وبائی مرض کوروناوائرس نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔اس وبائی مرض کی ابتدا چین سے ہوئی‘ تب مخالفین نے شادیانے بجائے اور اسے تجارتی اور بائیولوجیکل جنگ کا نام دیا گیا‘ لیکن چین نے ایک منظم اور پڑھی لکھی قوم ہونے کا ثبوت دیا اور مریضوں کی تعداد جو لاکھوں میں جارہی تھی اب وہ یومیہ سنگل فگر میں داخل ہونے و الی ہے۔ چین نے شہر کے شہر کیمیکل سے دھوکر رکھ دئیے اور اس موذی وبا پر بڑے تحمل سے قابو پالیا۔ چین محفوظ ہورہا ہے‘ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ خوفناک وائرس اب تک ایک سو ساٹھ ممالک میں پھیل چکا ہے اور ہرروز اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
تمام تر ٹیکنالوجیز اور سائنسی ترقی ڈھیر ہوچکی ہے‘ موت کے سائے ہرجگہ منڈلا رہے ہیں۔خوف کا عالم یہ ہے کہ بڑے بڑے حکمران اپنے محلات میں قید ہوچکے ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ شاہی محلات سے دور جارہے ہیں۔ تمام ممالک ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہورہے ہیں اور تعلقات منقطع کررہے ہیں۔زمینی و فضائی نقل و حمل کے راستے بند کردئے گئے ہیں‘ دنیا کی سپر پاور امریکہ اور تاجدار برطانیہ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی مارکیٹوں سے ٹشو پیپرز اور پانی تک غائب ہوچکا ہے اور مہذب ترین اقوام کے لوگ اشیائے خورونوش کے لیے باہم گتھم گتھا ہیں کہ نجانے کیا ہونے والا ہے۔دنیا پر حکمرانی کرنے والے صدر ٹرمپ نے بھی اس قاتل وائر س سے پناہ مانگنے کے لیے اللہ تعالی سے ہی مدد مانگی اور امریکہ میں یومِ دعا منایا گیا۔ اگر مسلم ممالک میں کوئی حکومت یا مسلم عوام اللہ تعالیٰ سے رجوع کریں تو مغربی اقوام ہمیں رجعت پسند مذہبی اور بنیاد پرست کا نام دیتے ہیں اور نِت نئے بیانیوں سے مسلم کلچر اور عقائد کو نشانہ بنایا جاتا ہے‘ جبکہ حقیقت یہی ہے کہ کم وبیش تمام مذاہب بالخصوص اہل کتاب مذاہب کے ماننے والوں کو یہ معلوم ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہے‘ لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنے میں ان کی اناپرستی آڑے آجاتی ہے۔
ساری صورتحال میں اللہ تعالی کی ربوبیت روزِ روشن کی طرح نظر آرہی ہے اور دنیا کی بے ثباتی اور بے بسی قدم قدم پر لڑکھڑاتی اور ہچکولے کھاتی نظر آ رہی ہے۔وائرس اقتدار کے بڑے بڑے ایوانوں میں بسنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ حکمران‘ بادشاہ‘ ارکانِ پارلیمان‘ وزرا ‘ہالی ووڈ کے اداکار ‘عالمی کھلاڑی گویا کہ ہر اس جگہ اور ہر اس ہستی کو یہ وائرس نقصان پہنچا چکا ہے ‘جو اپنی حفاظت کے لیے بیش بہا خرچ کرتے ہیں۔جس طرح سے شہروں اور ملکوں کو لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ جب قیامت سے پہلے صور پھونکا جائے گا تو کچھ ایسے ہی مناظر کا ذکر ہمیں ملتا ہے کہ نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور جو گھروں میں ہوں گے وہ باہر کو دوڑیں گے اور جو باہر ہوں گے وہ پناہ کی تلاش میں ہوں گے۔ گو کہ یہ قیامت تو نہیں ‘ لیکن سمجھنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ضرور ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان اب تک‘ اللہ کا شکر ہے کہ کورونا کی بہت بڑی تباہی سے محفوظ تھا‘ لیکن ایران سے آئے ہوئے زائرین میں کورونا کی موجودگی کے نمبرز اب بڑھتے جارہے ہیں اور تادم تحریر یہ نمبرز 136 تک پہنچ چکے ہیں۔اللہ تعالی سے ہمیں دعا ہی کرنی چاہیے اور جو احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں ‘ان پر شہریوں کو عمل کرنا چاہیے۔کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے یہ ایک آزمائش بھی ہے اور اللہ تعالی کی ناراضی بھی کہ مساجد اور حرمین تک میں مسلمانوں کی نقل و حرکت محدود کردی گئی ہے۔اللہ سے توبہ اور استغفار کا وقت ہے‘ بلا شبہ۔
دوسری جانب اسی دوران سیاسی صورتحال میں اچانک گرما گرمی اور شدت دیکھنے کو ملی ہے۔ مریم نواز جو کہ چار ماہ سے جاتی امرا میں خاموش اور بظاہر گوشہ نشین تھیں ‘اچانک منظر عام پر آئیں اور اسلام آباد میں شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے گھر تشریف لائیں اور میڈیا سے براہِ راست مخاطب ہوئیں۔ان کا منظرِ عام پر آنا اور اپنا وزن ان دو رہنماؤں کے پلڑے میں ڈالنا‘ جنہوں نے سروسز ایکٹ میں ووٹ نہیں دیاتھا ‘بے سبب نہیں ہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ ان کی اسلام آباد میں کْچھ اور لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی ہے جو انتہائی رازداری اور سادگی کے ماحول میں ہوئی۔ ان کا اپریل میں مزید متحرک ہونے کا ارادہ ہے ‘جبکہ سیاسی جوتشیوں کو کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں مئی کے آخری ہفتے تک شدت اور حدت انتہا درجے کو پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ سیاسی درجہ حرارت کے اُتار چڑھاؤ میں مئی کے آخری ہفتے تک شدت کا انحصار اس دوران ہونے والے واقعات پر بھی ہوگا‘ کیونکہ مریم بی بی کا خاموشی توڑنا ایک پیغام تھا کہ ان کو نظر انداز کیے بغیر کوئی سکرپٹ پروان نہیں چڑھ سکے گا۔ شہباز شریف اور خواجہ آصف کی اہمیت اپنی جگہ‘ لیکن مسلم لیگ نواز پر صرف اور صرف نواز شریف فیملی کا اختیار ہے اور رہے گا۔مریم بی بی محض عمران خان کی تبدیلی نہیں چاہتیں ‘بلکہ نئے انتخابات بھی چاہتی ہیں اور ایسے انتخابات جن میں وہ خود حصہ لیں اور دباؤ اس قدر بڑھا دیں کہ ان کی نااہلی بھی عبوری مدت کے لیے معطل کردی جائے ۔مریم بی بی کی خواہش اور کوشش اپنی جگہ‘ لیکن زمینی حقائق تاحال مریم بی بی کی یہ خواہش پوری کرتے ہوئے نظر نہیں آتے‘ البتہ اس کا امکان اس وقت ہوسکتا ہے کہ اس دوران کوئی ایک اہم کھلاڑی ادھر ادھر کردیا جائے‘ یعنی اس کے کردار کو بے اثر کردیا جائے۔ایک اور کوشش یہ بھی کہ نئے انتخابات سے قبل عبوری سیٹ اپ کی تشکیل کے وقت عمران خان وزیراعظم نہ ہوں۔
ایسی بے شمار خواہشات اور کوششیں جاری ہیں اور جاری رہیں گی‘ کیونکہ لندن میں بیٹھے نواز شریف اور شہبازشریف آہستہ آہستہ بیرونی دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک محسن اور دوست ملک کے وزیرخارجہ نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران مقتدر حلقوں کے ساتھ بڑی بے تکلفی سے یہ بات کی کہ شریف فیملی کے لیے جو بھی راستہ نکالنا ہے نکالیں اور اگر آپ متفق ہوں تو میں ان کو اپنے ساتھ ہی لے جاتاہوں‘ لیکن یہ بات آگے نہ بڑھ سکی اور اب گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالا جائے گا‘ جیسا کہ پہلے بھی ہوچکا ہے اور اس کے برعکس رائے رکھنے والے منہ دیکھتے رہ گئے تھے۔مریم بی بی نے اسلام آباد میں نرم گرم دونوں طرح کا پیغام دیا۔ وہ محتاط بھی رہیں اور کچھ کچھ سخت باتیں بھی کر گئیں‘ جس کا مقصد واضح تھا کہ اب یہ سیاسی جمود ٹوٹنا چاہیے اور ان کے سیاسی کردار کو بھی تسلیم کر لینا چاہیے جو ہوچکا وہ ہوچکا‘ میں بھی بھلانے کی کوشش کرتی ہوں اور آپ بھی بھول جائیں ‘ورنہ جیسا ماحول ہوگا ویسا ہی وہ ردعمل دیں گی۔
ایک میڈیا ٹائیکون کی گرفتاری کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہوچکی ہے اور اس معاملے کو ایک خاص رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ‘لیکن فی الوقت ریاستی ادارے اور ریاست کے اعصاب اس معاملے میں کمزور ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ معاملہ چونکہ اب عدالتوں کی دسترس میں آچکا ہے ‘اب جو بھی ہوگا عدالتوں ہی میں ہوگا‘ کیونکہ جس ادارے نے پکڑا اس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ہی بس چلتا ہے اور اب جو بھی ریلیف ملنا ہے‘ وہ بھی عدالتوں ہی سے ملنا ہے‘ جہاں حکومت کا پھر کوئی کنٹرول نہیں ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان کی خوش قسمتی کہہ لیجئے کہ بہت سے اہم ترین ایشوز کورونا کے خوف میں دب کررہ گئے ہیں۔ اس موقع سے اگر انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو جلد یا بدیر توپوں کا رخ پھر حکومت کی طرف ہی ہوگا۔