NNC (space) message & send to 7575

آؤٹ آف دی باکس پالیسی

برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے اور دنیا بھر میں برطانوی جمہوریت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہونا چاہتا ہے۔ ریفرنڈم ہوچکا ہے۔ بس عملدرآمد ہونا باقی ہے۔ سابق وزیراعظم ٹریزامے کی جانب سے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کیلئے بریگزٹ معاہدہ دو بار پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ دونوں بار ایوان نے کثرت رائے سے یہ معاہدہ مسترد کردیا۔ ایوان میں شکست کے بعد ٹریزامے کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ نومنتخب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے منصب سنبھالا تو انہوں نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے 31 اکتوبر کی تاریخ کا تعین کیا‘ لیکن پارلیمنٹ کی طرف سے اس بارے میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی تھیں اور انہیں اس اقدام سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ کوئی قانون سازی کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس پر وزیراعظم جانسن نے ملکہ برطانیہ کو درخواست کی کہ پارلیمنٹ کو ایک ماہ کے لیے معطل کردیا جائے تاکہ یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے پر مقررہ تاریخ تک عمل درآمد ممکن ہو سکے۔ ملکہ برطانیہ نے درخواست قبول کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو ایک ماہ کے لیے معطل کر دیا۔ یوں نہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکے گی‘ نہ ہی وزیر اعظم جانسن کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ سکے گی۔ یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ ریاستِ برطانیہ کا ہے جبکہ پارلیمنٹ ایک خاص معاہدے کے تحت یورپی یونین سے علیحدہ ہونے پر اصرار کر رہی ہے۔ ریاست برطانیہ سمجھتی ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ اس کی اقتصادی اہمیت کی بہت سی وجوہ ہیں جن کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔ لیکن جہاں معاملہ ریاست کے مفادات کا ہو‘ قومی مفادات کا ہو تو پھر ''آؤٹ آف دی باکس‘‘ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ برطانیہ میں کوئی تحریری دستور نہیں ہے بلکہ امورمملکت روایات کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں۔ تمام جمہوریتوں کی ماں برطانیہ نے یہ فیصلہ کیا اور ملکہ برطانیہ نے پارلیمنٹ کو ہی معطل کر دیا۔ یقیناً یہ فیصلہ محض فرد واحد یعنی برطانوی وزیراعظم کا نہیں تھا بلکہ اس میں تمام مقتدر ریاستی ادارے بھی ان بورڈ تھے اس لیے ایک نمائشی ملکہ برطانیہ نے برطانوی پارلیمنٹ کو معطل کر دیا۔ یوں ریاستی مفادات پارلیمنٹ، قانون سازی اور اس نوعیت کی تمام حجتوں سے بالادست ٹھہرے۔
امریکہ افغانستان کوفتح کرنے کیلئے میدان میں اتراتھا۔ نائن الیون کوبنیادبنا کرافغانستان پرحملہ آورہوا۔ افغان طالبان کی حکومت کاتختہ الٹا اورکابل پرقابض ہوگیا۔ پھراس قبضے کومستقل کرنے کیلئے نیٹوسمیت دنیابھر کی افواج کے ساتھ مل کر افغانستان کے شہر شہر، گلی گلی طالبان کاپیچھاکیا۔ طالبان حکمرانوں نے مرکزی اورصوبائی دارالحکومتوں کو چھوڑا‘ اقتدار کے ایوانوں سے کپڑے جھاڑ کراٹھے اورسائیکل،گدھا گاڑی،پیدل اوربسوں میں سوار عام شہریوں کی طرح نکلے۔ پہاڑوں کارخ کیا۔ اپنی طاقت کوازسر نو مجتمع کیا‘ گوریلا وارشروع کی‘ اورآہستہ آہستہ افغانستان کے علاقے امریکہ‘ نیٹو اوراس کے اتحادیوں سے واپسی لینا شروع کردیئے۔ کرزئی اوراشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومتیں بھی امریکہ کی بیساکھیوں کے باوجود افغان عوام کے دل نہ جیت سکیں۔ اس گوریلا وار میں افغان طالبان اکیلے نہیں تھے بلکہ انھیں خطے کے دیگرکھلاڑیوں روس، چین، ایران، ترکی اورمحدود حدتک ہماری بھی حمایت حاصل تھی۔ پاکستان کاازلی دشمن بھارت بھی افغان جنگ میں امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے ساتھ تھا۔ افغان جنگ کی آڑ میں بھارت نادیدہ عالمی سازشوں کاعملی طورپر اہم کھلاڑی رہا‘ جس کامقصد پاکستان کے حصے بخرے کرنا تھا‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص کرم اورپاکستانیوں کی قربانیوں کی بدولت پاکستان نے دہششتگردوں کیخلاف اس نام نہاد چومکھی جنگ میں کامیابی حاصل کی۔
افغان جنگ میں پہلے نیٹو نے ہاتھ کھڑے کئے اورپھرامریکی بھی اس نتیجے پرپہنچے کہ افغان طالبان سے ہی مذاکرات کرکے افغانستان سے فرار کا باعزت راستہ نکالا جائے۔ واضح رہے کہ یہ وہی افغان طالبان ہیں جن کو امریکہ‘ نیٹو اوراس کے اتحادی دنیا بھر کے سامنے دہشتگردکہتے رہے اورپاکستان سمیت دنیا کی تمام کمزورمملکتوں کواس جنگ میں شریک ہونے کیلئے دبائو ڈالاگیا۔ افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ تحریر ہوچکا۔اس کا اعلان ہوناباقی ہے۔ امریکہ جیسی سپرپاور‘ جسے پوری دنیا میں ہونیوالی ہرموومنٹ پرنظررکھنے کازعم ہے‘ بھی اپنی تمام تردفاعی اورانٹیلی جنس صلاحیتوں کے باوجود افغان طالبان کے سامنے کھڑی نہ ہوسکی اوراسے ''وسیع ترقومی مفاد‘‘ میں آئوٹ آف دی باکس ''دہشتگرد‘‘ افغان طالبان سے مذاکرات کرکے افغانستان سے نکلنے کافیصلہ کرناپڑا کیونکہ وہ اس نتیجے پرپہنچ چکے کہ کھربوں ڈالر ضائع کرنے کے باوجود وہ افغانستان پرقابض نہیں ہو سکے‘ نہ ہی آئندہ اس کی امید ہے۔
امریکہ اوراس کے اتحادی افغانستان میں جنگ کررہے تھے جبکہ خطے کے دیگرکھلاڑی پاکستان اورچین وسیع تر اقتصادی منصوبے سی پیک کوحتمی شکل دے رہے تھے۔ افغانستان کے بارے میں جس فتح کاامریکہ نے سوچا تھا‘ وہی کچھ روس بھی سوچ کرآیاتھا لیکن بند کمرے میں بیٹھ کر لگائے گئے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور روس کونہ صرف افغان جنگ میں شکست ہوئی بلکہ اس کے حصے بخرے ہوگئے۔ روس نے بھی افغانستان میں اپنی یقینی شکست کودیکھ کر ''آئوٹ آف دی باکس‘‘ فیصلہ کیا اوروہاں سے نکلتابنا۔ افغان جنگ میں شکست کے بعد روس عالمی سیاست میں غیرمتعلق ہوگیا۔ لیکن پھر اسے کے جی بی کے سابق سربراہ ولادیمیر پوٹن کی قیادت میسرآئی۔ پوٹن نے بھی قیادت سنبھالنے کے بعد روایتی سوچ سے ہٹ کر ''آئوٹ آف دی باکس‘‘ فیصلے کئے‘ اپنے آپ کو پھرمتعلق کرلیا اورآج وہ بھی عالمی سیاست اورخطے کااہم کھلاڑی بن چکاہے۔
پاکستان انیس سواکہترمیں دولخت ہوا۔ اس شکست سے پاکستان نے سبق سیکھا اوراپنے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ سقوط ڈھاکہ میں روس بھارت کے ساتھ تھا اورافغان جہاد کے نتیجے میں روس کی شکست میں پاکستان نے اہم کرداراداکیا۔ لیکن دونوں ملکوں نے ''آئوٹ آف دی باکس‘‘ نکل کرپرانی تلخیوں کوپس پشت ڈال کر دوستی کا ہاتھ بڑھایا اوراب بھارت کے برعکس پاکستان اورروس خطے میں ہم خیال ہیں اوربھارت دوسرے پلڑے میں ہے۔ 
پاکستان کو دولخت کرنے والے اہم کردار شیخ مجیب کو نہ صرف تسلیم کرنا پڑا بلکہ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے بطور وزیر اعظم بنگلہ دیش ان کا استقبال بھی کیا گیا۔ بنگلہ دیش کو تسلیم اور شیخ مجیب کا استعمال کرنے کا فیصلہ پاکستان کو زمینی حقائق کی بنیاد پر ''آؤٹ آف دی باکس‘‘کرنا پڑا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دیا گیا ہے۔ معاملہ سکیورٹی کونسل کے اجلاس سے ہوتا ہوا پاکستان کے گلی بازاروں میں احتجاج اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ٹریفک کو آدھا گھنٹہ رکنے تک آ چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بدستورسربراہان مملکت اور وزرائے خارجہ سے رابطہ کرنے میں مصروف ہیں تاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے پہلے بھارتی اقدامات کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کی جاسکے۔ عالمی ذرائع ابلاغ بھی مسلسل بھارتی ظلم و ستم کے بارے میں رپورٹس شائع اور نشر کر رہے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے دو ہفتے قبل یہ کہہ کر درخواستوں کی سماعت سے انکار کردیا تھا کہ ابھی وقت مناسب نہیں ہے‘ لیکن گزشتہ روز اسی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مسلسل کرفیو کے خلاف دائر 14 آئینی درخواستیں سماعت کے لیے نہ صرف منظور کر لیں بلکہ اٹارنی جنرل کی بھرپور مخالفت اور ان کے دلائل مسترد کرتے ہوئے مودی سرکار، مقبوضہ کشمیر کے گورنرجنرل اور دیگر اداروں کو نوٹس بھی جاری کر دیئے۔ باقاعدہ سماعت کے لیے لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا۔ دو درخواست گزاروں کو اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں جا کر ملنے کے احکامات صادر کیے اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق سلب کرنے، مواصلاتی نظام منقطع کرنے اور کرفیو کے خلاف سات روز کے اندر اندر رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔

 

بھارتی سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی یہ دلیل بھی مسترد کر دی کہ ان آئینی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے احکامات کو پاکستان‘ اقوام متحدہ اور دیگر فورمز پر بھارت کے خلاف استعمال کرے گا‘ اس لئے آئینی درخواستوں پر کوئی حکم صادر نہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب اکبرالدین پہلے ہی نیویارک میں کہہ چکے ہیں کہ بھارتی سرکار کے خلاف معاملات کے حل کے لیے سپریم کورٹ موجود ہے‘ اس لئے مودی سرکار کے اقدامات کوعالمی فورمز پر اٹھانے کی ضرورت نہیں‘ لیکن ان کی یہ دلیل عالمی برادری نہیں مان رہی اور عالمی رہنما بھارت کو مسلسل پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
آنے والے چند ہفتے بالخصوص اورآئندہ چند ماہ بالعموم مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں انتہائی اہم ہیں اوریہ خطہ اور بھی اہم ہوچکا ہے جب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ حتمی شکل اختیار کرچکا ہے۔ امریکہ کے افغانستان سے مکمل انخلا تک‘ یعنی اگلے سال کے اختتام تک اس خطے میں ہونے والے واقعات خاص اہمیت کے حامل ہوں گے اورپاک بھارت کشیدگی ان واقعات اور پیشرفت سے جڑی رہے گی۔ خطے میں پائیدار قیام امن کے لیے امریکہ سمیت دیگر ممالک اہم فیصلے کریں گے۔ جنوبی ایشیا کے تنازعات کو کم سے کم کرنے کے لئے بڑی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھی ہیں تاکہ ان کے مفادات متاثر نہ ہوں۔ ایسے میں پاکستان کو بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام آپشنز کھلے رکھنے چاہئیں اور طرز کہن پر اڑنے کے بجائے نئے تغیرات سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ ہمارا پہلا مقصد اور ہدف مقبوضہ وادی میں بسنے والے کشمیریوں کیلئے فوری ریلیف کا حصول ہے تاکہ ان کے جان و مال و آبرو کا تحفظ اور ان مظلوموں کی زندگیوں میں آسانیاں لائی جاسکیں۔ یہ دور روایتی سوچ اور پہلے سے لکھی ہوئی تحریروں سے ماورا ہو کر فیصلے کرنے کا دور ہے۔ شاید اسی لیے ''آؤٹ آف دی باکس‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی گئی تھی۔ ریاستوں کے تعلقات اور مفادات میں کوئی مستقل دوست اور نہ ہی کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے۔ دستیاب حالات اور مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا ہی سیاست ہے۔ جلد یا بدیرہمیں اس طرف جانا ہوگا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں