کورونا کی وجہ سے ملکی سیاست میں بظاہر ایک ٹھہراؤ سا آگیاہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی طرح ہمارے ہاں بھی میڈیا کی تمام تر توجہ اسی وبائی مرض کے بارے میں آگہی مہم پر مرکوز رہی اور اب بھی ہے تاکہ ہم کورونا کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اپوزیشن نے بھی کورونا پر سیاست کرنے کی کوشش کی‘ لیکن کْلی طور پر اس رویے کو پزیرائی نہ مل سکی کیونکہ کورونا سے بچنے کیلئے تمام ریاستی ادارے یک جان ہو کر شب وروز کام کررہے ہیں اور کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس نازک صورتحال میں کوئی منفی سیاست کی جائے‘ لیکن اب صورتحال مختلف ہے اور سیاست کے بازار میں تیزی آچْکی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی اور این ایف سی ایوارڈ کیلئے دسویں نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل ہوچکی ہے اور یہ تشکیل عدالتوں میں چیلنج بھی ہوچکی ہے۔کورونا کے ابتدائی دنوں میں سیاسی عدم استحکام اور سیاسی تبدیلیوں کی خبریں سوشل میڈیا کی زینت بنیں لیکن وہ خبریں محض پراپیگنڈے سے آگے نہ بڑھ سکیں اور میاں شہباز شریف جو اپنے آپ کو وزیراعظم کے طور پر پیش کررہے تھے‘ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی اور یہ ہوا بھی کسی غیر نے نہیں بلکہ ان کے اپنوں ہی نے نکالی ہے اور ایک اچھا بھلا سیاسی چراغ گھر والوں ہی نے بْجھا دیا ہے۔ منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس میں وہ اتنے بْرے پھنس چکے ہیں کہ کوئی معجزہ ہی ان کو بچا سکتاہے ۔ویسے اس نوعیت کے معجزوں کا امکان ہمارے ہاں ہر وقت رہتا ہے‘ تاہم نیب کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس بھاری بھرکم اور ناقابلِ تردید شواہد اور منی ٹریل کے دستاویزی ثبوت‘ بینک اکاؤنٹس ‘گواہوں کے بیانات اور وعدہ معاف گواہان ایسے تمام اجزا ئے ترکیبی موجود ہیں کہ اگر ان کو عدالتی نظام کی بھٹی میں ڈالا جائے تو نتائج کا اخذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے‘ لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ ہمارے ہاں ایک متوازی نظام بھی موجود ہے جہاں پر بالا بالا معاملات کو سلجھائے جانے کا عمل جاری رہتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی سمیت مسلم لیگ ن کے اکثر لوگ دوبارہ نیب کے ریڈار پر آچکے ہیں اور اس وقت نیب'' حالتِ امن‘‘ کی کیفیت سے نکل کر ''حالت ِجنگ‘‘ والی کیفیت میں کام کررہی ہے اور دو وفاقی وزرا کے بارے میں بھی چھان بین کا آغاز کرچکی ہے ‘جبکہ متاثرہ وزرا بھی خم ٹھونک کر میدان میں آچکے ہیں۔ وفاقی وزرا غلام سرور خان اور فواد چوہدری نے وزیراعظم کے غیر منتخب معاونین خصوصی اور غیر منتخب وفاقی مشیروں کے اثاثے اور ان کے خاندانوں کے اثاثے ظاہر کرنے اور کابینہ میں شامل دہری شہریت کے حامل ارکان کو منظر عام پر لانے کے مطالبات کردیے ہیں ۔ وزیراعظم نے ان مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کرتے ہوئے کابینہ میں شامل تمام غیر منتخب ارکان کو اثاثے ظاہر کرنے کی ہدایت کی ہے اور کیبنٹ سیکرٹری کو اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے بھی متحرک ہے اور شوگرسکینڈل کی دوسری رپورٹ پبلک کرنے کی منظوری بھی کابینہ نے دے دی ہے‘ جس میں کسی بڑے اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں اور اپنے اہم ترین اتحادی پاکستان مسلم لیگ ق سے بھی کوئی رعایت نہیں کی۔ اس رپورٹ میں شوگر ملز کے مالکان سے ریکوری کرنے اور مقدمات درج کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ مسابقتی کمیشن اور دیگر سرکاری اداروں کے حکام کو بھی معاونت فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ایف آئی اے کی پہلی رپورٹ کو رکوانے کیلئے بھی در پردہ ہر طرح سے کوشش کی گئی اور دوسری رپورٹ کو بھی التوا میں ڈالنے کے جتن کیے گئے ‘لیکن وزیراعظم عمران خان اور کابینہ میں شامل پی ٹی آئی کے خالص وزرا کا پلڑابھاری رہا اور معاملات آگے بڑھتے گئے۔ تحقیقاتی کمیشن نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر ‘وفاقی مشیر رزاق داؤد اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو طلب کیا اور بیانات ریکارڈ کیے گئے‘ البتہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کایاں نکلے اور وہ اس کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے کیونکہ زرداری صاحب کے قانونی ماہرین نے انہیں تحقیقاتی کمیشن کے قریب بھی نہ پھٹکنے کا مشورہ دیا تھا۔
تحقیقاتی رپورٹ چینی کے کاروبار خاص طور پر شوگر انڈسٹری کیلئے ایک نیا موڑ ثابت ہوگی ‘کیونکہ حکومت اس رپورٹ کی روشنی میں جامع کاٹن پالیسی مرتب کررہی ہے ‘جس کا مقصد ملک میں کپاس کی کاشت کو بڑھانا اورگنے کی کاشت کو کم کرنا ہے‘ کیونکہ شوگر انڈسڑی مسلسل سبسڈی پر چل رہی ہے اور قومی خزانے سے اربوں روپے سالانہ دے کر شوگر مل مالکان کو چلایا جاتا ہے‘ جبکہ کپاس ایک ایسی نقد آور فصل ہے کہ جس کا فائدہ نہ صرف کسان کو ہوتا ہے بلکہ ہماری کپاس کا ریشہ عالمی معیار کا ہے اور کپاس اور اس سے جڑی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے بھاری بھرکم زرمبادلہ بھی حاصل کیاجاسکتاہے جو کہ اربوں ڈالر میں جاتا ہے۔اس لیے یہ تحقیقاتی رپورٹ شوگر سکینڈل سے شروع ہوتی ہے اور اس کے اختتام کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی اور اس کی زد میں کْچھ حکومتی شخصیات بھی آسکتی ہیں جو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہیں۔اتفاق کی بات ہے کہ شوگر سکینڈ ل کی پہلی رپورٹ آنے سے دوروز قبل میری وزیراعظم عمران خان سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا تھا کہ رپورٹ آچکی ہے اور اس رپورٹ کو رکوانے کیلئے جو کوششیں کی جارہی تھیں اور جس انداز سے حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی دھمکیاں بالواسطہ دی جارہی تھیں ان کا ذکر انہوں نے اپنے انداز میں کیا تھا‘لیکن اْس وقت بھی ان کے ارادے متزلزل نہیں تھے اور وزیراعظم احتساب کے نعرے کو ہر صورت عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے اور پھر ایسا ہی ہوا اور رپورٹ پبلک کردی گئی۔اور یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ دوسری رپورٹ کے پبلک ہونے سے دوروز پہلے‘ یعنی آج سے تین روز قبل پھر وزیراعظم عمران خان نے یاد فرمایا تو وہ اس رپورٹ کو بھی پبلک کرنے کے بارے میں بالکل کلیئر تھے کہ وہ کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے اور وہ سیاسی نقصان کے نتائج سے بے پروا ہوکر اپنا کام جاری رکھیں گے۔ مذکورہ رپورٹ وزیراعظم کے پاس پہنچ چکی تھی‘ لیکن اس رپورٹ کو بھی عید کے بعد تک التوا میں ڈالنے کی کوششیں کی گئیں‘ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
سب سے سنجیدہ بات یہ ہے کہ انڈیا ایک بار پھر پلوامہ جیسے ایک خودساختہ واقعہ کو بنیاد بنا کر بالاکوٹ جیسی کارروائی کرنا چاہتا ہے۔ بھارتی منصوبے کی تصدیق ہر طرح کے انٹیلی جنس ذرائع سے ہوچکی ہے اور دوست ملک بھی اس بارے میں معلومات شیئر کرچکے ہیں۔ پاکستان ان خدشات اور بھارتی مذموم عزائم کے بارے میں امریکہ سمیت دوست ممالک کو بتا چکا ہے اور یہ بھی فیصلہ ہوچکا ہے کہ انڈیا کو شاید اس بار ایسا نہ کرنے دیا جائے اور اگر پھر بھی ایسا ہوگیا تو اس کا جواب گزشتہ برس 27 فروری سے کہیں زیادہ سخت دیا جائے گا۔ بظاہر مسلح افواج متحرک نہیں ہیں‘ لیکن درحقیقت تمام کی تمام مسلح افواج زمانۂ امن کی کیفیت میں ہرگز نہیں ہیں بلکہ دشمن کے خلاف اس کی سوچ سے بڑھ کر بھرپور جوابی کارروائی کیلئے تیار ملیں گی اور اس بار ابھی نندن کو چائے بھی نہیں ملے گی ۔بھارت مانے یا نہ مانے دنیا تسلیم کرچکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات ریاستی دہشت گردی کے باوجود مودی کے قابو میں ہرگز نہیں ہیں اورشہیدوں کے خون کی تازہ فصل اس سے سنبھالی نہیں جارہی۔