"SAC" (space) message & send to 7575

عوام کا مقدمہ

کسی بھی معاشرے کی سیاست، جمہوریت اور نظام میں عوام اور ان کے تصورات بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں، ان کی قیادتیں اور حکمران طبقے کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی خواہشات بالخصوص محروم طبقات کو بنیاد بناکر سیاست کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں عام طبقے اور حکمرانوں میں ایک واضح خلیج اور بداعتمادی کی فضا نظر آتی ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ مسائل کا ذکر کر کے قوم سے قربانی کا تقاضا کرتا ہے لیکن اس کی اپنی شاہانہ زندگیوں میں کوئی فرق نہیں آتا۔ حکمران کوئی بھی ہوایک بات واضح ہے کہ امیری اور غریبی کے بڑھتے ہوئے فرق کا سوال زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جمہوریت کے دعوئوں اور طبقاتی فرق واضح ہونے کے باوجود اسے کم کرنے پر کوئی معنی خیز مباحثہ نہیں ہو رہا۔ ایک زمانے میں طلبہ‘ مزدور رہنما اور اہل دانش کے علمی مباحثوں میں طبقاتی فرق کے سوال کو بہت اجاگر کیا جاتا تھا، لیکن طلبہ اور مزدور یونینوں پر قدغنوں کے باعث یہ مباحث ماضی کا حصہ بن گئے ہیں۔ ماضی کی سیاسی جماعتوں میں وہ خرابیاں نہیں تھیں جو آج سیاست میں طاقت ور عنصر کی صورت اختیار کرگئی ہیں ۔ سرمائے، دھونس، دھاندلی، اسلحہ اور سرمایہ داروں کے مفادات پر مبنی سیاست کے باعث عام آدمی کا مفاد بہت پیچھے چلاگیا ہے۔ اگر کوئی حکومت کمزور یا محروم طبقات کے لیے کچھ پالیسیاں بناتی ہے تووہ ایک مخصوص علاقے تک محد ود رہتی ہیں‘ پورا معاشرہ اس سے استفادہ نہیں کر پاتا۔ ہم نے کمزور لوگوں کو خیراتی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے کا نظام بناکر عملی طور پر انہیں بھکاری بنادیا ہے۔ ان پالیسیوں سے لوگوں کو معاشی طور پر مضبوط اور خوشحال بنانے کی بجائے انہیں ریاستی اداروں کا محتاج بنایا جا رہا ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی 18 کروڑ آبادی میں سے بلوچستان کے 52فیصد، سندھ کے 33فیصد، خیبر پختونخوا کے 32فیصداور پنجاب کے 19فیصدلوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں ۔ دیہی سطح پر غربت کی شرح46فیصد کے قریب ہے ۔یہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ بہت زیادہ غریب لوگوں کو اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بناتا۔ اسی طرح ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چھ کروڑ افراد خوراک کے بحران کا شکار ہیں ۔ اگر خوراک کا یہ بحران اسی طرح جاری رہا تو کم ازکم ایک کروڑ 70لاکھ مزید افراد اس کا شکار ہو جائیں گے۔ عا م آدمی کی سب سے زیادہ امید قومی اور صوبائی بجٹ سے وابستہ ہوتی ہے۔ لوگ توقع کرتے ہیں کہ بجٹ میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کو بنیاد بناکر جمہوری حکومتیں ہمارا مقدمہ بہتر طورپر لڑیں گی‘ لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرمایہ درانہ نظام میں ترجیحات کا تعین اس طرح نہیں کیا جاتا۔ بجٹ کی ایک سادہ سی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ کن طبقات سے وسائل اکھٹے کرنے ہیں اور کن لوگوں پر یہ وسائل خرچ کرنے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حکومتیں مراعات یافتہ طبقات سے ٹیکسوں کی وصولیاں یقینی بناتی تھیں تاکہ غریب آدمی کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ لیکن اب سیاست میں خود مراعات یافتہ طبقہ قومی سیاست میں بالادست حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ طبقہ سیاسی جماعتوں کو پارٹی فنڈ میں بھاری رقوم دے کر ان کی حکومت کے فیصلوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں آپ سب کچھ تلاش کرسکتے ہیں، لیکن اس میں عوامی مفادات کے پہلو نظر نہیں آئیں گے۔ بجٹ میں جس انداز سے لوگوں پر ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی وہ ظاہر کرتا ہے کہ قربانی عوام ہی کو دینی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امرا کب قربانی دیں گے؟ مثال کے طور پر حکومت نے پارلیمنٹ میں کثرت رائے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کوناقابل عمل قرار دینے کے لیے مالیاتی ترمیمی بل منظور کرلیا جس کے تحت ٹیکسوںمیں اضافہ 13جون سے نافذ العمل کردیا گیا۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ ہماری سیاسی حکومتیں آزادانہ بجٹ بنانے میں کتنی آزاد ہیں کیونکہ ہماری معیشت جس طرح عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں ہے‘ اس نے ہماری ترجیحات یکسر بدل دی ہیں۔ ہمارے ہاں جو جمہوریت ہے وہ بھی سرمایہ دارانہ یا کارپوریٹ کلچر کی ایک شکل ہے۔ اس جمہوریت کا انحصار اپر مڈل یا مڈل کلاس پر ہوتا ہے، غریب اور خط غربت سے نچلا طبقہ اس کی ترجیحات میں بہت پیچھے رہ جاتاہے ۔سرمایہ دارانہ جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ وہ سرمائے کے گرد ہی گھومتی ہے اس لیے جن کے پاس سرمائے کی طاقت ہوتی ہے وہی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادتوں کی ناکامی کی وجہ جذباتی نعرے بھی ہوتے ہیں جو وہ صرف اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے لگاتے ہیں لیکن اقتدار ملنے کے بعد ان کے یہ نعرے اقتدار کی مجبوریوںکا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے حکومت بدلنے کے باوجود لوگ پہلے سے بھی زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ہم نئی حکومت سے جادوئی تبدیلیوں کی توقع وابستہ کر لیتے ہیں۔ غریب طبقے کو ریلیف دینے کے لیے سب سے ز یادہ توجہ غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے پر دینی چاہیے۔ ایک بڑا پہلو حکومت کی طرف سے انفراسٹرکچر کی تعمیر پر غیر معمولی توجہ ہے۔ یہ کام کرنے کے لیے تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کے لیے رکھی گئی رقوم میں کٹوتی کرلی جاتی ہے۔ عام لوگوں کی اداروں تک رسائی، انصاف کی فراہمی، وسائل کی منصفانہ تقسیم ، خود احتسابی پر مبنی نظام اور اور شفاف نظام کو یقینی بنانے کے لیے اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی ضروری ہے۔ پاکستانی سیاست میں عوام کے مقدمہ کو پزیرائی دینے کے لیے ہمیں عوامی مفادات پر مبنی سیاست کو ایک نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا او راپنی ترجیحات میں کمزور طبقات کو فوقیت دینی ہوگی ۔ لیکن یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوگااو رنہ ہی حکمران طبقات اس ایجنڈے کو اپنی ترجیحات کا فوری حصہ بنائیں گے۔ جب تک پاکستانی سیاست میں لوگ منظم ہوکر سیاست اور سیاسی قیادتوں پر دبائو ڈال کر بالادست نہیں ہونگے، ہماری سیاست میں عام آدمی کا سوال کئی تضادات کے ساتھ مزید بگاڑ پیدا کرتا رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں