کورونا حکومت کے لیے ایک نئی لائف لائن لے کر آیا اور بہت سے معاملات اور متوقع اقدامات کو کورونا نے روک دیا‘ بلکہ یوں کہیے کہ کورونا حکومت کے لیے ایک ڈھال ثابت ہوا اور بہت سی کوتاہیوں‘ خامیوں اور مقتدر حلقوں کی کارکردگی سے مایوسیوں کو کورونا نے چھپا لیا۔ اگرکورونا حملہ آور نہ ہوتا تو اپوزیشن حکومت پر اب تک پوری شدومد اور قوت کے ساتھ حملہ آور ہوچکی ہوتی اور سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی‘ البتہ ایسی کوششوں کے بارآور ہونے یا نہ ہونے کا انحصار اپوزیشن کی سرگرمیوں کی شدت اور حدت پر ہونا تھا اور وزیر اعظم کا ردعمل بھی اس ضمن میں اہم ہونا تھا ‘تاہم کورونا سے حاصل شدہ لائف لائن سے اب تک حکومت کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکی اور کورونا کو روکنے کے بارے اٹھائے گئے اقدامات بھی درست ثابت نہیں ہوئے۔ اگر حکومت موجودہ صورتحال میں سوچ سمجھ کر فہم وفراست پر مبنی فیصلے کرتی اور اس بحران سے ملک کو نکال لیتی تو وہ بلا شبہ ایک ہیرو کے طور پر سامنے آتی اور اپنا ووٹ بینک بھی بڑھا پاتی لیکن لائف لائن سے فائدہ اٹھانے کے بجائے حکومت کے کپتان مختلف الخیال سوچوں میں الجھ گئے اور اجتماعی دانش سے مستفید ہونے کے برعکس ذاتی سوچ اور انفرادی فیصلوں کا شکار ہوگئے‘ جس کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔
بلاشبہ وفاقی حکومت نے آٹھ ارب ڈالر مستحق لوگوں میں تقسیم کیے لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوسکا اور لاک ڈاؤن کے عالمگیر اصول اور تجربے کو بروئے کارلانے کے بجائے انفرادی دانش کو برتر سمجھا گیا جو کہ غلط ثابت ہوئے کیونکہ کوروناکے بارے میں جیسا کہ ابتدا میں اندازے لگائے جارہے تھے کہ اس کی شدت سے پاکستانی عوام محفوظ رہیں گے‘ سو فیصد غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ اب کورونا کے حملے سے شاید ہی کوئی ادارہ ہو جو بچا ہو ۔ارکان ِپارلیمنٹ‘ وفاقی و صوبائی وزرا ‘میڈیا ہاؤسز‘ ایوان ِعدل و انصاف ‘وزیراعظم ہاؤس‘ نیب‘ سرکاری دفاتر‘شوبز کی دنیا گویا پورا ملک اس وقت کورونا کی لپیٹ میں ہے اورمتعدد نامور لوگ اس وبائی مرض کا شکار ہوکر خالقِ حقیقی سے جاملے ہیں۔ سب سے زیادہ ہمارے ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز ہیں جو اس دشمن کے ساتھ نبرد آزما ہیں اور اپنے اہلِ وطن کو بچاتے بچاتے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں‘ مگر افسوس ہے کہ حکومت نے ابھی تک میدانِ جنگ میں لڑکر شہید ہونے والوں کے لیے کسی خصوصی پیکیج کا اعلان نہیں کیا جیسا کہ سکیورٹی فورسز کے لیے کیا جاتا ہے۔ اب تک کورونا کے بارے میں زمینی حقائق ان اعلانات کے بالکل برعکس ہیں جو تصویر حکومتی ترجمان پیش کررہے ہیں۔ کورونا بے قابو ہوچکا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ بیس فیصد پازیٹو کیس سامنے آرہے ہیں یعنی ایک لاکھ شہریوں کے ٹیسٹ کیے جائیں تو اس میں کورونا کے بیس ہزار مریض سامنے آرہے ہیں۔ ان خوفناک نمبروں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بائیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں اگر وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ کی جائے تو کورونا کے متاثرین کی تعدا کیا ہوسکتی ہے۔ ہمارے سرکاری ہسپتال جواب دے چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز جو اندازے لگا رہے تھے اور بتارہے تھے وہ سچ ثابت ہورہے ہیں‘ جبکہ بند کمروں میں بیٹھے اورسرکاری بابوؤں کے اعدادوشمار پر انحصار کرنے والے تمام اندازے غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر اور کوا چلا ہنس کی چال‘ اپنی بھی بھول گیا کے مصداق اب کولیٹرل ڈیمیج کو روکنے کے لیے پھر ریورس گئیر لگانے کا سوچا جارہا ہے‘ لیکن اس کے لیے ہمت چاہئے کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے آگے بڑھا جائے۔ لیکن ایسا ہونا مشکل نظر آرہا ہے ۔
یقیناً حکومت کو صورتحال کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہے اور وزیراعظم کو بتانے والے ذرائع بہت زیادہ ہیں جو ان کو متنبہ کرچکے ہیں کہ کورونا کی بدترین صورتحال حکومت کی مقبولیت میں مسلسل کمی لارہی ہے اور اگر تباہی ہوئی تو پھر کوئی طاقت بھی ان کی حکومت بچا نہیں سکے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے خالص وزیروں اور ترجمانوں نے ایک بار پھر احتساب کے بیانیے کو زور‘ شور سے بیان کرنا شروع کردیا ہے ۔چینی سکینڈل ‘آٹا‘ گندم سکینڈل‘ بجلی گھر سکینڈل‘ پٹرول سکینڈل‘ قرضہ سکینڈل‘ گو کہ کرپشن کے تمام میگا سکینڈلز کو ایک بار پھر مارکیٹ کیا جارہا ہے اور اینٹی کرپشن بیانیے کو ملک کے طول وعرض میں پھیلایا جارہا ہے یہ ایک اچھی کمیونی کیشن سٹریٹجی ہوسکتی ہے‘ لیکن ایسی حکمت عملی دیرپا نہیں ہوتی۔ اس بیانیے سے اپنی جماعت کے کارکن تو متاثر ہوسکتے ہیں‘ لیکن ایسے اقدامات ‘ اعلانات اوربیانیے‘ اجتماعی شعور اور اجتماعی ووٹ بینک کو آپ کا ہمنوا نہیں بنا سکتے‘ کیونکہ ناکام کھلاڑی کی ذمہ داری کپتان کبھی بھی نہیں لیتا اور ناکام کپتان کی ذمہ داری بھی کبھی کسی کرکٹ بورڈ یا سلیکٹرز نے نہیں اٹھائی ‘بلکہ ناکامی کی صورت میں بتایا جاتا ہے کہ پورا موقع دیا گیا ‘اچھی ٹیم دی گئی‘ اچھا کوچ دیاگیا اور کوئی مداخلت نہیں کی گئی‘ لیکن میدان میں کارکردگی دکھانا تو ٹیم کا کام تھا۔اچھا کپتان اور اچھا کھلاڑی ہمیشہ اپنی کارکردگی پر توجہ دیتا ہے اور اور بہتر سے بہتر کھیل پیش کرتا ہے اور کھلاڑیوں کو بھی اعتماد دیتا ہے‘ ایسا نہ کرنے والے کپتان اور کھلاڑی کبھی بھی بچ نہیں پاتے۔ جبکہ ایسے کپتان اورکھلاڑی بھی ہوتے ہیں جو اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے سارا ملبہ مخالفین پر ڈالتے رہتے ہیں لیکن‘ ایسے بیانیے کو مستقل پذیرائی نہیں ملتی۔
دوسرا بجٹ آنے کو ہے ‘ملکی معیشت بدستور دگرگوں ہے ‘وجہ کوئی بھی ہو لیکن سارا ملبہ حکومت پر ہی گرتا ہے۔ احتساب کا نعرہ دوبارہ استعمال نہیں ہوسکے گا نہ اس کا فائدہ ہوگا بلکہ کارکردگی دکھاناہوگی ورنہ نتائج مختلف نہیں ہوں گے ۔ سیاسی طور پر متحرک حکومتی اور اپوزیشن رہنما شاہد خاقان عباسی اور شیخ رشید بھی قورنطین ہوچکے ہیں۔ بجٹ اجلاس بلائے جاچکے ہیں کیونکہ امورِ مملکت بھی چلانا ہیں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیاسی درجہ حرارت بدستور بڑھتا جارہا ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات اور خاص طور پر لاک ڈاؤن کے خلاف وزیراعظم کا نقطۂ نظر بھی کوئی پذیرائی حاصل نہیں کرسکا۔ سمجھدار لوگوں کا کہنا ہے کہ آئندہ تین ماہ خان صاحب کی حکومت کے لیے اہم ہیں‘ اگر خان صاحب نے اب بھی ڈیلیور نہ کیا تو پھر معاملات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں اور متبادل اقدامات پر سنجیدگی سے سوچا جاسکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنے ترجمانوں پر انحصار کرتے ہیں یا پھر کورونا لائف لائن کو غنیمت سمجھتے ہوئے بھرپور کم بیک کرتے ہیں؟
اس دوران ایک اور پراسرار' الزامی وائرس‘ بھی حملہ کرچکا ہے جس کا ابتدائی حملہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ و سابق قیادت پر ہواہے لیکن اس وائرس کا حملہ کثیرالجہتی ہوگا اور اس کی زد میں میں کم و بیش تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی اشرافیہ آسکتی ہے اور یہ صرف سیاسی اشرافیہ تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس میں روشن خیال اہل دانش بھی آسکتے ہیں۔مذکورہ الزامات عائد کرنے والے کردار نے ایک ٹویٹ ڈیلیٹ کی ہے جو کہ محفوظ ہوچکی ہے ‘اس لیے اس کی لپیٹ میں بڑے بڑے آسکتے ہیں‘ کس کو بچانا ہے اور کس پر حملہ آور ہونا ہے اس کا فیصلہ کورونا کی طرح اس نے خود کرنا ہے‘ کیونکہ اسے معلوم بھی ہے اور اینٹی باڈیز کا ریکارڈ بھی اس کے پاس محفوظ ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔