مقدمہ کمزور ہو تو‘بالعموم ‘قابل اور نامور وکیل کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اگر سائل کمزور اور اس کا مقدمہ مضبوط ہو ‘لیکن فریق مخالف اثرو رسوخ والا اور دولت مند ہو تو‘ پھر ایک ایسے قابل اور باکردار وکیل کی تلاش کی جاتی ہے‘ جو دبنگ بھی ہو اور اسے خریدا نہ جا سکے۔یہ سب کچھ انسان اپنی تسلی کے لئے کرتا ہے‘ تاکہ اس کے دل میں یہ ارمان باقی نہ رہے کہ اگر وکیل اچھا ہوتا اور اس کا مقدمہ صحیح لڑتا تو شاید فیصلہ اس کے حق میں آجاتا اور اسے انصاف مل جاتا۔قابل اور اچھا وکیل عدالت کے سامنے مقدمے کے تمام پہلو کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔تمام ظاہر اور مخفی حقائق پیش کرتا ہے۔اپنے موقف کے حق میں شواہد بیان کر کے جج کو مطمئن کرتا ہے۔فریق ِمخالف کی تمام کمزوریوں کو ریکارڈ پر لاتا ہے اور فیصلہ جج پر چھوڑ دیا جاتا ہے‘ کیونکہ فیصلے کا اختیار بہرحال جج کو ہی ہوتا ہے۔اور جو بھی فیصلہ آئے‘ اسے ماننا پڑتا ہے۔مجرم فریق‘ سزا سے بچنے اور مقدمہ جیتنے کی ہر ممکن تدبیر کرتا ہے اور سب سے آخری حربے کے طور پر وہ جج کو خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔جج کے خریدے جانے کی مہذب اور غیر مہذب تمام معاشروں میں مثالیں موجود ہیں۔کمرہ عدالت میں موجود لوگ اور مخالف فریق بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ آیا وکلاء نے دیانتداری سے مقدمہ لڑنے کا حق ادا کیا یا نہیں؟ اور یہ کہ جج صاحب نے فیصلہ میرٹ پر کیا یا اس نے ناانصافی سے کام لیا؟
مقدمہ کشمیر پر بھی یہی صورتحال صادق آتی ہے‘جس کے تین فریق ہیں؛ پاکستان‘کشمیری اور انڈیا۔ ان میں سے ایک بدمعاش غنڈاانڈیا اپنی طاقت کے بل بوتے پر آٹھ نو ملین کشمیریوں کی سرزمین پر قابض ہے۔انہیں بزور قوت دبائے ہوئے ہے۔وہاں مقید شہریوں کے جان و مال و آبرو محفوظ نہیں ہیں۔تمام حربوں کے باوجود وہ کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکا۔اب تو اس مقدمے کے وہ فریق بھی اس کے مخالف ہوگئے ہیں ‘جو ستر سال سے اس غنڈے کے ساتھ تھے۔دنیا کے عالمی فورم اقوام متحدہ میں وہ اپنا مقدمہ ہار چکا ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادیں اس کی شکست کی گواہی دے رہی ہیں‘جس میں اس عالمی فورم کے سامنے انڈیا نے اقرار کیا تھا کہ وہ ان کشمیریوں کو حق ِخود ارادیت دے گااورکشمیریوں کی خواہشات جاننے کیلئے وہاں استصواب ِرائے کروائے گا‘لیکن مقدمے کا یہ مجرم بدمست ہاتھی کی طرح نہ تو کسی معاہدے کی پاسداری کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی عالمی فورم کے فیصلوں کو تسلیم کررہا ہے۔مایوسی و نامرادی کا یہ عالم تھا کہ مقدمہ کشمیر تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالا جا چکا تھا۔اقوام متحدہ کی قراردادیں ردی کی ٹوکری کی نذر ہوچکی تھیں۔ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کا خون اور ماؤں بہنوں کی عصمت دری بھی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام ہو چکی تھی۔مقدمے کا اہم فریق پاکستانی قیادت بھی اپنی اندرونی خلفشار‘ ناعاقبت اندیش اور مصلحت پسندی کی وجہ سے توجہ ہٹا چکی تھی‘لیکن کشمیریوں نے اسے اپنے خون کے رنگ سے بہرحال تروتازہ رکھا ہوا تھا اور رکھے ہوئے ہے۔
انڈین ہٹلر مودی نے آر ایس ایس کے ایجنڈے کو بڑھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے اس پر یکطرفہ قبضہ کرکے اعلان کردیا کہ کشمیر سے متعلق قرار دادیں اب صفحہ مثل سے ہٹا دی گئی ہیں۔مودی کے اس اقدام میں جیسا کہ ہم پہلے بھی تحریر کرچکے ہیں کہ دنیا کے کچھ اور ممالک بھی اس کے ساتھ تھے۔عام خیال اور اندازہ یہی لگایا گیا کہ مودی کا یہ اقدام تسلیم کرلیا جائے گا اور دنیا اس پر مہر تصدیق ثبت کردے گی۔مودی کے اقدام کو طے شدہ سکرپٹ بھی کہا اور سمجھا گیااور پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں اورہم خیال دانشوروں نے برملا یہ کہنا شروع کردیا کہ وزیراعظم عمران خان اور عسکری قیادت نے کشمیر کا سودا اپنے جولائی کے دورہ امریکہ کے دوران وائٹ ہاؤس اور پینٹا گان میں کرلیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے حکومت کے خلاف دھرنے اور لانگ مارچ کی تیاری شروع کردی اور اب مسلم لیگ نون بھی اس دھرنے کی حمایت کا اعلان کرچکی ہے‘ لیکن یہ اندازے اس وقت غلط ثابت ہوگئے‘ جب پاکستان کی حکومت نے اسے یکسر مسترد کردیااور تمام تر کمزوریوں ‘ عالمی تنہائی فیٹف کی تلوار لٹکنے اور معاشی بدحالی کا شکار ہونے کے باوجود وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت بھی خم ٹھونک کر میدان میں اتری اور نریندر مودی کے اقدام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کشمیر پر ایٹمی جنگ کے آپشن کو اوپن کردیااور وزیر اعظم عمران خان نے اس مضبوط ‘مگر کمزور فریق کشمیریوں کے مقدمے کو لڑنے کا فیصلہ کیا اور پوری دنیا میں مظلوم ومحکوم و مقیدلاوارث کشمیریوں کا سفیر بننے کا اعلان کیا۔ اپنے دورۂ امریکہ کو ''مشن کشمیر ‘‘کا نام دیاگیا۔روحانی طاقت حاصل کرنے کیلئے دو عالم کے پروردگار اور کائنات کے حاکم کے گھر میں سربسجود ہونے اور رحمت اللعالمین آخری پیغمبر الزماں محمد مصطفی ﷺ کے روضہ مبارک کے اندر حاضری اور سلام عرض کرنے کے بعد دنیا کی سپر پاور امریکہ پہنچے۔صدر ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں سمیت ستر سے زائد عالمی رہنماؤں سے ملاقات کی۔عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ملاقات اورتھنک ٹینکس میں اظہار خیال کرلے کشمیر کا مقدمہ ازسر نو پیش کیااور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری مغربی و ہندی پروپیگنڈے کی نفی کی۔ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے انہی کی تاریخ اور انہی کی زبان میں بات کی۔کوئی رزلٹ نہ پاکر انہی کے تھنک ٹینکس میں برملا کہا کہ وہ عالمی رہنماؤں کی خاموشی پر مایوس ہوئے جو مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم وستم کو بند کمرے میں تسلیم تو کرتے ہیں‘ لیکن اس کے لئے آواز اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔صرف اتنا ہے نہیں کہا‘ بلکہ اس سے آگے بڑھے اور چین کی ترقی کی تعریف اور امریکہ کے جارحانہ جنگجو ایجنڈے کا مزاق اڑایا۔دورۂ امریکہ میں ان کا آخری معرکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اقوام عالم کے سامنے ایک وکیل کے طور پر مقدمہ کشمیر پیش کرنا تھا۔تمام نظریں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر پر جمی ہوئیں تھیں وہ ایک غیر روایتی سیاستدان کے طور پہلی بار عالمی رہنماؤں سے مخاطب ہونے جارہے تھے۔موسمیاتی تغیرات سے خطاب شروع کرتے ہوئے تاثر دیا کہ وہ ہرگز جنگجو نہیں ‘ بلکہ ماحولیات کے ستائے ہوئے ہیں اور درخت لگانا ان کی اولین ترجیح ہے۔منی لانڈرنگ پر آواز اٹھائی اور باور کرایا کہ ''فیٹف ‘‘ہم پر نہیں‘ بلکہ ترقیاتی یافتہ مغربی ممالک پر لگنا چاہیے‘ جو غریبوں کی دولت لوٹنے والے حکمرانوں کو سیف ہیونز فراہم کرتے ہیں۔اور منی لانڈرنگ کی شریک ملزمان ہیں۔اسلاموفوبیا کا شکار مغرب کو چہرے سے نقاب اتار کر ان کا مسلم خون سے رنگا بدنما چہرا دکھایا۔ مودی اور انڈیا کو دہشت گرد قرار دیا۔کشمیر ہی نہیں‘ دنیا بھر کے مسلمانوں کی آواز بنے۔اسمبلی ہال میں بیٹھے حکمران داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔رسول خدا محمد مصطفی ﷺ کے امتی ہوتے ہوئے ناموسِ رسالت کا دفاع کیا۔ اور خبردار کیا کہ سوا ارب مسلمانوں کو لاوارث سمجھنا چھوڑ دیں۔وزیر اعظم عمران خان نے اقوام عالم میں اسلام ‘تحفظ ِناموس رسالت ‘مسلمانوں اور مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ جس انداز سے لڑا‘ اسے دنیا بھر میں پزیرائی مل رہی ہے‘ جبکہ مودی‘ آر ایس ایس اور پاکستان کی اپوزیشن ان کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتے ۔مولانا فضل الرحمان کے الزامات اور یہودی ایجنٹ کا بیانیہ دو کوڑی کا ہوچکا۔ کامیاب دورہ ٔامریکہ کا سہرا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کی ٹیم کو بھی برابر جاتا ہے‘ جنہوں نے وزیراعظم کو پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتارا۔
اب وزیراعظم عمران خان کو داخلی سیاست اور عوامی مسائل کے حل کیلئے اسی نوعیت کی ولولہ انگیزی دکھانا ہوگی‘ کیونکہ اب ان کا واسطہ محض اندرونی اپوزیشن ہی نہیں ‘بلکہ اس عالمی اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہے‘ جس کے سٹیٹس کو کے سکرپٹ کا وہ حصہ نہیں ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے عام آدمی کو ریلیف دے دیا تو بڑی سے بڑی اپوزیشن بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ مودی کے لیے کشمیر سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ انڈین سپریم کورٹ سے نکلتا ہے۔