وزیراعظم عمران خان نے بدھ کے روز صحافیوں کے ساتھ دو گھنٹے سے زائد وقت گزارا۔ وزیراعظم آفس میں ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے احتجاجی دھرنے‘ آزادی مارچ ‘ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ‘ ملکی معاشی صورتحال‘ میڈیا کا حکومت کے ساتھ رویہ ‘وزرا کی کارکردگی‘ صحافیوں کے حکومت اور وزرا سے گلوں شکووں پربات ہوئی اور وزیراعظم نے چند صحافیوں سے سنجیدہ شکایات پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ ساری گفتگو لائٹ موڈ اور مسکراتے مسکراتے ہوئی۔ وزیرعظم کے دائیں اور بائیں وفاقی وزرا خسرو بختیار‘ عمر ایوب معاونین خصوصی فردوس عاشق اعوان‘ ندیم افضل گوندل‘ یوسف بیگ مرزا‘ ندیم بابر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی تشریف فرما تھے۔ وزیراعظم نے پہلی بار یہ کہا کہ نوازشریف کا معاملہ نیب ‘عدالت اور قانون کے ساتھ ہے ‘اُن کی نواز شریف سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے‘ان کے مستقبل کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔نواز شریف کو علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجے جانے کے سوال پر عمران خان نے کہا کہ اس بارے میں بھی فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔ اُن کا اس معاملے سے کیا تعلق؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو اس وقت ایک شفاف حکومت کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور( ن) لیگ کے رہنما ان پر الزامات لگا رہے ہیں۔ اپوزیشن کے آزادی مارچ کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ احتجاج اور حکومت گرانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہیں‘ اپوزیشن خود منتشرالخیال ہے۔ مولانا کبھی یہودی کبھی قادیانی کبھی کوئی اور مسئلہ بیان کرتے ہیں‘ جبکہ یہ سب جھوٹ اور لغو الزامات ہیں‘ جن کا کوئی وجود نہیں۔ بلاول مہنگائی کی بات کرتے ہیں جبکہ مہنگائی تو پی پی پی حکومت کے پہلے ایک سال میں اس سے کہیں زیادہ تھی‘جبکہ( ن) لیگ کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ کسی طریقے سے ان کو این آر او مل جائے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس کوئی ٹھوس مطالبات نہیں ہیں جن کی بنیاد پر ہم ان سے بات کرتے‘جہاں تک بات ہے میرے مستعفی ہونے کی تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘میں کس بنیاد پر استعفیٰ دوں؟ میں نے کیا غلط کیا ہے؟وزیراعظم نے بتایا کہ احتجاج اپوزیشن کا حق ہے‘ وہ آئین‘ قانون‘ جمہوری اصولوں اور سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی متعین کردہ حدود و قیود میں رہ کر احتجاج کریں‘ حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے گی۔ ساتھ ہی وزیراعظم نے کہا: ہم نے شکر پڑیاں پریڈ گراؤنڈ میں تین جلسے کئے تھے اپوزیشن بھی یہ کرلے۔ لیکن انہوں نے دھرنا دینے کی اجازت نہ دینے کا اشارہ دیا۔ وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ آرمی چیف کے ساتھ تاجروں کی ملاقات سے یہ تاثر گیا کہ طاقت کا مرکز پنڈی ہے‘ اس پر وزیراعظم نے بتایا کہ جنرل باجوہ نے اْن سے پوچھا تھا کہ بزنس مین ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے جنرل باجوہ سے کہا کہ آپ ضرور ملیں‘ حکومت کی معاشی ٹیم ان کے ساتھ بیٹھی تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کو اصل تکلیف یہ بھی ہے کہ اس وقت حکومت اور فوج کے باہمی تعلقات اتنے اچھے کیوں ہیں؟ عمران خان نے کہا کہ فوج ایک اہم ادارہ ہے‘ ہم نے انہیں اور انہوں نے ہمیں اعتماد دیا‘ ہم مل کر کام کرتے ہیں‘ اہم معاملات پر ایک دوسرے سے مشاورت کرتے ہیں‘ اس وقت حکومت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔سول ملٹری مثالی تعلقات کا نتیجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بہترین جارہی ہے‘ اس وقت پاکستان کی افغان پالیسی‘ کشمیر پالیسی اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیسی ہونی چاہیے ‘اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے‘ بلکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی سوچ ایک ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ سعودی عرب ‘ایران‘ ترکی‘ قطر‘ چین اور یواے ای ‘سب کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہیں اور اس کے وجہ بھی بہترین سول ملٹری تعلقات ہیں‘ لیکن کچھ عناصر کو یہ مثالی صورت حال پسند نہیں ہے۔
مولانا کے دھرنے کے بارے وزیرعظم نے کہا کہ انڈین میڈیا اس کو بہت کوریج دے رہا ہے ‘جس سے شک ہوتا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں بیرونی عناصر بھی ملوث ہوسکتے ہیں‘کیونکہ اس وقت پاکستان کی معیشت ٹیک آف کرچکی ہے اور آئندہ چند ماہ میں مزید بہتر ہو جائے گی۔ وزیراعظم نے چار اینکرز کو مخا طب کر کے کہا کہ آپ کچھ بہتری کا بھی بتا دیا کریں‘ حکومت کافی کچھ اچھا بھی کررہی ہے۔ ایک اینکر سے کہا کہ آپ وزیر خزانہ بننے کے لیے دستیاب ہیں؟ اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا۔ میڈیا پر پابندیوں کا شکوہ بھی وزیراعظم سے کیا گیا تو محسوس ہوا کہ وزیراعظم سے بالا بالا کچھ اقدامات کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ مولانا فضل الرحمن کو دکھانے پر کوئی پابندی نہیں‘ وہ بطور وزیراعظم اجازت دیتے ہیں کہ جائیں مولانا کا انٹرویو کریں‘اور میڈیا کھل کر بات کرے‘ اگر کہیں کرپشن ہو تو اس کے بارے میں بے دھڑک لکھیں۔
وزیراعظم آفس سے نکلے‘ دفتر پہنچے تو ٹی وی سکرین پر خبروں کی بھرمار تھی۔ عمران خان صاحب کے نرم رویے کی وجہ سمجھ آنے لگی۔ آزادی مارچ میں ابھی ایک ہفتہ باقی ہے‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں تیزی سے شدت آرہی ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومت لاہور میں برق رفتاری سے دو واقعات رونما ہوئے۔میاں محمد نواز شریف خرابیٔ صحت کی بنا پر نیب حوالات سے سروسز ہسپتال پہنچ چکے تھے اور ان کی بیٹی مریم نواز کو بھی پنجاب حکومت نے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پہلے ایک گھنٹے کے لئے پیرول پر رہا کیا تاکہ وہ اپنے والد کی خیریت دریافت کرسکیں‘ مگر پھر انہیں بھی اچانک طبیعت خراب ہونے پر نواز شریف کے ساتھ والے کمرے میں ہی داخل کردیا گیا۔ پورے وارڈ کو سب جیل کا درجہ دے دیا گیا ۔بعد ازاں حالت ٹھیک ہونے پر مریم نواز کو واپس جیل منتقل کردیا گیا۔ نواز شریف صاحب کی حالت بہت زیادہ اچھی نہیں ہے‘ ماہر ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ ان کا علاج کررہا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق طبیعت نہ سنبھلی تو انہیں بیرون ملک منتقل کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسلام آباد میں صدر زرداری کو بھی خرابیٔ صحت کی بنا پر اڈیالہ جیل سے پمز ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان کی حالت بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ صدر زرداری اب بغیر سہارے کے چل نہیں سکتے‘ ایک بار وہ گر بھی چکے ہیں‘اس لیے ڈاکٹرز نے انہیں مکمل بیڈریسٹ کا مشورہ دیا ہے۔
اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے حکومت ایک قدم اور پیچھے ہٹ گئی ہے اوراس نے اپوزیشن کو آزادی مارچ کرنے کی مشروط پیشکش کردی ہے۔ مذاکرات کیلئے ساز گار ماحول کی خاطر اعتماد سازی کے اقدامات شروع کردئیے گئے ہیں۔ قیدی جیلوں سے ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔شہباز شریف ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں۔ ان کی درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد آج سروسز ہسپتال کے حکام کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا گیا ہے۔ حالات تبدیل اور اقدامات برق رفتاری سے کیے جارہے ہیں‘ عمران خان ٹویٹ کے ذریعے نوازشریف کی صحت یابی کی دعا کرچکے ہیں۔ائیر ایمبولینس تیار کھڑی ہے۔ زرداری صاحب کی طبیعت بھی تسلی بخش نہیں۔ مولانا سکھر میں بتا چکے ہیں کہ ان کا احتجاج ہو گا اور ضرور ہو گا۔ مولانا کی آرمی چیف سے ملاقات کچھ اچھی نہیں رہی۔ سیاسی صورتحال کے تناظر میں پروین شاکر کی یہ غزل بہت کچھ بیان کررہی ہے۔
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے
ان ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا
جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا
آئنے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لیے
جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا
ایک مشتِ خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا