"SAC" (space) message & send to 7575

بلوچستان کا انتخابی عمل

کیا پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی منصفانہ، شفاف اور پرامن انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے گا؟یہ ایک بنیادی نوعیت کا سوال ہے اور اس کا تعلق محض بلوچستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ یہ ایک قومی سوال کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔ بلوچستان کے بارے میں تواتر کے ساتھ یہ کہا جارہا ہے کہ وہاں منصفانہ اورشفاف انتخابات کا انعقاد تو کجا پُرامن ماحول بھی ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے ، اس لیے بنیادی طور پر بلوچستان کے معاملات اور وہاں کے لوگوں کی ریاست ،مرکز اور پنجاب سے ناراضگی کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ انتخابات میں قوم پرستوں سمیت سب جماعتوں کی شمولیت اور مضبوط حکومت کے قیام کے لیے پانچ بنیادی پہلو اہم ہیں۔ جن میں اول بلوچستان کا مجموعی امن و امان ،دہشت گردی کی صورتحال اور ایجنسیوں کا کردار، دوئم بلوچستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی انتخابات میں شرکت اور جمہوری و انتخابی نظام پر اعتماد، سوئم انتخابات میں شرکت نہ کرنے والے قوم پرستوںاور فرقہ پرست جماعتوں کی حکمت عملیاں، چہارم منصفانہ اور شفاف انتخابات میں مرضی کی قیادت کا انتخاب،پنجم بلوچستان میں بیرونی مداخلتوں کے خلاف موثر حکمت عملی شامل ہیں ۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیرز)پائنا (ایک اہم تھنک ٹینک ہے جو قومی اور علاقائی معاملات پر اپنے تجزیے کے ساتھ کچھ عملی اقدامات تجویز کرتا ہے ۔پچھلے دنوں پائنا نے الطاف حسین قریشی کی قیادت میںچند اہل دانش، سیاسی تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کے ساتھ بلوچستان کا مختصر دورہ کیا۔وفد میں مجیب الرحمن شامی، سجاد میر، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، رئوف طاہر، اکرم حبیب، قیوم نظامی ، محمد طاہر، کامران الطاف،رحمت علی مجاہد اور راقم سمیت مختلف لوگ شامل تھے۔ اس دورے کا اہم مقصدانتخابات سے قبل تمام سیاسی، سماجی اور انتظامی فریقوں کے موقف کو سمجھ کر مجموعی طور پر صوبہ میں انتخابی عمل کا جائزہ لینا تھا۔ اس دورے میں ہمیں بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی، چیف سیکرٹری بابر یعقوب، آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید اللہ خان ،جی او سی میجر جنرل مظہر سلیم، سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی،صوبائی الیکشن کمشنر، مختلف قومی اور قوم پرست جماعتوں کے اہم رہنمائوں اورصحافیوں کے وفد نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان کی مجموعی صورتحال کافی پیچیدہ ہے اور اس پر سب کے نقطہ نظر کا ایک ہونا مشکل امر ہے ۔یہ کیفیت اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ کئی دہائیوں پر مبنی ہماری پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج بلوچستان دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ پس ماندہ اور سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے ۔پھر گزشتہ چند برسوں میں لاپتہ افراد، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان،دہشت گردی، فرقہ ورانہ اور قبائلی فسادات نے صوبے کا نقشہ ہی بدل ڈالا ہے ۔ پاکستان میں متوقع قومی انتخابات اور اس کے نتائج میں بلوچستان کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ؛چنانچہ اس بار وہاں انتخابات میں قوم پرست جماعتوں سمیت تمام فریق انتخابی اور جمہوری سیاست کا حصہ بننے پر آمادہ ہوئے ہیں تو یہ ایک اہم پیش رفت ہے ۔انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی گروپ، جمہوری وطن پارٹی طلال بگٹی، شاہ زین بگٹی، پختونخوا عوامی ملی پارٹی شامل ہیں ۔ ان جماعتوں کی جانب سے بالخصوص سردار اختر مینگل،علی بگٹی،طلال بگٹی،شاہ زین بگٹی، چنگیزمری،بزنجو، عبدالمالک، محمود خان اچکزئی کی، بہت سے تحفظات کے باوجود ،انتخابی عمل میں شرکت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔سیاسی جماعتوں سے ہونے والے مکالمہ میں قوم پرست جماعتوں سمیت سب کا موقف یہ تھا کہ ہم اس بار کسی بھی صورت میںانتخابی میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے، لیکن انہیں سب سے زیادہ خدشہ امن و امان کی صورت حال اور دہشت گردی سے ہے ۔ اگر یہاں پُرامن انتخابات کا ماحول فراہم نہیں کیا جائے گا تو ناراض جماعتوں کا ردعمل مختلف بھی ہوسکتا ہے ۔ یہ اچھی بات ہے کہ نگران حکومت، صوبائی الیکشن کمشنر، ایف سی اور دیگر متعلقہ ادارے شفاف انتخابات کے لیے پُرامن حالات کو یقینی بنانے اور مقامی لوگوں کو اعتماد میں لینے کی سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں ، مگر ہمیں محسوس ہوا کہ جو کام حکومتی یا اداروں کی سطح پر ہورہا ہے اس کے بارے میں لوگوں کو زیادہ معلومات نہیں ،حالانکہ اس کی شدید ضرورت ہے ۔اس کے باوجود انتخابی عمل میں جہاں بہت سی امیدیں ہیں ، وہیں خطرات بھی ہیں ۔بعض گروہ انتخابات کی بجائے مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں؛چنانچہ یہ لوگ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں ، امیدواروں اور لوگوں میں خوف پیدا کررہے ہیں کہ وہ انتخابی عمل کا بائیکاٹ کریں ، وگرنہ دوسری صورت میں انہیں جانی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔جن اضلاع میں زیادہ خطرات ہیں ان میں خضدار،ڈیرہ بگٹی، واشوک، قلات، مستونگ، آوران، پنجگور، نصیر آباد،مکران، خاران، تربت اور گوادر جیسے اضلاع شامل ہیں ۔ہمیں بلوچستان کے اہم صحافیوں نے بتایا کہ انہیں اور دیگر صحافیوں کو انتخابات کی کوریج کرنے پر دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ میڈیا کے دفاتر کو دھمکی آمیز خطوط لکھے گئے ہیں ، انتخابی عملہ کو ڈیوٹی دینے سے ڈرایا جارہا ہے ، پولنگ کے دن ہڑتال کا اعلان کیاگیا ہے ، ووٹروں کو دھمکی دی جارہی ہے کہ جو بھی گھر سے ووٹ دینے نکلے گا اسے نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ بیشتر علاقوں میں اخبارات اور مقامی چینل بند ہیں ۔مقامی صحافیوں کے بقول ان خطرات کے باعث انتخابات میں ووٹروں کا ٹرن آوٹ کم ہوسکتا ہے ،جبکہ پشتون اور نان بلوچ علاقوں میں انتخابات کا ماحول قدرے بہتر ہے ۔ بلوچستان میں منصفانہ اور شفاف انتخاب کا انعقاد ایک بڑا چیلنج ہے ۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ قوم پرست جماعتیں جو 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد دوبارہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں وہ ووٹروں ،امیدواروں اور انتظامی عملہ میں موجود خوف کو کس حد تک کم کرسکیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سردار اختر مینگل خود انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے بھائی سردار جاوید مینگل آزاد بلوچستان تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں ،لیکن اس کے باوجود اگر انتخابات کا بائیکاٹ یا ووٹروں کو ووٹ نہ دینے کی ترغیب دینے والوں کے مقابلے میں بلوچستان کی نگران حکومت، انتظامی ادارے، سیاسی جماعتیں ، قوم پرست رہنما اور سول سوسائٹی مشترکہ طور پرکوئی مضبوط حکمت عملی ترتیب دینے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے مثبت نتائج نکلنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ہمیں ان انتخابات میں بلوچستان سے ٹرن آئوٹ بڑھانے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی تاکہ انتخابات کی ساکھ پر بھی کوئی سوال نہ اٹھاسکے۔لیکن یہ کام آسان نہیں ، یہ کام محض انتظامی اختیارات کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے سیاسی عمل کو تیز کرنا ہوگا۔بلوچستان کی سیاست میں بڑی سیاسی جماعتوں کا رویہ مایوس کن ہے اور شاید وہ بھی خوف کا شکار ہیں ۔بلوچستان کو اس وقت ایک ایسی مضبوط قیادت کی ضرورت ہے جوصوبے کے مسائل سے عہدہ برآ ہوسکے،لیکن اگر اس کے برعکس بلوچستان میںوہی پرانا انداز اختیار کیاگیا تو نتائج ماضی کے مقابلے میں زیادہ بھیانک ہوسکتے ہیں،جس سے بلوچستان کا سیاسی مقدمہ مزید کمزور ہوجائے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں