ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں آپریشن جبرالڑکو پاکستان پر 6ستمبر کے حملے کا جواز بنایا تھا۔ 1999ء کے کارگل ایڈونچر کی طرح اگست1965ء کا ''جبرالڑ‘‘ بھی عسکری تاریخ میں ناقص منصوبہ بندی پر مبنی ناکام آپریشن قرار پایا۔ بعض ثقہ روایات کے مطابق آپریشن جبرالڑکو وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی بھرپور اور پرجوش تائید بھی حاصل تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق بھی جموں وکشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے‘ جس میں کسی اقدام کو‘ عالمی طور پر تسلیم شدہ پاک ہندسرحد پر کسی جنگی کارروائی کا جواز نہیں بنایا جاسکتا۔ بھٹو صاحب کے بقول ان کے اس مؤقف کو امریکہ کی تائید بھی حاصل تھی۔
تین ستمبر کو وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے لوک سبھا سے اپنے خطاب میں ‘ پاکستان کو کشمیر میں ان کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے‘ اپنی پسند کا محاذ کھولنے کی دھمکی دے دی تھی۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر آچکی کہ دہلی میں پاکستانی سفارت خانے نے اپنی وزارتِ خارجہ کوہندوستان کی جنگی تیاریوں کی مفصل رپورٹ بھجوادی تھی‘ اس کے لیے دہلی میں ترک سفارت خانے کے ڈپلومیٹک بیگ کو استعمال کیا گیا۔
ستمبر 65کی جنگ کا ذکر ہوتا تو نوابزادہ صاحب بتایا کرتے‘ جنوری 65ء کے صدارتی انتخاب میں بدترین دھاندلی کے ذریعے مادرِ ملت کی شکست کے بعد‘ ملک میں سیاسی کشیدگی انتہا کو تھی۔ مشرقی پاکستان میں غصے کی شدت کہیں زیادہ تھی۔ ایوب خان اور اپوزیشن قیادت ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روا دار نہ تھے(مادرِ ملت نے تو متوازی حکومت تشکیل دینے کی تجویز تک پیش کردی تھی‘ اپوزیشن قیادت جس پر آمادہ نہ ہوئی کہ اس کے خیال میں یہ تجویز ناقابلِ عمل ہی نہیں خطرناک بھی تھی) بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں آپریشن جبرالٹر کا مقصد ایوب خان کے خلاف اس غم وغصے کا رخ موڑنا بھی تھا۔
6ستمبر کے بھارتی حملے اور اعلانِ جنگ کے بعد ایوب خان نے قومی دفاع کے لیے ضروری عسکری اقدامات کے ساتھ قومی اتحاد ویک جہتی کے لیے اپوزیشن قیادت سے رابطے اور اسے اعتماد میں لینا بھی ضروری سمجھا۔ اس کے لیے انہوں نے خود اپوزیشن قائدین سے رابطے کیے‘ اگلے روز سید ابو الاعلیٰ مودودی‘ نواب زادہ نصر اللہ خان‘ چودھری محمد علی اور کشمیر ی لیڈرچودھری غلام عباس ‘ ایوانِ صدر میں موجود تھے۔ ٹی وی پر اور اخبارات میں ایوب خان کے ساتھ اپوزیشن لیڈروں کی یہ تصویر قومی جذبوں کے لیے نئی مہمیز کا باعث بن گئی تھی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں فضائی رابطہ معطل ہونے کے باعث مشرقی پاکستان سے اپوزیشن قیادت کا ایوانِ صدر آنا ممکن نہ تھا؛ چنانچہ قومی یک جہتی کے اظہار کے لیے انہیں ڈھاکہ کے گورنر ہائوس پہنچنے میں عار نہ تھی۔
حملہ لاہور پر ہوا تھا‘ لیکن سمندر پار ڈھاکہ والوں کے جذبات بھی لاہور والوں سے مختلف نہ تھے۔الطاف حسن قریشی صاحب کی کتاب''جنگ ِستمبر کی یادیں‘‘ میں مشرقی کمان کے کمانڈر جنرل فضل مقیم خاں کے قلم سے مشرقی پاکستان کے محاذ کی روداد سے کچھ سطور:'' جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے Crush Indiaکا نعرہ مشرقی پاکستان سے شروع ہوا تھا۔ عورتوں‘ مردوں‘ جوانوں اور بوڑھوں کے جلوس گلی کوچوں میں دن رات چکر لگاتے‘ ڈھاکہ اور بڑے شہروں میں ہی نہیں پورے صوبے میں یہی کیفیت تھی۔ادھر آغا شورش کاشمیری کی نظم ''مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام ‘‘ شائع ہوئی ‘ادھر مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان میں اس کا ترجمہ گھر گھر پہنچ گیا۔ پاکستان آبزرور ڈھاکہ کے ایڈیٹر اپنے سٹاف کی میٹنگ میں کہہ رہے تھے: ہم ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کہتے رہے ہیں‘ اسے سرِدست فراموش کردیجئے ۔ اب پاکستان کے دفاع کا معاملہ ہے۔ یاد رکھئے اگر پاکستان وجود میں نہ آتاتو میں اس مقام پر ہوتا‘ نہ آپ اس پوزیشن میں ہوتے‘ جس میں اب ہیں...حزب ِاختلاف کے مضبوط ستون تفضل حسین (مانک میاں )نے اپنے روزنامے''اتفاق ‘‘ اور ہفت روزہ ''ڈھاکہ ٹائمز‘‘ میں زور دار اداریے لکھے: ''اگر خدانخواستہ پاکستان نہ رہا تو پیریٹی کی بحث رہے گی‘ نہ مشرقی پاکستان کے حقوق کی‘‘۔مغربی پاکستان میں کھیم کرن کے محاذ پر بنگال رجمنٹ کی بہادری کی خبریں سن کر بنگالیوں کا سینہ فخر سے تن جاتا اور سراونچا ہوجاتا۔
یہ ستمبر 1965کی کہانی تھی۔ صرف6سال بعددسمبر1971ء میں جو کچھ ہوااس میں غور وفکر اور نصیحت وعبرت کا خاصا سامان ہے۔ اب یہ بنگلہ دیش تھا۔ فیض صاحب ڈھا کہ سے ہو کر آئے تو پکار اُٹھے۔
دل تو چاہا پر شکست ِدل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کرلیتے مناجاتوں کے بعد
96-Hماڈل ٹائون میں شہباز صاحب سے یہ غیر رسمی ملاقات تھی۔ حمزہ شہباز کا پوچھا‘ تو ان کے چہرے پر دکھ کی پرچھائیاں سی محسوس ہوئیں۔پھر یوں لگا جیسے ان کی جگہ فخر اور اعتماد کے سائے لہرا گئے ہوں۔ بیٹے کی ہمت اور حوصلہ باپ کے لیے فخر کا باعث تھا۔ سیاستدان بے حس روبوٹ تو نہیں ہوتا‘ گوشت پوست کا انسان ہوتا ہے‘ اس کے بھی احساسات وجذبات ہوتے ہیں۔ حمزہ کی اسیری کو ڈیڑھ سال سے زائد ہوچکا۔ نیب کے مقدمات میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت میں سب کی ضمانتیں ہوگئیں (ان سب نے بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ اسیری کا یہ عرصہ کاٹا) حمزہ پر درِ زنداں اب تک نہیں کھلا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس آتا ہے تو سپیکرپرویز الٰہی کے پروڈکشن آرڈر اس کے لیے ریلیف کا باعث بن جاتے ہیں‘ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں‘ وہ اپنی ذاتی تکلیف کا اظہار کرنے کی بجائے‘ سیاسی مسائل کو موضوع بناتا ہے۔
شریف فیملی کی قید وبند میں حمزہ کا حصہ خاصا وسیع ہے۔ اس کی پہلی اسیری 19سال کی عمر میں ہوئی‘ یہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی وزارتِ عظمی کا دوسرا دور تھا۔ نوازشریف کی زیر قیادت حزبِ اختلاف ایوان کے اندر اور باہر‘ حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی تھی۔ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل حمزہ کا مسکن قرار پائی‘ چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی بھی یہیں تھے۔ وہ ''بھتیجے‘‘کا مقدور بھر خیال رکھتے۔ اسی دوران‘ اس کی کوٹھڑی کے پنکھے بند کرنے کی خبر آئی‘ جس پر اس کا تبصرہ تھا‘ ہمارے دادا نے فولاد سازی سے آغاز کیا تھا‘ ہم کوئی موم کے پتلے نہیں‘ کہ گرمی سے پگھل جائیں گے۔ مشرف دور حمزہ کے لیے آزمائش کا نیا مرحلہ تھا تب وہ26سال کا تھا‘ جب پوری شریف فیملی جلا وطن ہوگئی اور حمزہ فیملی بزنس کی نگرانی کے لیے پاکستان میں رہ گیا۔ میاں شریف جدہ میں‘ اگلے جہاں روانہ ہوئے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ آخری ٹھکانا اپنی پاک سرزمین میں ہو۔جلا وطن فیملی کے کچھ لوگ اپنی بزرگ ترین شخصیت کو آخری سفر پر روانہ کرنے کے لیے پاکستان آنا چاہتے تھے‘ لیکن اس کے لیے پرویز مشرف کی شرائط ان کے لیے قابلِ قبول نہ تھیں؛ چنانچہ بریگیڈیئر (ر) جاوید اور ڈاکٹر عدنان میت کو لے کر لاہور پہنچے اور حمزہ نے دادا کو لحد میں اتاردیا۔
6ستمبر کو اپنی46ویں سالگرہ پر وہ کیمپ جیل میں تھا‘مسلم لیگیوں نے مسلم لیگ کے دفاتر میں (اور بعض نے اپنے گھروں پر) نوجوان لیڈر کی سالگرہ کی تقریبات کا اہتمام کیا۔ اپنے ٹویٹر پر مریم نواز نے جو تصویر شیئر کی ‘ اس میں وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے عوام کے نعروں کا جواب دے رہے تھے۔ اس کے ساتھ مریم نے لکھا تھا:''حمزہ شہباز! آپ مسلم لیگ(ن) اور اس کے نظریات سے وابستگی کی قیمت ادا کررہے ہیں‘‘۔ کہا جاتا ہے‘ مریم نے اس تصویر کا انتخاب باقاعدہ مقصد کے ساتھ کیا تھا‘ یہ اس امر کا اعلان تھا کہ شریف خاندان میں سیاسی وراثت کا کوئی جھگڑا ہے‘ نہ ہوگا۔ مستقبل کی قیادت ‘ اسی طرح ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھے گی۔