پروفیسر عنایت علی خاں بھی راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔ 85سالہ زندگی میں نصف صدی درس وتدریس میں گزاری۔ان میں 25سال مسلم کالج حیدر آباد میں تھے جو جئے سندھ والوں کا گڑھ تھا اور خاں صاحب کی ''جماعتی ‘‘ شناخت بھی ظاہر وباہر تھی‘ لیکن انہوں نے اپنی''پیشہ ورانہ‘‘ اہلیت اور اپنے حسنِ عمل سے سخت ترین نظریاتی مخالفین میں بھی عزت واحترام پایا۔ کیڈٹ کالج پٹارومیں ان کے شاگرد مختلف سرکاری وغیرسرکاری اور سیاسی وغیر سیاسی شعبوں میں نمایاں مقام تک پہنچے۔ خان صاحب کے بقول ان ''نالائقوں‘‘ میں آصف زرداری بھی تھے۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ابوظہبی میں ایک بڑے تعلیمی ادارے کے ایڈوائزر بھی رہے۔
عنایت علی خاں مزاح گوکی حیثیت سے زیادہ معروف ومقبول ہوئے۔ حالانکہ ان کا سنجیدہ کلام بھی فنی محاسن اور اثر آفرینی کے لحاظ سے کم نہیں۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
دور دیس جابسنے والے بیٹے کے نام ''ایروگرام ‘‘ کسی بھی حساس دل کو تڑپادینے والی طویل نظم ہے‘جس کی آخری سطور: ہاں سنو بیٹے/تمہاری ماں نے کل/ آنکھوں میں آنسو روک کر/ اور کانپتے ہونٹوں سے مجھ سے یہ کہاتھا/سنوجی!/ اب جو میرے لعل کو لکھو/تو یہ لکھنا/کہ بیٹا/ تیرا بیٹا بھی خدا رکھے سیانا ہو/تو توُاس کو/ کہیں پردیس کو جانے نہ دینا/اس کی ماں کے پاس ہی رکھنا۔
عنایت علی خاں اپنی شاعری کے زور پر ہندوستان ‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور ناروے سمیت کہاں کہاں ہوآئے۔ 2006میں سرزمینِ حرمین میں ان کی پانچویں آمد تھی۔جدہ میں مقیم ہندوستانی مسلمانوں کے ''خاکِ طیبہ ٹرسٹ ‘‘کے زیراہتمام یہ ''پاک ‘ہند مشاعرہ ‘‘تھا ۔اردو شعر و ادب کے فروغ کے لیے پاکستانیوں کا ''اردو مرکز‘‘اور خاکِ طیبہ ٹرسٹ باہم حریف نہیں ‘ حلیف ہیں۔ عنایت علی خاں اردو مرکز کی دعوت پر چار بار جدہ آئے ۔
ہُوا ہے جدّے میں جو اک مزاحیہ مشاعرہ
ہم آ گئے خدا کے گھر مذاق ہی مذاق میں
اور اس موقع پر ہم نے بھی ''مذاق ہی مذاق ‘‘ میں ان سے ایک انٹرویو کرلیا۔
راجپوتانے میں ٹونک کے نام سے پٹھانوں کی ایک ریاست تھی۔ نومبر 1948میں وہاں سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو حیدر آباد کو ٹھکانہ بنایا۔ تب عنایت علی گیارہ ‘بارہ سال کے تھے۔تعلیم بھی یہیں ہوئی ‘ پھر تدریس کا بیشتر عرصہ بھی یہیں گزرا۔ انجمن ترقی اردو کی طرف سے اشتہار آیا کہ ایم اے اردو میں ٹاپ کرنے والے کو طلائی تمغہ اور پانچ سوروپے انعام دیا جائے گا۔عنایت علی اس انعام کے مستحق ٹھہرے۔ تب پانچ سو بڑی چیز تھی۔ البتہ سونے کے تمغے کا معاملہ دلچسپ رہا۔ بیٹی کی شادی کا موقع آیا تو وہ یہ تمغہ لیے اپنے ایک دوست سنار کی دکان پر گئے۔ تب معلوم ہوا کہ گولڈ میڈل گولڈ کا تھوڑی ہوتا ہے‘ وہ تو اس پر صرف پانی ہوتاہے۔ عنایت علی نے پوچھا: اب تک اس پر جو زکوٰۃ دیتا رہا ہوں ؟ اس نے کہا‘اس کا ثواب الگ ہے۔
طبیعت موزوںہوتو اس کا اظہار لڑکپن ہی میں ہونے لگتاہے۔ فقروں اور مصرعوں کا معنی ومفہوم کچھ نہ ہو‘ لیکن ''تُک بندی‘‘ شروع ہوجاتی ہے‘عنایت علی بھی سکول کے زمانے سے ہی ''تُک بندی‘‘ کرنے لگے۔ حید رآباد کے مارکیٹ ایریا میں ایک صاحب جارہے تھے‘ پیچھے پیچھے بیگم صاحبہ تھیں‘ برقع اوڑھے ہوئے۔ میاں نے مڑ کر دیکھا‘ تو بیگم صاحبہ نے نقاب ڈال لی۔کچھ دور جاکر دوبارہ ایسے ہی ہوا۔ تیسری بار ہوا تو میاں نے کہا‘ مجھ سے پردہ ہے تو مجھ سے کیا پردہ؟ برقع اتارا اور آگ لگادی۔ اس پرعنایت علی نے کہا ؎
جلاڈالا سرِ بازار برقع /ہے میری جان کا آزار برقع /لئے پھرتی کہاں ہر دم یہ خیمہ /یوں ہی تو کردیا فی النّار برقع /ہیں جن بہنوں کے شوہر مُلا ٹائپ/وہ پہنے پھرتی ہیں لاچار برقع۔
تب مجید لاہوری ایک اخبار میں ''حرف وحکایت‘‘ لکھتے تھے‘ عنایت علی نے یہ اشعار انہیں بھیج دیئے اور دلچسپ بات یہ کہ شائع بھی ہوگئے۔اس وقت ادب پر ترقی پسندوں کا غلبہ تھا ‘ تو عنایت علی نے بھی ان ہی لوگوں کو پڑھا۔ تقسیم کے باعث گھریلو حالات بھی ایسے ہی تھے۔ تنگ دستی کا ماحول تھا؛ چنانچہ ابتدا میں وہی ترقی پسندانہ رنگ رہا‘طبقاتی تقسیم کے حوالے سے کچھ نظمیں بھی لکھیں۔پھر اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوتے ہوئے جماعت اسلامی میں پہنچے اور یہیں کے ہولئے۔
''مزاح کی تعریف اور اس کی حدود قیود ؟‘‘ ...عنایت علی خاں کے بقول ''ابتدامیں سنجیدہ شعرا نے عموماً اس کومنہ نہیں لگایا۔ اس صنف کا اعتبار غالب سے شروع ہوا کہ ان کے ہاں جو طنزومزاح ہے‘ بڑی لطافت کے ساتھ ہے‘ پھر اکبر الٰہ آبادی نے اسے جس طرح استعمال کیا ‘ اس سے اس کا اعتبار بڑھا۔ اس میں گہرائی پیدا ہوئی اور یہ شرفا کے ہاں بھی سنایا جانے لگا۔مزاح معاشرے کی بے اعتدالیوں کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ لوگ ہنس بھی دیں اور انہیں ان بے اعتدالیوں کا احساس بھی ہو۔عنایت علی خاں کے خیال میں اصلاح ِمعاشرہ کیلئے طنز ومزاح کا انداز شاید زیادہ موثر ہے۔ بسا اوقات آدمی کی طبیعت میں نصیحت کو براہِ راست قبول کرنے میں تکلف ہوتا ہے‘ کبھی برتری اور کم تری کا احساس بھی آجاتا ہے ۔ مزاح میں افادیت یہ ہے کہ سامع شوق میں سن لیتا ہے۔ پہلے ہنستا ہے‘ بعد میں سوچتا ہے‘‘۔
''پاک وہند کی مزاحیہ شاعری کا تقابل‘‘؟عنایت علی خاں کا کہنا تھا: ''ہندوستان میں مزاح کے زوال کی دو وجوہات ہیں۔ عربی اور فارسی الفاظ کی جامعیت شعر میں وزن پیدا کرتی ہے( اب بدقسمتی سے خوداپنے ہاں پاکستان میں بھی فارسی اورعربی نہیں رہی)۔ ہندوستان میں شاعری ایک تو اظہار کے اس قرینے سے محروم ہوئی مزید یہ کہ اُدھر مزاح پیدا کرنے کے لیے چھچھو رے پن پر اتر آتے ہیں۔ مزاح گوفکری اعتبار سے پختہ نہ ہو تو پھکڑپن کے موضوعات ہی رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں مزاح کا معیار ہندوستان سے کہیں اعلیٰ ہے‘ہمارے ہاں ضمیر جعفری ہیں۔ انور مسعود کو دیکھئے‘وہ ان عظیم مزاح گوشعرا میں بہت نمایاں ہیں جنہوں نے طنز ومزاح کا اعتبار اور معیار پیدا کیا‘‘۔
اس سوال پر کہ آپ کے خیال میں‘ ماضی قریب اور عصر ِحاضر میں اردو کے بڑے مزاح گو شعرا کو ن ہیں؟ عنایت علی خاں کا جواب تھا:سید محمد جعفری ‘ ظریف جبل پو ری ‘ظریف دہلوی ‘ راجہ مہدی علی خاں ‘ ضمیر جعفری‘ دلاور فگار‘ عبیرابوذری ‘ انور مسعود‘ مجذوب چشتی‘ضیاء الحق قاسمی‘ انعام الحق جاوید‘ انور مسعود‘ خالد مسعود‘ اطہر شاہ جیدی‘ زاہد فخری۔ ابھرتے ہوئے لوگوں میں سعید آغا ‘م ش عالم‘ عاصی اختر ‘ معین اختر اور کچھ اور نوجوان بھی ہیں۔
''جماعت اسلامی اور اس کے لٹریچر کے آپ کی شاعری پر اثرات؟‘‘ عنایت علی خاں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر جواب دیا : عربی کا ایک مقولہ ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے۔ آپ غور کریں تو میری شاعری میں جماعت کی فکر ہی ملے گی۔کراچی میں پٹھانوں اور مہاجروں کو لڑایا گیا تو ایک مشاعرے میں ‘ عنایت علی خاں نے قطعہ پڑھا ؎
خود ہی خنجر بدست ہوں ہر دم
اور خود ہی لہولہان بھی ہوں
میری مشکل عجیب مشکل ہے
میں مہاجر بھی ہوں‘ پٹھان بھی ہوں