انتخابی نتائج کے بارے میں کوئی حتمی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ تاہم الیکشن 2013ء کے نتائج دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ اول، سیاسی اشرافیہ کا ایک طبقہ ان انتخابات کو ماضی کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ماضی کے انتخابات کا تسلسل ہوں گے۔ یہ طبقہ دو جماعتی نظام کے دائرے میں رہ کر نتائج کو دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی، مسلم لیگ(ق)کا خیال ہے کہ وہ اپنی سابق نشستوں میں کچھ کمی بیشی کے ساتھ سامنے آئیں گی۔ اس طبقہ کے مطابق ان انتخابات میں کسی بڑی تبدیلی کے واضح امکانات نظر نہیں آتے۔ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق انتخابی سیاست کی حرکیات میں کافی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ نتائج میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو گی، حقائق کے بر عکس ہے۔ اس طبقے کے مطابق شہری سیاست میں جو پر جوش نوجوان اور خواتین نظر آرہے ہیں وہ اگر پولنگ اسٹیشن کا رخ کرتے ہیں تو نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔ ممکنہ تبدیلی کے لیے اہم فیکٹر ووٹ ڈالنے کی شرح ہو گی۔ الیکشن کمیشن کا اندازہ ہے کہ انتخابات میں کم از کم 84فیصد ٹرن آئوٹ ہو گا۔ اگر 60سے 65فیصد شہروں میں ٹرٹ آئوٹ کی یہ شرح رہی تو حیران کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ پنجاب سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں بڑی انتخابی جنگ میاں نواز شریف اور عمران خان کی جماعتوں کے درمیان جاری ہے۔ میاں نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس تجربہ اور سیاسی ماہرین کی ایسی ٹیم ہے جو پاکستان میں مثبت تبدیلی کے لیے موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا سیاسی مخالف اناڑی اور جذباتی ہے اور محض جذبات سے پاکستان تبدیل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس تجربہ نہیں اور بیشتر لوگ بھی نئے ہیں، لیکن وہ جنون کی مدد سے تجربے کو شکست دیں گے اور جنون کے سامنے تجربہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔ میاں نواز شریف کی اشتہاری مہم میں یہ بات تسلسل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ اگر لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پیپلز پارٹی اور صدر زرداری کی دوبارہ حکومت قائم ہو جائے گی۔ نواز شریف کے حامی دانشور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور عمران خان کے سہ فریقی اتحاد کو نواز شریف کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ ان انتخابات میں یہ امکان تو موجود ہے کہ میاں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ(ن) دوسری جماعتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ کامیابی اسے تنہا حکومت بنانے میں مدد نہ دے سکے۔ حکومت بنانے کے لیے اسے دوسری جماعتوں کی ضرورت ہو گی۔ سیاسی تجزیہ کار مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کچھ عرصہ قبل تک 120کے قریب نشستیں جیتنے کی پیش گوئی کر رہے تھے لیکن اب نئی صورتحال میں وہ یہ تعداد 75سے 85تک بتاتے ہیں۔ اس کی وجہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران عمران خان نے جس طرح اپنی انتخابی مہم میں شدت پید کی وہ واقعی اہم ہے، اس سے ان کے ووٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہو گا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی کی کم از کم 50نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی ان انتخابات میں کہیں نظر نہیں آرہی اور اسے بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کافی مشکل میں ہے، لیکن اس کے باوجود اس امکان کو رد نہیں کیا جاستا کہ یہ اتنی نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں آئے گی جو اسے ہزیمت سے بچا سکے۔ البتہ اسے جنوبی پنجاب میں ’’ آزاد گروپ‘‘ سے خطرہ ہے جو مٹکا کے نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ ان انتخابات میں اپنی اہمیت کھو بیٹھے گی، لیکن جماعت میں شامل وہ اہم افراد جو انفرادی حیثیت میں جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پنجاب کی دیہی سیاست اور اس کے نتائج عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں کے لیے چیلنج ہو سکتے ہیں، کیونکہ پیپلز پارٹی اور ق لیگ دیہی سیاست میں اب بھی اپنا اثرو نفوذ رکھتی ہیں۔ سندھ میں اگرچہ پیپلز پارٹی بدستور طاقت میں ہے، لیکن اس کی نشستیں 2008ء کے انتخابات کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہیں۔ ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد میں اہم فریق ہے لیکن مخصوص حالات کی وجہ سے اس بار کچھ نشستیں کھو سکتی ہے۔ اے این پی کو خیبر پختونخوا میں مشکل درپیش ہے۔ اس کے سیاسی حریف کچھ زیادہ طاقت میں نظر آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقے میں اہم فیکٹر ہوں گے۔ لیکن یہ سمجھنا کہ وہ 2008ء کے انتخابات کے نتائج کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے ذرا مشکل ہے۔ عمران خان پشتون علاقوں میں مولانا فضل الرحمن کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوں گے۔مولانا فضل الرحمن کو بلوچستان میں اپنی ہی جماعت سے مولانا عصمت اللہ )نظریاتی گروپ (کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ بلوچستان سے قوم پرست جماعتوں کی کامیابی کے امکانات بھی واضح ہیں اور ان کی جیت بلوچستان کی سیاست میں اہم ہوگی۔ان انتخابات میں آزاد امیدواروں کی بھی بڑی تعداد جیت کر سامنے آئے گی جو حکومت بنانے میںبڑی جماعتوں کے لیے ’’ ٹرمپ کارڈ ‘‘ ثابت ہونگے اور ان کی کنجی پس پردہ قوتوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔یہ امکان بھی موجود ہے کہ بعض اہم جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کی ساکھ پر سوال اٹھاکر تحریک بپا کرنے کی طرف چلی جائیں۔ جہاں تک حکومت سازی کا تعلق ہے ، اگرچہ بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے حکومت بنانے کے امکانات زیادہ ہیں ، لیکن اگر پیپلز پارٹی کم ازکم60نشستوں پر کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میںغیر متوقع طور پر دوبارہ سامنے آسکتی ہے ۔چنانچہ اصل بحران حکومت سازی پر شروع ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ اس کھیل میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ)ن(اور تحریک انصاف اپنے کارڈ کیسے کھیلتی ہیں اور کون کس کا اصل اتحادی بن کر اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتا ہے ۔