ہم مسلمان ہیں‘ ہم اشرف المخلوقات ہونے کے دعویدار ہیں‘ ہم اللہ تعالیٰ کو ماننے والے ہیں‘ ہم آخری پیغمبرنبی رحمت حضرت محمدمصطفی ﷺ پر ایمان لانے والے ہیں‘ ہم قرآن مجید کے پیروکار ہیں‘ اسلامی تعلیمات پر عمل کے پابند ہیں ‘اپنے اپنے دائرہ کار اور دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ایک اسلامی اور فلاحی معاشرے کی تشکیل ہمارے فرائض میں شامل ہے ‘ہم پر فرض ہے کہ ہم بطورِ مسلمان نہ صرف اپنے مسلم بہن بھائیوں کے لیے مددگار بنیں بلکہ اپنے گرد وپیش اور اپنے زیر سایہ غیر مسلموں کے لیے بھی امن و آشتی کا گہوارہ بنیں۔
ہرمسلمان پر لازم ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے اخلاق سے پہچانا جائے‘ ہمارے پیارے نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے عملی نمونہ اور مشعلِ راہ ہے۔ ہم نے ایک آزاد وطن بھی اسی لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں ہم اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ ایک ایسا معاشرہ قائم کرسکیں جسے دیکھتے ہی زمانہ اسے ایک حقیقی فلاحی اور اسلامی معاشرہ کہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم گزشتہ ستر برسوں میں ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو غیروں نے اپنایا اور فلاحی معاشرے قائم کئے‘ جہاں انسانیت کی خدمت‘ انسان کی جان‘ مال اور آبرو کی حفاظت بلا رنگ و نسل پہلی ترجیح گردانی جاتی ہے‘ جہاں قانون کی عملداری ہے‘ جہاں کوئی بلوہ ہوتا ہے تو وزیراعظم اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے وطن واپس پہنچتا ہے‘ دن رات عدالتیں لگتی ہیں اور مجرموں کو چْن چْن کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے۔جہاں بچوں کے‘ بچیوں کے خصوصی حقوق ہیں۔ یہ سب ہماری ہی تعلیمات ہیں‘ سب روایات ہماری ہی میراث ہیں‘ہمارا ماضی‘ ہمارا فخر ہے‘ لیکن یہ ظلم عظیم ہے کہ ہماری تعلیمات‘ ہماری میراث‘ ہماری درخشاں روایات کو غیروں نے اپنایا اور مثالی معاشرے قائم کرلیے ‘ مگر ہم اخلاقی گراوٹوں میں اس انتہا تک گر چکے ہیں کہ شرم سے سر جھک جاتے ہیں۔
معاشرے کا ہر طبقہ ایک مافیا کی طرح ایکٹ کرتا ہے اور اپنے آپ کو قانون سے بالا تر اور ناقابل ِاحتساب سمجھتا ہے۔مسلم معاشرے میں بچوں اور کم سن بچیوں سے جنسی زیادتی‘بہنوں ‘ بھائیوں ‘بیٹیوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنا‘ جائیداد میں خواتین کو حصہ دینے کی بجائے ان کی زندگیوں کا خاتمہ کردینا‘ ایسی خوفناک خبریں ہیں کہ ایسے معاشرے کا اسلامی کہلانا پوری دنیا میں باعث ندامت ہے۔ ہم ایک ایٹمی قوت بن گئے‘ فوجی قوت بن گئے‘ لیکن افسوس کہ ہم مسلم معاشرہ تشکیل نہ دے سکے۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کی سینیٹر روبینہ خالدکی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں پولیس حکام نے ایک تحقیقاتی رپورٹ پر بریفنگ دی‘ جس کے مطابق چائلڈ پورنوگرافی کے ملزم سہیل ایاز کے کمپیوٹر سے ایک لاکھ پورنوگرافک تصاویرملی ہیں اور ملزم کے موبائل کا تمام ڈیٹا بھی حاصل کر لیا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق موبائل فون سے بچوں کے ایکسچینج کے حوالے سے بھی پیغامات ملے ہیں۔ ملزم سہیل ایاز پولی گرافک ٹیسٹ میں جھوٹ بولتا رہا اور یہ کہ ملزم اورمتاثرہ بچوں کے ڈرگ ٹیسٹ بھی پوزیٹوآئے ہیں۔متاثرہ بچوں کو آئس اور چرس کا نشہ کرایا جاتا تھا ۔سہیل ایاز کے خلاف کیس 100 فیصدمضبوط ہے۔
ادھر ایک تازہ افسوسناک واقعہ لاہور میں پیش آیا ہے جس میں کالے کوٹ اور سفید کوٹ کی ذاتی دشمنی نے ہسپتال میں مریضوں کو بھی نہ بخشا اور زیر علاج مریض جو جان بچانے کے لیے ہسپتال پہنچے لیکن کالے کوٹ میں چھپے کالے من کی دہشتگردی کا نشانہ بن گئے۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ قانون موجود ہے‘ ادارے موجود ہیں‘ سسٹم موجود ہے لیکن ان مافیاز کو سزا کوئی نہیں دیتا۔ ہر آنے والا دن زوال کی طرف جارہا ہے ہم ایک قوم سے کئی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ایک ہجوم کی شکل اختیار کرچکے ہیں‘ نہ مسلمان رہے نہ انسان رہے‘ بلکہ شرمناک حد تک برائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ بلا امتیاز یہ سمجھتا ہے کہ صرف ان کے مفادات کا تحفظ باقی رہے‘ باقی کچھ بچے نہ بچے اس کو پروا نہیں ‘بلکہ لاقانونیت کی انتہا ہے کہ اب تو عام شہری بھی سینہ تان کر قانون شکنی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہ وطن پاکستان ہم نے کیسے حاصل کیا ؟بر صغیر پاک و ہند کا چپہ چپہ اور تاریخ دان اس بات کے گواہ ہیں کہ مملکت خداداد انتھک محنت‘ طویل جدوجہد اور ناقابلِ بیان قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی۔ یہ آزاد وطن ہمیں کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا‘ ایسا نہیں کہ مسلمان ایک رات سو کر صبح اٹھے تو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوچکاتھا۔ نہیں ہرگز نہیں‘ بلکہ مذہبی اور سیاسی شناخت منوانے کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے اول روز سے لے کر پاکستان پہنچنے تک اپنے تن من دھن اور عزت و آبرو کی بے پناہ قربانیاں دیں۔ پھر اس آزادی پر بار بار حملے بھی کئے گئے اور وطن عزیز کو دولخت کردیا گیا ‘گو کہ اس میں ہمارے اپنوں کی بھی ریشہ دوانیاں شامل تھیں۔آزادی و خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے آج تک پاکستانی قوم کے سپوت اپنا خون پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد بیگانی جنگ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے عام شہریوں سے لے کر ہمارے سول اور فوجی سکیورٹی اداروں تک نے بلاامتیاز قربانیاں پیش کیں جو آج تک جاری ہیں۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے پاکستان کا خواب دیکھا‘ آزاد وطن کا تصور پیش کیا ‘جسے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں عملی تعبیر ملی۔ 1905ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزادی کا سفر شروع کیا گیا۔سلطنت برطانیہ کے بادشاہوں نے برصغیر کے عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کے کشکول میں سیاسی مطالبات پورے کرنے کی رفتار کچھوے کی رفتار سے بھی کم رکھی اور سیاسی حقوق دینے کا انداز کْچھ اس طرح اپنایا جیسا کہ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں گھومنے پھرنے والے کروڑوں‘ اربوں پتی سرمایہ دار فقیروں کے کشکول میں چند سکے ڈالتے ہیں۔ بالکل یہی انداز برٹش حکمرانوں کا تھا۔ہر دس سال بعد انگریز حکمران ریزگاری کی طرح کْچھ حقوق کشکول میں ڈال دیتے تھے۔ 1909ء میں عوامی دباؤ پر منٹواور مارلے کو ملکہ برطانیہ نے ہندوستان بھیجا‘ جن کی سفارشات پر چند سیاسی حقوق برصغیر کے عوام کو دیئے گئے۔ انہیں منٹو مارلے اصلاحات کا نام دیا گیا۔ یہ آزادی کی طرف بارش کا پہلا قطرہ تھا۔برصغیر کے عوام نے سیاسی حقوق کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی اور دس سال بعد انگریز سرکار نے 1919ء میں مانٹیگو چیمسفورڈ کی سربراہی میں ایک اور کمیشن بھیجا‘ جس کے نتیجے میں محکوم عوام کو کچھ مزید حقوق عطا کئے گئے‘ جو ماضی سے کْچھ بہترتھے۔ 1935ء میں مزید حقوق ہمارے جھولی میں ڈالے گئے اور 1939ء کی کانگریسی وزارتوں نے ہندوؤں کا اصل چہرہ بے نقاب کیا جس کے نتیجے میں حتمی طور پر الگ وطن کا فیصلہ ہوا اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت‘ اور اس دوران ہونے والے ظلم ستم کی بھی تاریخ گواہ ہے۔
ہم اپنی باہمی لڑائیوں اور کمزوریوں سے دو ٹکڑے پہلے ہی ہوچکے ہیں‘ لیکن ہم اپنی اصلاح کے لیے تاحال تیار نہیں ہیں۔ اس زوال کی انتہا میں ہمارے علما ‘سیاسی و غیر سیاسی زعما ‘ہمارے حکمران‘ ہمارا میڈیا‘ ہمارا عدالتی نظام سب برابر کے نہ صرف شریک ہیں بلکہ ذمہ دار بھی ہیں‘ جو آج بھی باہم دست و گریبان ہیں۔جو قومیں اپنی اصلاح نہیں کرتیں وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق بھی اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھتی ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا