پاکستان میں انتخابات کی شفافیت کا سوال ہمیشہ سے مبہم رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ماضی کے بیشتر انتخابات کی صحت پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں ۔ اگرچہ ہماری سیاسی تاریخ میں جو جماعت جیت جاتی ہے اس کے لیے انتخابات شفاف ہوتے ہیں ، جبکہ ہارنے والے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں ۔ پاکستان کے حالیہ انتخابات کے بارے میں میڈیا، سیاسی جماعتوں، سیاسی اشرافیہ سے لے کر عام لوگوں کی سطح پر یہ تاثر عام تھا کہ انتخابات ہر صورت میں شفاف ہونگے۔ نگران حکومت، عدلیہ اور فوج نے بھی اسی کمٹمنٹ کا اظہار کیا تھا کہ انتخابات کی شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔لیکن اب جو نتائج سامنے آئے ہیں ان پر مرکزی، صوبائی اور علاقائی سطح پر ملک کی تمام جماعتیںتحفظات کا اظہار کررہی ہیں۔ مسلم لیگ ن‘ جس نے سب سے زیادہ نشستیں لی ہیں‘وہ بھی کراچی اور سندھ کے انتخابی نتائج پر دیگر جماعتوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہے۔سیاسی تاریخ میں یہ پہلا انتخاب ہے جس میں جیتنے اور ہارنے والے سب شور مچا رہے ہیں یا دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے دو پہلو اہم ہیں۔ اول انفرادی سطح پر دھاندلی‘ یعنی امیدوار مقامی انتظامیہ کی مددکے ساتھ انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ دوئم ادارہ جاتی سطح پر دھاندلی‘یعنی انتظامیہ اور دوسرے مقتدر ادارے کسی کی حمایت یا مخالفت کرکے انتخابات کے نتائج کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سامنے لاتے ہیں۔ انتخابات کی شفافیت کو جانچنے کے لیے تین سطحوں پر تجزیہ ضروری ہوتا ہے ۔ اول انتخابات سے قبل جاری انتخابی مہم ، دوئم انتخابات کا دن اور سوئم انتخابات کے نتائج کے بعد مرکز اور صوبوں کی سطح پر حکومت سازی کی تشکیل کا مرحلہ۔پاکستان کے حالیہ انتخابات میں اگر ان تینوں پہلوئوں پر نظر ڈالیں تو کئی طرح کی بے ضابطگیاں محسوس ہوتی ہیں ۔ مثال کے طو رپر نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کے درمیان کافی مسائل نظر آئے۔ فریقین کے درمیان جس طرز کی رابطہ کاری اور تعاون کی فضا درکار تھی، اس کا فقدان تھا ۔ اگرچہ نگران حکومتیں مرکز اور صوبوں کی سطح پر حکومت اور حزب اختلاف کی مدد سے تشکیل دی گئی تھیں ، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جن جماعتوں نے نگران حکومتوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا وہ بھی انتخابات کی شفافیت پر برہم نظر آتی ہیں۔ اسی طرح ووٹر فہرستوں میں بھی کافی مسائل سامنے آئے اور کئی لوگوں کے ووٹ ان کی موجودہ رہائش کی بجائے مستقل پتہ پر بنائے گئے جس سے انہیں ووٹ ڈالنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابات کے دن کچھ حلقوں میں انتظامات بھی کافی ناقص تھے او رکئی مقامات پر پولنگ مقررہ وقت سے بہت دیر بعد شروع کی گئی ۔انتخابی نتائج میں جو تاخیری حربے جان بوجھ کر اختیا رکیے گئے یا رات گئے غیر سرکاری نتائج کے ا علان نے کئی لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے ۔ نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی تشکیل پر سب سے زیادہ اعتراضات ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے اٹھائے تھے،لیکن بہت سے لوگوں نے ان کے اعتراضات کو کسی سازش کا حصہ قرار دے کر نظرانداز کردیا تھا۔ لیکن اب جو نتائج سامنے آئے ہیں ان سے ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کو اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔سندھ میں قوم پرستوں، فنگشنل لیگ اور دس جماعتی اتحاد میں شامل جماعتیں انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکاری ہیں ۔کراچی میں دس جماعتی اتحاد دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کررہا ہے ۔پنجاب میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ق(کو نتائج پر تحفظات ہیں۔ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور بالخصوص مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو ’’ پس پردہ قوتوں‘‘ کے کھیل کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول ان کے پاس ایسے ثبوت ہیں جو انتخابات کی صحت کو مشکوک بناتے ہیں‘جبکہ بلوچستان میں سردار اختر مینگل، طلال بگٹی اور شاہ زین بگٹی بھی صوبہ کے نتائج کو ملی بھگت کا کرشمہ قرار دیتے ہیں ۔سردار اختر مینگل کے بقول ان کے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا ہے ۔یہ سب نئی باتیں نہیں ، پہلے بھی انتخابات کے بعد ایسے ہی الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ عالمی مبصرین اور یورپی یونین کے عہدے دار انتخابات کو شفاف قرار دے رہے ہیں اور ان کے بقول ماضی میں کبھی اتنے شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔ پاکستان میں بھی بعض فریق یورپی یونین اور عالمی مبصرین کے ہم نوا ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان میں موجود سیاسی اشرافیہ اور سیاسی جماعتیں انتخابات کی شفافیت کو قبول کرنے میںکیوں انکاری ہیں؟ ان انتخابات کے بارے میںجو بھی اعتراضات اٹھائے گئے یا سامنے لائے گئے ان پر الیکشن کمیشن اور بالخصوص چیف الیکشن کمشنر کو لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔ انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ایک اہم اور سنجیدہ سیاست دان سینیٹر رضا ربانی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو بین الاقوامی اسٹیبلیشمنٹ کی وجہ سے بھی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ رضا ربانی ان انتخابات کے نتائج کے حوالے سے بین الاقوامی اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ ہو یا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ‘ کو علاقائی اور پاکستان کی سیاست میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں بھی ہمارے بیشتر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ غلبہ حاصل رہا ہے ۔ ہمارے بعض تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار محدود ہوگیا ہے، یہ مکمل سچ نہیں ۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اب بھی بڑی طاقت ہے اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا دائرہ کار بھی کافی بڑھ گیا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اب انتخابات ہوگئے ہیں تو یہ جیسے بھی ہوئے ہیں‘ ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔یہ بات ایک حد تک درست ہے‘لیکن ہمیں اپنی داخلی اور خارجی غلطیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘ کیونکہ یہ طرز عمل اصلاحِ احوال کے امکانات کو کمزو رکرتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی فریق، جماعت یا گروہ انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھاتا ہے تو ہمیں اس پر برہم ہونے کی بجائے اس کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے‘ اسی طرح جو لوگ انتخابات کے نتائج پر اعتراضات اٹھارہے ہیں وہ بھی الزامات کی سچائی میں اپنے ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کریں ۔ اس کے بعد ہی اصل حقیقت سامنے آسکے گی۔