"RTC" (space) message & send to 7575

بھٹو ‘ ضیا الحق اور دائیں بازو کے صحافی

معاملہ دلائل کا ہو تو شامی صاحب سے جیتنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ شعیب بن عزیز تو مزاحاً یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ مؤکل کا کیس جتنا کمزور ہوگا‘ شامی صاحب اسے اتنی ہی زیادہ مضبوطی سے لڑیں گے اور یہاں تو شامی صاحب کا اپنا کیس تھا اور تھا بھی بہت مضبوط۔ شامی صاحب گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کرنے کے بعد ایل ایل بی کرنے کراچی گئے تھے لیکن پاکستانی صحافت کی قسمت میں کچھ اور بڑے ناموں کے ساتھ ایک ''شامی ‘‘ بھی لکھا تھا‘ سو مجیب الرحمن شامی ایڈووکیٹ کی بجائے جرنلسٹ بن گئے۔ کراچی کے سب سے بڑے ہفت روزے میں شامی صاحب کے انٹرویوز نے دھوم مچادی تھی۔ قریشی برادران نے لاہور سے اپنا ہفت روزہ نکالنے کا پروگرام بنایا تو اس کی ایڈیٹری کے لیے شامی صاحب ان کی جوہر شناس نگاہوں میں آگئے اور دل میں سما گئے۔ صلاحیت کے ساتھ قدرت نے انہیں جرأت وہمت اور حوصلہ وولولہ بھی وافر مقدار میں عطا کیا تھا۔ بھٹو صاحب کے (سول) مارشل لاء کا چوتھا مہینہ تھا کہ قریشی برادران کے ساتھ شامی صاحب بھی حوا لہ ٔ زنداں ہوئے۔''ڈان‘‘ والے الطاف گوہر پہلے ہی جیل میں تھے (اور فرصت میں وہاں مولانا مودودی ؒ کی تفہیم القرآن کے بعض حصوں کا ترجمہ کررہے تھے)۔چند دنوں بعد صلاح الدین (شہید)بھی ان کے ہم نشیں ہو گئے۔ اس دورکی سیاسی ونظریاتی اصطلاحات کے مطابق یہ سب ''دائیں بازو‘‘ سے تھے۔ ''بائیں بازو‘‘ کے حسین نقی اور ان کے رسالے پنجاب پنچ کے پرنٹر مظفر قادر بھی عتابِ شاہی سے بچ نہ سکے‘ ان پر بھی اسی روز(5اپریل1972ء)کو درِ زنداں کھلا۔ ''دلچسپ‘‘ بات یہ کہ بھٹو صاحب کے آخری مہینوں میں بھی قریشی برادران اور شامی صاحب کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ قریشی برادران تاجپورہ لاہور کے خونی سانحہ کی رپورٹ شائع کرنے کی پاداش میں جیل کاٹ رہے تھے۔ شامی صاحب پر ایئر مارشل اصغر خان کے ساتھ مل کر ایک سرکاری گاڑی کو روکنے ‘ ڈرائیور سمیت اس میں سوار اہل کاروں کو مارنے پیٹنے اور گاڑی کا پانا اور جیک چرانے کا الزام تھا (دیگر ملزمان میں محمود علی قصوری‘ جاوید ہاشمی‘ خورشید محمود قصوری‘ اور ملک حامد سرفراز تھے)۔صلاح الدین کی طویل قید پر پروفیسر غفور احمدنے کہا تھا کہ بھٹو صاحب ایوانِ اقتدار سے اور صلاح الدین جیل سے اکٹھے نکلیں گے‘یہی ہوا۔صلاح الدین نے اس دوران ''بنیادی حقوق‘‘کے نام سے کتاب لکھی اور رہائی کے بعد ان سطور کے ساتھ بھٹو صاحب کو بھجوائی کہ میں جیل میں تھا تو یہ کتاب لکھی۔اب آپ جیل میں ہیں تو اس کا مطالعہ فرما ئیں۔
شامی صاحب نے 16اگست کے ''جلسۂ عام‘‘میں''فیلڈ مارشل‘‘ ضیا الحق کے عنوان سے کالم باندھا۔ اہلِ قلم میں بھٹو کے چاہنے والوں میں سے بعض نے اس کا بہت برا منایا اور باقاعدہ کالم آرائی کرکے غبار نکالا۔ شامی صاحب اپنے تازہ کالم (23اگست) میں اس کا جواب دے چکے۔شامی صاحب کا قریبی حلقہ احباب (جس میں شمولیت کا اس خاکسار کو بھی اعزاز حاصل ہے) جانتا ہے کہ ان کے ہاں بھٹو صاحب کے خلاف وہ پہلی سی شدت اور تلخی نہیں رہی۔ ان کی تحریروں اور تقریروں سے بھی یہ حقیقت عیاں ہے۔ لیکن تاریخ تو تاریخ ہے اور بعض تاریخی حقائق کا اظہار شامی صاحب اپنے تازہ کالم میں بھی کر گزرے ہیں۔ اس میں اس ستم کا ذکر بھی ہے‘ جس کا شامی صاحب (اور ان کے رفقا ) اُس دور میں مسلسل نشانہ بنے۔ لیکن انہوں نے ایک اور واقعہ کا ذکر نہیں کیا جسے وہ مظفر محمدعلی(مرحوم) سے اپنے ایک انٹرویو میں ریکارڈ پر لاچکے تھے۔تو وہ کہانی‘ شامی صاحب کی زبانی:'' اسی دوران بھٹو صاحب کے ایک قریبی معاون میرے پاس آئے‘ اور کہا کہ آپ دیکھیں ‘ذرا احتیاط کریں۔ میں نے کہا کہ ہم احتیاط سے ہی چیزیں چھاپتے ہیں اور کوئی اخلاق سے گری ہوئی یا قانون کے خلاف کوئی چیز نہیں چھاپتے۔ ہاں کئی چیزوں پر تنقید ضرور کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کی شادی ہوچکی ہے اور آپ کی بیٹی بھی ہے۔ میرے نزدیک بھٹو صاحب کا پورا عہد اس ایک فقرے میں بند ہے کہ ''آپ کی بیٹی بھی ہے‘‘۔اس سے پہلے کاایک اور واقعہ بھی یاد آیا‘ جو شاید ریکارڈ پر تو نہیں لیکن شامی صاحب کبھی موڈ میں ہوتے تو اپنے دوستوں کو سنایا کرتے۔ سرکارکی میڈیا ٹیم میں ایک صاحب شامی صاحب کے دوست بھی تھے۔ وہ شامی صاحب کے درپے ہوگئے کہ آپ ایک بار بھٹو صاحب سے مل تو لیں۔ شامی صاحب ٹالتے رہے۔ انہی دنوں مولانا مودودیؒ ‘ بھٹو صاحب سے مل چکے تھے۔ 1973ء کا آئین تیاری کے آخری مراحل میں تھا۔ بھٹو صاحب آئین پر اتفاق رائے کے لیے مولانا سے بھی ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس کے لیے اچھرہ میں مولانا کی رہائش پر آنے کی خواہش کا اظہار کیا‘ تو مولانا کا جواب تھا کہ وہ ایک بڑے قومی مقصد کے لیے ملنا چاہتے ہیں تو میں خود گورنر ہائوس آجائوں گا۔ مولانا گورنر ہائوس جاکر بھٹو صاحب سے مل آئے۔بھٹو سے ملاقات کے لیے اصرار کرنے والے دوست نے اسے مثال بنایاتوشامی صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا: مولانا کی عزت ایک ٹن ہے‘ اس میں سے پائو بھر کم بھی ہوگئی تو کیا فرق پڑیگا۔ اپنی توکل عزت ہی ایک چھٹانک ہے‘ یہی چلی گئی تو اپنے پلے کیا رہ جائیگا؟
جنرل ضیا الحق اور دائیں بازو کے صحافیوں میں تعلقات کا معاملہ بھی دلچسپ رہا‘ جنہیں ضیا الحق کے قریبی حلقے میں شمار کیا جاتا تھا۔ وہ ان کی افغان پالیسی کے حامی اور پبلک میں اس کی بھرپور تائید اوروکالت کرتے تھے ‘لیکن ضیا الحق کی سیاسی پالیسیوں کے وہ ناقد تھے اور ان کے منہ پر بھی اس کے اظہار سے گریز نہ کرتے۔ضیا الحق ‘ مجید نظامی صاحب سے کہا کرتے : آپ کا واسطہ جابر سلطان سے رہا ہے( ان کے اخبارکے ادارتی صفحے پر شائع ہونے والی اس احادیث کی طرف اشارہ کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا ہے ) لیکن اب آپ کا واسطہ ایک صابر سلطان سے ہے‘ لیکن صابر سلطان کا پیمانہ صبر بھی چھلک پڑتا۔ضیا الحق کے مارشل لاء کا دوسرا ماہ تھا‘ جب الطاف حسن قریشی صاحب نے ان کا ایک طویل انٹرویو شائع کیا۔ اگلے ماہ انہوں نے اداریہ لکھا کہ شیر اپنا شکار کسی کو نہیں دیتا اور یہ کہ جو افراد بھٹو صاحب کی حکومت میں اعلیٰ مناصب پر فائز تھے‘ انہی کو مزید کلیدی ذمے داریاں سونپ دی گئی ہیں جس سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع عبث لگتی ہے۔ اس پر انہیں20اکتوبر کی شب مارشل لاء کے تحت گرفتار کرکے کوٹ لکھپت جیل پہنچا دیا گیا۔
جنرل ضیا الحق نے 1979ء میں دوسری بار عام انتخابات ملتوی کئے تو شامی صاحب بگڑ گئے۔ ایک اخبار کے فورم میں انہوں نے اس پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اسلامی نظام مارشل لاء سے نہیں ‘ جمہوریت سے آئے گا۔ ضیا الحق اگلے روز لاہور میں تھے۔ان کا جواب تھا‘ بعض لوگوں کے ذہنوں میں جمہوریت کا کیڑا کلبلاتا رہتا ہے۔ طویل عرصہ تک دونوں میں مکمل کٹی رہی۔یہ قطع تعلق 1983ء میں جنرل ضیا الحق کی طرف سے 1985ء کے انتخابات کے اعلان کے بعد ختم ہوا۔ کراچی والے صلاح الدین شہید کی بھی‘ طویل عرصہ جنرل ضیا الحق سے بول چال بند رہی۔ جنرل ضیا کے غیر جماعتی انتخابات کے فیصلے کے وہ سخت مخالف تھے‘ وہ تو کچھ مشترکہ دوست درمیان میں پڑ ے اور صلاح الدین صاحب کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ اسے مارشل لاء سے جمہوریت کی طرف سفر کا پہلا مرحلہ سمجھیں۔ انتخابات ہوگئے تو یہ اسمبلیاں غیر جماعتی نہیں رہیں گی اور یہیں سے جماعتی سیاست کا احیا ہوگا۔ اور پھر واقعی یہی ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں