خیال میں امریکہ کے اقتصادی پیکیج میں پاکستان کے لیے اقتصادی بحران سے نکلنے کے مواقع موجود تھے۔ شہبازشریف کے ساتھ امریکی سفیر سائمنز کی تین گھنٹے طویل ملاقات میں1993ء والے نگران وزیر اعظم معین قریشی بھی موجود تھے ۔وہ امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے سخت اقتصادی پابندیوں اور سنگین نتائج کی بات کررہے تھے۔ انہی دنوں ''اکانومسٹ‘‘ نے لکھا کہ پاکستان ایٹمی دھما کے کے لیے سائٹ تیار کررہا ہے‘ لیکن ایٹمی تجربے کے ساتھ پاکستانی معیشت بھی دھماکے سے اڑجائے گی۔''گوہر ایوب (اُس دور کے وزیر خارجہ )نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نوازشریف ایٹمی دھماکے نہیں چاہتے تھے‘‘۔ ہاشمی صاحب کاجواب دلچسپ تھا '' یہ ملازمت پیشہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے ہر دور میں نوکری کرنی ہوتی ہے۔ دور بدلتا ہے‘ تو ان کا مؤقف بھی بدل جاتاہے‘‘۔ہاشمی صاحب کے بقول :نوازشریف تو امریکیوں کے فون بھی سننے کو تیار نہیں تھے۔ خود امریکی جرنیل نے بھی اپنی کتاب میں یہ سب کچھ لکھا ہے۔ ہاشمی صاحب کا اشارہ امریکن سینٹرل کمانڈکے اُس وقت کے سربراہ جنرل ٹونی زینی کی کتاب Battle Readyکی طرف تھا جس میں لکھا ہے کہ صدر کلنٹن نے ایٹمی دھماکوں کو روکنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی وفد اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر دفاع ولیم کوہن کی زیر قیادت اس وفد میں اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کا رل انڈر فرتھ اور جنرل زینی بھی شامل تھے۔ امریکن سینٹرل کمانڈ کا جہازایئر بیس پر تیار کھڑا تھا‘ لیکن امریکیوں کے بار بار رابطے کے باوجود وزیر اعظم پاکستان نے اسے اسلام آباد اترنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ آخر کار جنرل زینی کو ایک تجویز سوجھی ‘ اس نے وزیر دفاع ولیم کوہن سے کہاکہ آپ اجازت دیں تو میں جنرل جہانگیر کرامت سے بات کروں؟ اس نے جنرل جہانگیر کرامت سے بات کی جنہوں نے وزیر اعظم کو امریکن وفد سے ملاقات پر آمادہ کرلیا ‘جس کے بعد امریکی وفد 22گھنٹے کی طویل پرواز پر روانہ ہوا۔ جنرل زینی نے لکھا کہ ہم نے وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے وزرا سے متعدد ملاقاتیں کیں لیکن ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی بات نہ منوا سکے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں