"SAC" (space) message & send to 7575

مسلم لیگ (ن) کی انتخابی حکمتِ عملی

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف بڑے قومی رہنما ہیں۔ ان کا اتحادی سیاست کی جانب رجحان کم ہوا ہے۔ ماضی میں جو سیاستدان ان کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے اب ان سے دور چلے گئے ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد اور اے پی ڈی ایم کی بیشتر جماعتیں ان کے مخالف کیمپ میں کھڑی ہیں۔ اب ہمارے ہاں مخلوط حکومتیں قائم کرنے کا رواج عام ہو رہا ہے‘ جو سیاسی جماعت زیادہ لچک دکھاتی اور دوسری کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ میاں نوازشریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو ان کا سیاسی فکر و فلسفہ اختیارات کی مرکزیت کے گرد گھومتا ہے۔ میاں نوازشریف کی سیاست میں ایک اہم فیکٹر بھٹو مخالف قوتوں کی قیادت کا تھااور جسے ہر سطح پر تسلیم بھی کیا گیا لیکن وہ اپنے طرزِ عمل کے باعث دائیں بازو یا بھٹو مخالف قوتوں کی قیادت سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملکی سیاست میں میاں نوازشریف کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول وہ آنے والے انتخابات میں حکومت بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر سیاسی کھلاڑیوں کا رخ ان کی طرف ہو گیا ہے۔ اس وقت سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا مسلم لیگ (ن) کو ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو ٹکٹوں کی تقسیم پر کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف امیدواروں اور اعلیٰ قیادت کے درمیان تنائو کی کیفیت ہے اور دوسری جانب ہم خیال سیاستدانوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر بھی اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ سیاسی قیادتوں کی فہم و فراست کا امتحان ہوتا ہے۔ بعض اوقات بڑی جماعتوں کو چھوٹی جماعتوں کی اہمیت کے پیش نظر ان کے لیے اپنے اندر قبولیت پیدا کرنا ہوتی ہے۔ الیکشن 2013ء کے لیے بڑے سیاسی اتحاد قائم نہیں ہوئے بلکہ مختلف جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر توجہ دے رہی ہیں۔ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ فنکشنل‘ جے یو آئی‘ مسلم لیگ ہم خیال‘ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کا فارورڈ بلاک‘ سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں سبھی مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خواہش مند نظر آتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں کیونکہ یہ احساس بہت مضبوط ہے کہ وہ انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے حکومت بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے اس لیے وہ ان تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے پر تو ضرور تیار ہے لیکن اپنی شرائط پر۔ مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ یہ جماعتیں اپنی حیثیت سے بڑھ کر نشستوں کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ دوسری طرف علاقائی اور مذہبی جماعتوں میں یہ احساس موجود ہے کہ بڑی جماعتیں انہیں ’’بطور ہتھیار‘‘ استعمال کرتی ہیں اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بڑی جماعتوں سے زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کریں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ جماعت اسلامی کا معاملہ مسلم لیگ (ن) سے طے ہو جائے گا۔ کچھ دن قبل مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے اہم رہنمائوں میں کافی معاملات پر اتفاق رائے بھی ہو گیا تھا لیکن اب تازہ اطلاع یہ ہے کہ نوازشریف جماعت اسلامی کو قومی اسمبلی کی چار سے زیادہ نشستیں دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی کی مسلم لیگ (ن) کی قربت کی وجہ سے وہ تحریکِ انصاف سے دور چلی گئی ہے۔ مسلم لیگ ہم خیال کو میاں نوازشریف نے ایک تحریری معاہدے کے تحت کچھ نشستیں ایڈجسٹمنٹ کے نام پر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب وہ اس معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہے جس کے باعث ہم خیال کی قیادت اِدھر کی رہی نہ اُدھر کی۔ تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ وہ اب مسلم لیگ جونیجو کو بحال کر کے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ مسلم لیگ (ق) کا وہ فارورڈ بلاک جس نے برے وقتوں میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا تھا‘ وہ بھی ٹکٹوں کے حصول پر پریشان نظر آتے ہیں۔ جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا اور جے یو آئی کے بقول نوازشریف معاملات میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ سندھ میں نوازشریف نے مسلم لیگ فنکشنل اور قوم پرستوں کے ساتھ اچھا اتحاد قائم کیا ہے۔ سندھ کی سیاست میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں یہ اچھی حکمت عملی ہے لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ پر فنکشنل لیگ‘ قوم پرست جماعتوں اور نوازشریف کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر یہ معاملہ اگلے دو تین دنوں میں حل نہ ہوا تو مسلم لیگ فنکشنل بھی اپنا آزاد فیصلہ کر سکتی ہے۔ بلوچستان میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) کو فوری طور پر کوئی بحران درپیش نہیں لیکن وہاں بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ یہ پورا منظرنامہ ظاہر کرتا ہے کہ نوازشریف آنے والے انتخابات میں سولو فلائٹ کے خواہش مند ہیں۔ اگر وہ کسی کے ساتھ کچھ ایڈجسٹمنٹ کرتے بھی ہیں تو یہ نمائشی عمل سے زیادہ نہیں ہوگا۔ ان کے مقابلے میں صدر زرداری اور چودھری برادران نے اپنے اندر زیادہ سیاسی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو قبول کرنے کے لیے امکانات کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ اس لیے اگر مسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی‘ جے یو آئی فنکشنل لیگ‘ ہم خیال اور قوم پرستوں کو مطمئن نہ کر سکی تو اس کا نقصان ان جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف کو بھی ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں