NNC (space) message & send to 7575

کورونا سے لڑ سکتے ہیں مگر…

کورونا وائرس پاکستان پرحملہ آور ہوچکا ہے‘ اس بارے میں اب ریاست پاکستان کی طرف سے باقاعدہ اعلان بھی کردیا گیا ہے اور وفاقی وصوبائی حکومتوں کی طرف سے دن رات اقدامات کئے جارہے ہیں ۔وبا کی شدت کا اندازہ جیسے جیسے ہورہا ہے‘ اس سے بچاؤ اور علاج کے لیے مزید عملی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ابتدا میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اس بارے میں انتہائی اہم اقدامات کرنے کے بارے میں تجاویز دیں‘ لیکن ان پر عمل نہ ہوسکا۔ وہ وقت گزرچکا ہے‘ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ اب تک تو جو کچھ بھی نظر آرہا ہے وہ بے ہنگم ہے۔ قرنطینہ جو قائم کیے گئے ہیں وہ ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ زیادہ تر زبانی جمع خرچ اور غیر معیاری لگتا ہے۔ قرنطینہ میں بھی اجتماعی رہائشیں نظر آرہی ہیںاور اگر یہ وبا ایک بار بے قابو ہوگئی‘ جیسا کہ اٹلی اور فرانس میں ہوچکا ہے‘ تو پھر شاید ہی ہم اس پر قابو پاسکیں۔
دنیا بھر میں ہمیں کورونا سے بچنے کے لیے جنگی اور ہنگامی صورتحال نظر آرہی ہے‘ مساجد مزار ‘بازار اور ٹرانسپورٹ‘ گویا سب کچھ بند کردیا گیا ہے‘ گو کہ پاکستان میں اب تک معاملات بظاہر خطرنا ک نہیں ہیں‘ لیکن اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک ٹیسٹنگ کا وہ عمل شروع ہی نہیں ہوسکا اور دوسری وجہ یہ کہ ہماری 60 فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے‘ جو اس سارے عذاب سے بے خبر ہے اور کچھ ہل جل صرف بڑے شہروں میں ہی نظر آرہی ہے اور میڈیا نے بھی اب اس پر توجہ دینا شروع کی ہے۔پی ایس ایل فائیو کو بھی اس وقت منسوخ کیا گیا جب برطانوی کھلاڑی نے برطانیہ پہنچ کر اپنی طبیعت کی خرابی کا بتایا‘ پھر پی سی بی کی دوڑیں لگیں۔ سیمی فائنل شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا اور تمام کھلاڑیوں اور منتظمین کے کورونا ٹیسٹ کیے گئے جو اللہ کے فضل سے تمام کے تمام‘ 164‘منفی آئے۔
پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں‘ صرف معمولی سی عقل کے استعمال کی ضرورت ہے‘ ہر شہر‘ ہر گاؤں میں تعلیمی ادارے‘ ہسپتال‘ سرکاری عمارتیں‘ ہوٹل گیسٹ ہاؤسزلاتعداد موجود ہیں‘ جن کو باآسانی قرنطینہ بنایا جاسکتا ہے۔ ان عمارتوں میں پانی‘ گیس ‘بجلی اورواش رومز جیسی بنیادی ضرورتوں کی دستیابی پہلے سے ہے‘ لیکن اس کے لیے منظم انداز میں ایک چھت تلے بیٹھ کر مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔جیل میں قید معمولی جرائم میں ملوث قیدیوں کو پیرول پر رہا کرکے ان سے رضاکاروں والا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ ہر شہر میں موجود ہے‘ لیکن ویژن اور سوچ کی ضرورت ہے‘ جس کا اب تک فقدان ہی فقدان ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی سیاسی پختگی واضح نظر آرہی ہے۔ بلاول بھٹو نے تو کہہ بھی دیا ہے کہ سیاسی الزام تراشی کا وقت نہیں ہے ‘بلکہ مل کر کام کرنے کا وقت ہے اور اس آفت کا مقابلہ کرنا ہے ۔سیاسی لڑائی کے لیے انتخابات میں مقابلہ کریں گے۔سندھ حکومت نے کم آمدنی والوں کے لیے مدد کرنے کا اعلان کیا ہے اور راشن پہنچانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کی تجویز دی ہے اور وفاقی حکومت سے معاشی پیکیج دینے کا مطالبہ بھی کردیا ہے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کیونکہ پوری دنیا میں معاشی پیکجز کے اعلان ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات بھی شروع ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ( ن) کا رویہ بدستور اب تک منفی نظر آرہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) بھی مثبت انداز میں آگے بڑھے‘ لیکن اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری وزیر اعظم عمران خان کی ہے کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے قومی ہم آہنگی پیدا کرنے اور ایک مربوط پالیسی بنانے کے لیے تمام صوبائی حکومتوں اور اپوزیشن سے رابطے کریں اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مشترکہ کوششوں کی راہ ہموار کریں۔ دوسری بڑی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت آگہی مہم شروع کرنے کے ساتھ ساتھ غریبوں کی مالی مدد اور معاونت بھی کریں‘ کیونکہ محض ووٹ لینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ مشکل گھڑی میں عوام کی مدد کرنا بھی سیاسی قیادتوں کی ذمہ داری ہے۔ پھر ان تمام پاکستانیوں کی بھی ذمہ داری ہے‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں میں سے لاکھوں کروڑوں اربوں اور کھربوں روپوں سے مالا مال کیا ہے ۔ اب وقت ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور زیادہ سے زیادہ اپنے کمزور ہموطنوں کی مدد کریں۔ اپنے ہمسایوں‘ اپنے ملازمین‘ مزدوروں اور اپنے مزارعین کی مدد کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات اور خرچ کرنے کی ہدایت کرتے ہیں اور اس کا اجر بھی اللہ تعالیٰ ضرور دیتے ہیں۔ ماضی میں ہم بحیثیت قوم شاندار رویے کا مظاہرہ کرچکے ہیں‘ اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں پاکستانی عوام نے مثالی کردار کا مظاہرہ کیا تھا۔چونکہ کورونا وائرس سے بچنے کا واحد حل جو پوری دنیا میں اس وقت عمل پذیر ہے وہ لاک ڈاؤن ہی ہے‘ لوگوں کی آمدورفت کو روکنا اور میل ملاپ میں کمی لانا ہے‘ کیونکہ اس وبائی مرض سے بچنے کا طریقہ علاج سے زیادہ احتیاط ہی ہے۔
اب تک کے اقدامات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں رابطوں اور ورکنگ ریلیشن شپ کا انتہا درجے کا فقدان موجود ہے‘ جس کے نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں اور اس کا الزام اور ذمہ داری بالآخر وزیر اعظم پر ہی عائد ہو گی۔ حکومتوں کی ذمہ داری اپنی جگہ‘ لیکن منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو شاید اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہونا یاد نہیں۔ ایسے وقت میں کہ جب خطرات بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ یہ منافع خور ذخیرہ اندوز اور جعلساز ہر خوف سے بے نیاز ہوکر فائدہ اٹھانے اور اپنے ہی بھائیوں کو لوٹنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ شاید ان کو یہ اندازہ نہیں کہ وہ قانون کی نظر سے تو بچ سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے ۔ یہ لوگ یاد رکھیں کہ وہ خود بھی اس وبائی مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔ 
مقبوضہ کشمیر میں کوئی آٹھ ماہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے‘ ان پر ظلم وستم کی بھی انتہا کردی گئی‘ یہاں تک کہ ان کی خبر دینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ مقبوضہ وادی سے کچھ پیغامات موصول ہوئے ہیں‘ گھروں میں محبوس اسی لاکھ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ ہماری آواز نہ تو اقوام عالم نے سنی اور نہ ہی مسلم اْمّہ کے مالدار حکمرانوں کے ضمیر جاگ سکے ‘بلکہ سب نے بھارت کو ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھا اور اسی لاکھ کشمیری قیدیوں اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے ہمیشہ ان حکمرانوں کو سوا ارب نفوس کی منڈی میں سرمایہ کاری اور تجارت ہی نظر آئی لیکن اللہ کی بے آواز لاٹھی جب دنیا پر کورونا وائرس کی صورت میں برسی تو اب پوری دنیا لاک ڈاؤن کی طرف جارہی ہے۔ ان کشمیریوں کا کہنا ہے کہ شاید ہماری تکالیف کا اندازہ اقوامِ عالم کو اب ہوسکے۔اس وقت بھی ان مظلوم کشمیریوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔مقبوضہ وادی میں کورونا وائرس بھارتی فوج میں بھی سرایت کرچکا ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پندرہ بھارتی فوجیوں میں اس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ بھارتی فوج کے افسروں نے سپاہیوں سے دور رہنا شروع کردیا ہے‘ جبکہ دہلی میں گائے کا پیشاب اور گوبر نایاب ہوچکا ہے اور بھارتی ہندو گائے کا پیشاب پانچ سو روپے لیٹر اور گوبر پانچ سو روپے کلو فروخت کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بھیانک عقیدے سے کوسوں دور رکھا ہواہے اور اگر ہم محض صاف ستھرا رہنا شروع کردیں تو اس وبا سے بچ سکتے ہیں ۔پاکستانیوں کو ایک قوم اور باکردار قوم بن کر مقابلہ کرنا ہے‘ ماضی کی ہر مشکل گھڑی میں ہم ایسا کرچکے ہیں اور اب بھی کرسکتے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں