تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبر پختونخوا کے راستے نیٹو سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کرکے وفاقی حکومت کو مشکل صورتحال سے دو چار کردیا ہے ۔ وفاقی حکومت کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں ۔ اول: اگر وہ نیٹو سپلائی بند کرنے کی حمایت کرتی ہے تو اس سے امریکی ردعمل ناراضگی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ دوئم: اگروہ نیٹو سپلائی کی بندش پر صوبائی حکومت کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھاتی ہے تو اس سے ان کے بقول عمران خان سیاسی شہید بن سکتے ہیں ۔اگر عمران خان تضادات کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں تو وفاقی حکومت اور ریاستی ادارے بھی اسی کیفیت سے دو چارہیں ۔حکومت عوام اور امریکہ دونوں کو بیک وقت مطمئن کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ لیکن رائے عامہ کی تقسیم نے عملی طور پر حکومت کو واضح، کھلا اور شفاف فیصلہ کرنے اور سب کے سامنے سچ بولنے سے روکا ہوا ہے ۔اس تضاد کی وجہ سے ریاست اور حکومت نے دوچہرے اختیار کیے ہوئے ہیں ایک عوام کے لیے اور دوسرا پس پردہ ملکی یا بین الاقوامی طاقتوں کے لیے ۔عالمی طاقتوںنے ہمیں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ ہماری اپنی سلامتی زیر سوال آگئی ہے ۔جب تک ہم اپنے فیصلے خود نہیں کریں گے فکری اور انتظامی تضاد ات ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے ۔
اب جب کہ عمران خان نے نیٹو سپلائی بند کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے تو حکومت پریشان ہے ۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے عمران خان پر شدید تنقید شروع کردی ہے ۔ان کے بقول وزیر اعظم باہر کی دنیا سے تعلقات کی بہتری اور عمران خان بگاڑ پیدا کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو کچھ وزیر اعظم نواز شریف بیرونی محاذ پر کررہے ہیں اس سے ہمیں کیا سیاسی ریلیف ملا ہے؟ ڈرون حملوں پر امریکہ ہمیں کسی طرح کا ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کے بقول امریکہ نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مذاکراتی عمل کے دوران کوئی حملہ نہیں کرے گا، لیکن اس وعدہ کی پاسداری نہیں کی جاسکی۔ خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے بھی خارجہ امور کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی بڑھک ماری کہ اب حملہ نہیں ہوگا۔ لیکن ہنگو میں امریکی ڈرون حملہ واضح پیغام ہے کہ انھیں نہ تو پاکستان کی کسی سیاسی اور انتظامی مجبوری کا احساس ہے اور نہ ہی انھوں نے ڈرون حملوں کی بندش پر کسی کو کوئی ضمانت دی ہے ۔
وزیر اعظم کے بقول ڈرون حملوں پراحتجاج کو محض رسمی احتجاج نہ سمجھا جائے بلکہ ہم حقیقی معنوں میں ڈرون حملوں کے خلاف سرگرم کار ہیں ۔ممکن ہے کہ وزیر اعظم کی بات درست ہو، لیکن نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے موقف کو تسلیم نہیں کرتا۔امریکی صدر اوباما بضد ہیں کہ انھیں جہاں بھی شک گزرا کہ یہاں دہشت گرد یا امریکہ مخالف لوگ موجود ہیں ان کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جائے گا ۔جہاں تک احتجا ج کا تعلق ہے تو یہ کوئی نیا نہیں ۔ سابقہ حکومت نے بھی ڈرون حملوں پر سیاست جاری رکھی، لیکن اس وقت کی اپوزیشن نواز شریف اور مسلم لیگ ان ڈرون حملوں کی مخالفت والی سیاست کررہی تھی جیسی آج تحریک انصاف کررہی ہے۔ سابقہ دور میں ڈرون حملوں کے خلاف پارلیمنٹ میں جو قراردادیں آئیں ان میں نیٹو سپلائی کی بندش، ڈرون طیاروں کو مار گرانے اور امریکہ سے تعلقات پرنظرثانی جیسے مطالبات کی شکل میں جو سخت شقیں ڈالی گئیں اس میں نواز شریف کی مسلم لیگ )ن(پیش پیش تھی ۔لیکن اب حکومتی مجبوریوںاور سمجھوتے کی سیاست نے مسلم لیگ )ن(کوتضادات کی سیاست میں اُلجھا دیا ہے ۔
وزیر اعظم نواز شریف اور حکومت کو خوب معلوم ہے کہ عمران خان مقبول عام سیاست کا حصہ ہیں ۔ وہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ انھیں حز ب اختلاف کے طور پر اصل خطرہ پیپلز پارٹی سے نہیں بلکہ عمران خان سے ہے ۔عمران خان کے بقول اگر اس مزاحمتی سیاست میں انھیں صوبائی حکومت کی قربانی بھی دینی پڑے تو وہ اس سے گریز نہیں کریں گے۔یہ سوال بنیادی نوعیت کا ہے کہ وہ کس حد تک نیٹو سپلائی کو بند رکھ سکیں گے۔ یہ علامتی عمل تو ہوسکتا ہے ، لیکن لمبی مدت کے لیے نیٹو سپلائی کو بندرکھنا آسان نہیں ہوگا۔خود حکومت کی کوشش بھی ہوگی کہ نیٹو سپلائی بند کرنے کا دورانیہ مختصر ہو، وگرنہ اسے سخت اقدام کی جانب جانا ہوگاجو اس کے لیے نئے مسائل پیدا کرے گا۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ داخلی مسائل میں الجھی ہوئی ہے اور ایسے میں عمران خان کو حکومت پر دبائو بڑھانے کا موقع مل گیا ہے ۔
اس صورتحال میں حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم نواز شریف کے لیے امریکہ کا دفاع کرنا یا حد سے زیادہ خاموشی اور ٹال مٹول کی پالیسی‘ امریکہ اور حکومت مخالف جذبات کو مزید ابھارے گی ۔یہ عمل محض حکومت مخالف لوگوں تک محدود نہیں بلکہ وزیر داخلہ کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ہمیں نئی صورتحال میں ڈالروں یا عزت نفس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ آج معاملہ ہنگو تک پہنچا ہے اور کل خدانخواستہ یہ ڈرون حملے اندرون ملک تک پہنچ سکتے ہیں؛کیونکہ امریکہ اور اس کے اداروں کا دعویٰ ہے کہ انتہا پسند ،قبائلی علاقوں سے ملک کے دوسرے شہروں تک پہنچ گئے ہیں ۔اس لیے حکومت کو ڈرون حملوں کی سیاست پر کچھ تو ایسا کرنا ہوگا جو اس کی سیاسی ساکھ کی بحالی کے ساتھ لوگوں میں موجود غصہ کو بھی ٹھنڈا کرسکے ۔اس وقت حکومت خوف، دبائو اور بے بسی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوکرنئی الجھنیں پیدا کررہی ہے ۔حالانکہ حکومت پر جو دبائو ہے اسے بنیاد بناکر وہ امریکہ سے کھل کر بات کرسکتی ہے۔اسے امریکہ کو باور کروانا ہوگا کہ اس کی حکمت عملی سے ،صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ خود امریکہ کے لیے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی جہت ہموار کرنا ہوگی۔ ایسی جہت اور ایسی حکمت عملی جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہو۔کیونکہ اس وقت پاکستان، امریکہ کا دوست ہونے کے باوجود زیادہ نقصان برداشت کررہا ہے۔ اس نقصان کا ازالہ دہشت گردی کی جنگ سے باہر نکلنے کے راستہ سے جڑا ہوا ہے ۔اس کے لیے پاکستان کو اندر کے مسائل بھی حل کرنے ہونگے اور جومسائل باہر سے پیدا کیے جارہے ہیں ان کا بھی مداوا کرنا ہوگا۔