NNC (space) message & send to 7575

منتخب کپتان کے غیر منتخب کھلاڑی

آج کے کالم کے سلسلے کووہیں سے جوڑتے ہیں جہاں پر گزشتہ کالم اختتام پذیر ہوا تھا۔سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بنچ کورونا کے سلسلے میں لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کررہا ہے‘ پہلی سماعت پر معزز عدالت نے بعض اہم سوالات اٹھائے تھے‘ 14اپریل کے کالم میں ہم نے جن کاتفصیل سے ذکر کیا تھا اور عرض کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے سوالات کا تعلق گورننس ‘ طرزِ حکومت اور مجموعی حکومتی مزاج سے ہے۔غیر منتخب لوگوں کے ذریعے حکومت چلانے کی صدا سپریم کورٹ تک پہنچ چکی ہے‘ اگر سپریم کورٹ نے ان سب لوگوں کی شہریت کے بارے میں ریکارڈ طلب کرلیا تو پھر سوچیے کیا ہوگا؟کیونکہ سو ؤموٹو نوٹس سے پہلے ایک لارجر بنچ تشکیل کیے جانے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملہ آئینی اور اہم نوعیت کا ہے کیونکہ آئین سب سے بالاتر ہے اور آئین میں طرزِ حکومت اور طرزِ سیاست سمیت تمام امور واضح ہیں‘ کیونکہ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ اور ارکانِ پارلیمنٹ ہی بنیادی کردار ہوتے ہیں‘ لیکن اس وقت نظام عملاً پارلیمانی نہیں ہے بلکہ کابینہ میں ایک بہت بڑی تعداد معاونین خصوصی کی ہے‘ ان کو وزرا کا درجہ دیا گیا ہے اور وہی کابینہ میں بااثر ہیں‘ جبکہ منتخب ارکان کابینہ میں اپنے آپ کو غیر مؤثر سمجھتے ہیں۔اور اگر ایسے غیر منتخب ارکان کی شہریت بھی پاکستان کی نہ ہو اور انہیں اہم ترین ذمہ داریاں سونپ دی جائیں اور پارلیمان بھی ربڑ سٹمپ بنادی جائے تو پھر صحیح راستہ دکھانے کیلئے آئینی اداروں ہی کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔اور تمام معاملات میں آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو ہی حاصل ہے۔
گزشتہ روز بالآخر وزیر اعظم کے مشیروں اور معاونینِ خصوصی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائرکردی گئی۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی وزیر کے مساوی اختیارات اور عہدے کے حامل پانچ مشیروں اور 14 غیر منتخب معاونینِ خصوصی کی تقرریاں غیر آئینی قرار دی جائیں۔آئینی درخواست ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے دائر کی ہے اوردرخواست میں وزیر اعظم کے مشیر ملک امین اسلم خان ‘عبدالرزاق داؤد ‘ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ‘ ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر ظہیرالدین بابر اعوان کو فریق بنایا گیاہے۔ مزید یہ کہ وزیراعظم کے معاونینِ خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر‘مرزا شہزاد اکبر‘ فردوس عاشق اعوان‘ سید ذوالفقارالمعروف ذلفی بخاری‘ ڈاکٹر ظفر مرزا‘علی نواز اعوان‘عثمان ڈار‘ندیم افضل گوندل‘ سردار یار محمد رند‘ ندیم بابر اورمعید یوسف سمیت 14 معاونینِ خصوصی کوبھی فریق بنایا گیاہے۔ درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مشیروں اور وزراء کی تقرریاں اور انہیں وفاقی وزیر کے برابر اختیار دینا خلافِ آئین ہے اور یہ کہ1973ء کے رولز آف بزنس کا رول4(6)غیر آئینی قرار دیا جائے۔مشیروں اور معاونین خصوصی کی جانب سے استعمال کیے گئے انتظامی اختیارات کو غیرآئینی قرار دیا جائے‘مشیروں اور معاونینِ خصوصی کی ساری تنخواہیں اور مراعات واپس لی جائیں۔آئینی درخواست میں وزیراعظم کے اختیار پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے کہ وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ غیر منتخب افراد کو وفاقی وزراکے درجے پر تعینات کریں‘نیزیہ کہ مشیروں اور معاونینِ خصوصی کو وفاقی وزراکے برابر تنخواہیں حاصل کرنے کا اختیار بھی نہیں۔استدعا کی گئی ہے کہ مشیروں اور معاونینِ خصوصی کو ادا کی گئی تنخواہیں اور مراعات واپس کرنے کا حکم دیا جائے اور مشیروں اور معاونین کو وفاقی وزیر کے برابر اختیار دینا بھی خلافِ آئین قرار دیا جائے۔
اس آئینی درخواست میں کْچھ نکات جو معاونین خصوصی کے بارے میں اٹھائے گئے ہیں واقعی اہمیت اور توجہ کے حامل ہیں۔ بلا شبہ وزیراعظم کو تقرری کا اختیار تو ہے لیکن ان کی تعداد اور مراعات کیا ہوں گی اور معاونین کو وفاقی وزرا کا درجہ دینے کا اختیار لامحدود ہے یا پھر کْچھ ضابطوں کا متقاضی ؟علاوہ ازیں یہ دیکھنا ہو گا کہ دہری شہریت کے حامل شہریوں کو الیکشن لڑنے اور پارٹی عہدوں پر براجمان ہونے کا حق نہیں تو کیا ایسے افراد کو چور دروازے سے ایوانِ اقتدار اور فیصلہ ساز اور پالیسی ساز اداروں میں سرکاری درجے اور مراعات کے ساتھ رسائی دی جاسکتی ہے؟ماضی میں سپریم کورٹ ایسے افراد کو نااہل قرار دے چکی ہے‘ نواز شریف دور میں شجاعت عظیم کو عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ذلفی بخاری کے مقدمے میں بھی سپریم کورٹ میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ دہری شہریت کے حامل ذلفی بخاری کو کابینہ کے اجلاسوں میں شریک نہیں کیا جاتا‘ لیکن یہ بات عملًا درست نہیں ہے اور تمام غیر منتخب معاونینِ خصوصی اہم وزارتیں چلا رہے ہیں اور کابینہ کے اجلاس بھی تواتر سے اٹینڈ کررہے ہیں۔البتہ آئین کے تحت وزیراعظم کو پانچ مشیر رکھنے کا کُلی اختیار ہے‘ ان مشیروں کو وفاقی وزیر کے برابر درجہ بھی حاصل ہوتا ہے اور یہ پانچوں مشیر پارلیمان کے اجلاسوں میں شرکت‘ وہاں حکومت کی نمائندگی کرنے اور پارلیمان کی کارروائی میں محدود سطح پر حصہ لینے کا استحقاق بھی رکھتے ہیں ‘لیکن معاونین ِخصوصی پارلیمان میں جانے کے اہل نہیں ہوتے اور انہیں بالعموم وزیرمملکت کا درجہ دیا جاتا ہے۔
ماضی کے برعکس موجودہ حکومت میں معاونینِ خصوصی کی تعداد کْچھ زیادہ ہی ہے اور کابینہ میں غیر منتخب مشیروں اور معاونین کا پلڑا بھاری ہے اور اہم ترین وزارتیں یہی افراد چلا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان چونکہ مغربی جمہوریت اور طرزِ سیاست کو آئیڈیلائز کرتے ہیں ‘ خاص طور پر وہ امریکی صدر کی مثال دیتے ہیں کہ امریکہ کا صدر جب منتخب ہوتا ہے تو وہ امورِ مملکت چلانے کیلئے اپنے لیے ایک بڑی ٹیم کا انتخاب کرتا ہے جو کہ غیر منتخب افراد پرمشتمل ہوتی ہے اور ان کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہوتی ہے‘لہٰذا وزیراعظم عمران خان بھی اسی سوچ کے ساتھ امورِ مملکت اسی انداز میں چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔تاہم وزیراعظم کے قریبی رفقا بلاواسطہ اور بالواسطہ متعدد بار ان کی توجہ اس جانب دلا چکے ہیں کہ جناب وزیراعظم آپ کا الیکٹورل کالج قومی اسمبلی ہے جو کہ عوام سے براہ راست عوام کے ذ ریعے منتخب ارکان پر مشتمل ہے‘ آپ کو انہیں فوقیت دینی چاہیے‘ لیکن وزیراعظم ایسی باتوں کو سْنی اَن سْنی کردیتے ہیں۔ وزیراعظم اپنے اس عمل سے اپنے الیکٹورل کالج یعنی ارکانِ قومی اسمبلی سے کافی دور ہوچکے ہیں‘کیونکہ یہ ارکان جب باہم ملتے ہیں اور دل کے دکھڑے ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں تو ان کا موضوع یہی ہوتا ہے کہ ان میں ایسا کیا نہیں ہے جس کی بنا پروزیرعظم غیر منتخب لوگوں کو ان پر فوقیت دے رہے ہیں۔ یہ آئینی درخواست ایسے وقت میں اور بھی زیادہ اہم سمجھی جارہی ہے جب وزیراعظم پارٹی کے اہم ترین عہدیدار جہانگیر ترین کے خلاف بھی ایکشن لے چکے ہیں اور اس معاملے میں مزید آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین کا ایک مؤثر دھڑا بہرحال قومی اور پنجاب اسمبلی میں موجود ہے اور وفاق اور پنجاب کابینہ میں اہم وزارتوں پر براجمان ہے‘ یہ دھڑا ناخوش بھی ہے۔یہ دھڑا گو کہ ابھی بول نہیں رہا لیکن جونہی وزیر اعظم کو کمزور ہوتا اور مقتدر حلقوں کو نیوٹرل ہوتا دیکھیں گے توسب عناصر بیک وقت آواز اٹھائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان صاحب کو چند ماہ سے ان سب باتوں کا نہ سہی لیکن کْچھ باتوں کا مکمل ادراک ہوچکا ہے‘ اسی لیے اب وہ ہر وہ قدم اٹھا رہے ہیں جس سے ان کا عوامی بیانیہ غالب آئے۔چینی‘ آٹا‘ گندم کارٹل کے بعد نجی بجلی گھروں کے کارٹل پر ہاتھ ڈالنے ‘اور چوبیس ہزار ارب روپوں کے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے تحقیقات ان کی ترجیحات ہیں۔ہم بھی دیکھ رہے ہیں آپ بھی دیکھئے ‘کہ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں