NNC (space) message & send to 7575

مودی کو فیصلہ تبدیل کرنا پڑے گا!

مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے اقدام کو اب دنیا بھر میں مسترد کیا جا رہا ہے۔ پہلے پہل تو دنیا خاموش رہی۔ شاید یہ دیکھنے کے لیے کہ پاکستان اس پر کیا رد عمل دیتا ہے؟ کشمیریوں کا حوصلہ کتنا ہے؟ کیا وہ اس غلامی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟ 
پاکستان نے تحمل و بردباری کا مظاہرہ کیا، اپنی تیاری کی، افواج پاکستان کو چوکس کیا، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا۔ گو کہ اس میں اپوزیشن کی تقریروں کا معیار وہ نہیں تھا جس کی توقع کی جا رہی تھی لیکن پھر بھی پارلیمنٹ سے ایک متفقہ قرارداد منظور ہوئی اور عالمی برادری سمیت دنیا بھر کو ایک سخت موقف دیا گیا۔ پارلیمنٹ سے بھی زیادہ اہم فیصلے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے اور وہ فیصلے نہیں بتائے گئے جو واقعتاً کیے گئے ہیں۔ اور اس کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں کیا کہ وہ ''نیوکلیئر بلیک میل نہیں کر رہے‘‘ لیکن فیصلہ یہی ہے کہ پاکستان اپنی بقا اور کشمیر کے لیے کوئی بھی حد عبور کر سکتا ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس بھی بلایا جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ترکی، ملائیشیا، برطانیہ اور سعودی عرب کی قیادت سے بات کی‘ لیکن سب سے اہم بیان چین سے آیا‘ جنہوں نے بھارت کے لداخ اور مقبوضہ وادی کے بارے میں کیے گئے اقدامات کو یکسر مسترد کر دیا اور اسے نا قابل قبول قرار دیا۔ خبر یہی ہے کہ اس معاملے میں چین اور پاکستان مل کر کھیلیں گے۔ بھارت کا یہ اقدام کثیر جہتی ہے۔ یہ صرف پاکستان، مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں بلکہ اس کا نشانہ چین بھی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری بھی۔ پاکستان اور چین کی سیاسی و فوجی قیادتیں باہم ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں‘ مربوط ہیں‘ اور سمجھتی ہیں کہ بھارت کے اس اقدام میں دوسرے اہم ممالک بشمول امریکہ شامل ہیں‘ اور مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے سے دو ہفتے قبل دہلی میں اہم سفارتی سرگرمیاں مشاہدے میں آئیں‘ جن میں بھارتی حکام کی جانب سے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے کچھ سفارت خانوں میں اہم ملاقاتیں کی گئیں۔ شاید اسی لیے شروع شروع میں امریکی محکمہ خارجہ نے ڈھیلا ڈھالا ایک بیان جاری کیا‘ لیکن جب یہ اعلانات سامنے آئے کہ اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان اس ضمن میں گہرے روابط قائم ہیں اور یہ صلاح مشورہ ہو چکا ہے کہ علاقائی اور عالمی فورمز پر مشترکہ مؤقف اختیار کیا جائے گا تو واشنگٹن کے موقف میں یو ٹرن آیا اور اس میں تبدیلی محسوس کی گئی۔ پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری ایلس ویلز اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے واضح کیا کہ بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے ختم کرنے کے بارے میں نہ ہی امریکہ سے مشاورت کی اور نہ ہی انہیں آگاہ کیا گیا۔
بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی مودی سرکار کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا اور واضح کیا کہ یہ اقدام مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی مرضی و منشا کے بغیر کیا گیا ہے‘ جبکہ شملہ معاہدہ، اعلانِ لاہور اور یو این سکیورٹی کونسل میں یہ مسئلہ زیر التوا ہے‘ اس لیے مودی سرکار کا یہ اقدام برقرار نہیں رہ سکے گا۔ لیکن مودی سرکار کا عجلت میں اٹھایا گیا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ اب بھی بھارت نے اس اقدام سے واپسی کا ایک راستہ کھلا رکھا ہوا ہے اور اگر اس کا رد عمل شدید ترین ہوا اور عالمی رد عمل بھی اس کے خلاف آیا تو پھر سپریم کورٹ کے ذریعے اس اقدام کو کالعدم قرار دلوایا جائے گا‘ کیونکہ بھارتی آئین میں ہی اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ دفعہ370 اور 35 اے کو ختم کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی مرضی و منشا لازم ہے۔ اس وقت اسمبلی کا وجود ہی نہیں اور وفاق کے نمائندے اور گورنر کی مرضی و منشا کو ہی مقبوضہ وادی کی منشائے عام قرار دیا جا رہا ہے جو کہ قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے‘ لہٰذا اس اقدام کو بھارتی سپریم کورٹ کالعدم قرار دے دے گی۔
مودی سرکار کے اس اقدام پر مقبوضہ کشمیر کی دہلی نواز قیادت بھی پھٹ پڑی ہے۔ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور عمر فاروق کھل کر اپنا مؤقف دے چکے ہیں۔ سب سے زیادہ اہم محبوبہ مفتی کا وہ ٹویٹ ہے جس میں انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نظریے اور سوچ کو 72 سال بعد تسلیم کیا اور کہا ہے کہ دو قومی نظریے کی حقانیت کو تسلیم نہ کر کے ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی اور یہ کہ پاکستان کو چھوڑ کر بھارت کے ساتھ جانے کا فیصلہ غلط تھا۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ سیکولر ریاست انڈیا کا وجود آج ختم ہو چکا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ نے بھی بھارتی اقدام کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اصولوں اور بھارتی آئین کے خلاف قرار دے دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بھارتی اقدام کے خلاف اپنی آواز اٹھا رہی ہیں۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی طرف سے جو کچھ کیا جا رہا ہے اور جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ اعلانات یہی ہیں کہ اگر اس بھارتی اقدام پر ہم عالمی میڈیا اور عالمی طاقتوں کے سامنے اپنا بیانیہ صحیح طور پر رکھنے اور پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انشاء اللہ کوئی بڑی لڑائی لڑے بغیر اچھی خبریں آ سکتی ہیں۔
بھارت اس معاملے میں اکیلا نہیں ہے۔ اسے اسرائیلی لابی مکمل طور پر سپورٹ کر رہی ہے۔ بھارت مقبوضہ وادی میں بڑے پیمانے پر قتل عام کر کے اس کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا خواہش مند ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی نازی پارٹی اور مودی ہٹلر طرز کی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ لیکن مقبوضہ وادی سے آنے والے محدود اعلانات بتا رہے ہیں کہ کشمیری نہ صرف پہلے سے زیادہ متحد ہو چکے ہیں بلکہ پہلے سے کچھ زیادہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ امریکا یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان بھارت کے ساتھ الجھا یا بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو افغانستان میں جاری امن عمل شدید طور پر متاثر ہو گا‘ لہٰذا وہ صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان سے گزشتہ شام سینئر صحافیوں کی ایک نشست ہوئی‘ جس میں راقم کو بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ امریکی صدر ٹرمپ کشمیر کے معاملے میں سنجیدہ تھے۔ شاید اس سارے معاملے کو 'ٹریگر آف‘ کرنے کے لیے ہی مودی نے حالیہ قدم اٹھایا۔ وزیر اعظم نے 90 فی صد گفتگو آف دی ریکارڈ کی جسے بیان کرنا مناسب نہیں‘ لیکن وہ بڑے پُر اعتماد تھے۔ ان سے بار بار پاکستان کے متوقع اقدامات اور تیاریوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ اگر بھارت نے جارحیت مسلط کی تو پاکستان کا رد عمل کیا ہو گا؟ اس کے جواب میں جناب وزیر اعظم نے کہا ''بھارت کو 27 فروری بھولنا نہیں چاہئے‘‘۔ بھارت کیا کر رہا ہے اور کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے پاکستان اس سے پوری طرح با خبر ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان پہلے سے زیادہ طاقت ور بھی ہے اور مضبوط بھی۔ بھارت اپنا آخری کارڈ کھیل چکا ہے۔ اب تک کا رد عمل ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اپنی اس پوزیشن پر قائم نہیں رہ سکے گا۔
وزیر اعظم نے بتایا کہ یو این جنرل اسمبلی میں جانے سے پہلے پاکستان بھرپور تیاری کرے گا‘ اور اس وقت آئینی ماہرین جائزہ لے رہے ہیں کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور یو این سکیورٹی کونسل میں معاملات کس طرح اٹھائے جا سکتے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والا اعلامیہ واضح کرتا ہے کہ افواج پاکستان ہر لحاظ سے پوری طرح تیار اور چوکس ہیں‘ اور پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تمام آپشن کھلے ہیں اور پاکستان کے رد عمل کی کوئی آخری حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ پاکستان زندہ باد۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں