پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مستقبل کیا ہو گا ابھی طے ہونا باقی ہے لیکن اس کا ماضی بہت بھیانک ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے شناختی کارڈ بنانے کا کام بھٹو صاحب کے دور میں شروع ہوا لیکن آج تک ضلع اسلام آباد اور اُس کی نواحی بستیوں کے کئی افراد شناختی کارڈ کے حصول سے محروم ہیں ۔ مسلمان تہذیب کیلئے یہ کام دنیا میں سب سے آسان تھا اس لیے کہ واقعہ معراج انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بھی معراج ہے ۔
جس سائنس کی صداقت پر ہمارا کامل ایمان ہے اُسے سیکھنا سکھانا مسلمان معاشروں کے فرائض کا حصہ ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اس میدان میں مغرب کی تحقیق و ایجادات سے بھی ہم پوری طرح مستفید ہونے کے لیے تیار نہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جہاں ملک نے داخلی اور خارجی محاذ پر نیک نامی کے کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیئے‘ وہاں ڈاکٹر عطا ء الرحمان جیسے قابل شخص کی دریافت اور ان کی خدمات سے استفادہ بھی جنرل پرویز مشرف کا ایک عظیم کارنامہ ہے ۔ ہندوستانی سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو دی جانے والی ایک خفیہ بریفنگ (جو بعد میں ہندوستانی اخبارات میں مفصل شائع ہو گئی) میں پاکستانی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈاکٹر عطاء الرحمن کا ذکر جن شاندار الفاظ میں کیا گیا وہ ساری قوم کے لیے قابل فخر ہے اور جس پر ڈاکٹر عطاء الرحمن کو کئی اعزازات اور انعامات سے نوازا جانا چاہیے لیکن بقول شاعر:
نیرنگی سیاستِ دوران تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
جنرل پرویز مشرف کے خلاف نواز لیگی حکومت نے جب غداری کا مقدمہ درج کر کے اس کی بھر پور تشہیر کا اہتمام کیا تو میں نے کہا تھا کہ ''مشرف محض بہانہ ہے... فوج اصل نشانہ ہے ‘‘۔ بعد کے واقعات نے میرے اندازے کو درست ثابت کیا ۔ اس وقت میں والد گرامی سردار محمد عبدالقیوم خان کی اچانک شدید علالت کے باعث راولپنڈی کے قائداعظم ہسپتال میں مجاہد اول کے ساتھ اٹینڈنٹ ڈیوٹی کی سعادت سے مستفید ہو رہا ہوں جس کے باعث خیالات کا بے ربط ہونا قدرتی امر ہے تا ہم جو ذہن میں آرہا ہے قارئین کی خدمت میں حاضر ہے ۔
ایگزیکٹ ، بول ٹی وی، شعیب شیخ اور ایف آئی اے کی پھرتیاں آج کا اصل موضوع ہے ۔ شیخ صاحب سے میرا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق یا واقفیت نہیں ۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ ان کے چینل کے خلاف سب سے پہلی خبر ہندوستانی اخبارات نے دی جسے پاکستان میں کچھ لوگوں نے اچھالنے کی بھر پور ناکام کوشش کی۔ پھر ایک ہندوستانی شہری کی ڈگری جعلی ثابت ہو گئی اورپھر ایک امریکی صحافی ڈیکلن والش کی ایگزیکٹ کے خلاف خبر کیا چھپی کہ ساری حکومت پاکستان اور بطور خاص ''محترمہ ایف آئی اے صاحبہ‘‘ پوری طرح حرکت میں آ گئیں۔ جو صحافی پاکستان کے لیے تو ناپسندیدہ شخص قرار دیا جا چکا ہے‘ اُس کی خبر اس نظام کیلئے کس قدر معتبر ٹھہر گئی۔
میں مغربی میڈیا یا امریکی ذرائع ابلاغ کو برا بھلا کہنے کے فیشن سے کبھی متاثر نہیں ہوا نہ ہی اب کوئی ارادہ ہے بلکہ میں تو قائداعظم اور لیاقت علی خان کی دوربینی کو تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے قیام پاکستان کے آغاز میں ہی امریکہ سے تعلقات کے قیام کا درست فیصلہ کیا اور امریکی قیادت ،عوام اور اُس کے اداروں کے حوصلے اور ہمت کی داد دیتا ہوں کہ جنہوں نے پاکستانی حکومتوں کی کرپشن اور لوٹ مار کے باوجود اپنے عوام کے ٹیکس سے اربوں ڈالر آج تک ہمیں فراہم کرتے رہنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ اس لیے کسی ایک اخبار یا ٹی وی کی خبر کو امریکی پالیسی قرار دینا درست نہیں تاہم یہ بھی غلط نہیں کہ بعض مغربی اخبارات کی خبروں سے دنیا کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑااور بعد میں چند سطور کی معذرت پر اکتفا کر لیا گیا ۔
یہ فیصلہ ہماری حکومتوں کو کرنا ہے کہ پاکستان کے خیرخواہ اور بدخواہوں کی خبروں میں فرق محسوس کریں اور اسی کے مطابق رد عمل کا مظاہرہ بھی ۔ پاکستان کے خلاف یہ میڈیا مہم خود ملک کے اندر بھی اپنے عروج پر ہے ۔ پاکستان دشمن کارروائیوں کو پاکستان کے نام کر کے پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کو بدنام کرنے کی مہم میں تو ہمارے بعض صحافیوں کے علاوہ کابینہ کے اراکین بلکہ وزیر دفاع تک بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔معرکہ کارگل کی فوجی فتح کو سیاسی شکست میںبدلنا، بمبئی حملہ کیس کے اجمل قصاب کوپاکستانی ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج کے ایک مایہ ناز سپوت سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کو ایک صحافی پر حملہ آور اور قاتل ثابت کرنے کی کوشش اور بنگلہ دیش حکومت کوافواج پاکستان کے خلاف عالمی عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ درج کروانے کی ترغیب دینا کسی غیر ملکی میڈیا کا نہیں بلکہ خود پاکستان کے اندر چلنے والے میڈیا کا کارنامہ ہے ۔ سابق یا موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کے دفاع کا کافی انتظام موجود ہے ۔میرے پیش نظر آزاد کشمیر میں تباہ کُن زلزلے کے بعد جنرل خالد نواز اور جنرل ظہیر الاسلام کا ناقابل فراموش کردار کافی ہے ۔ اس لیے اگر حکومت کے لیے میثاق جمہوریت کے تحت کوئی گنجائش بنتی بھی ہو تو ریاستی اداروں کو غیر جانبدارانہ رویہ تر ک کر کے اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں ۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بقول تین طرح کے لوگ آپ کے دوست ہوتے ہیں۔ ایک آپ کا دوست‘ دوسرا دوست کا دوست‘ تیسرا دشمن کا دشمن۔ اس اصول کے تحت بھی میں شعیب شیخ سے ایک گہرا تعلق محسوس کرتا ہوںاور اس کا کھل کر اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ بعض واقعات بہت دلخراش ہیں ۔ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان کو باہر سے زیادہ نقصان پہنچا ہے یا خود اپنے ہاتھوں سے ۔ ماضی قریب میں میثاق جمہوریت اور سابق چیف جسٹس کی ملی بھگت سے پاکستانی معیشت اور اقتصادی وقار کو کراچی سٹیل ملز، بلوچستان کی گولڈ اینڈ کاپر مائن ریکوڈک، نندی پور پاور پروجیکٹ اور اس طرح کے دیگر منصوبہ جات کے حوالے سے جو نقصان پہنچا اُس کی تلافی کیسے ممکن ہو گی ۔
نیو یار ک ٹائمز کی خبر کو بنیاد بنا کرشعیب شیخ کے ساتھ کی جانے والی بد سلوکی پررحمان ملک صاحب جیسے ''شریف النفس‘‘ شخص کو بھی شرمندگی محسوس ہوئی حالانکہ انھیں مسلمان ملک کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے سورہ اخلاص نہ پڑھ سکنے پر قطعاً کوئی ندامت نہیں ہوئی تھی نہ ہی ایان علی منی لانڈرنگ کیس میں اپنا ذکر بار بار سننے کے باوجود انھیں کوئی ناگواری ہوئی ہو گی بلکہ عین ممکن ہے کہ ایان علی کے ساتھ نسبتوں کے کھلِ عام تذکرے اور تصور پر گُنگنا تے ہوں کہ ''مجھ سے میرا ذکر اچھا ہے کہ اُس محفل میں ہے‘‘۔ زرداری حکومت کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے رحمان ملک کو اگر کبھی کسی ایک جرم کا حساب بھی دینا پڑا تو انھیں نسلوں تک بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ زرداری دور میں امریکہ میں مقیم ایک معروف کاروباری شخصیت سید لخت حسنین کی سربراہی میں کرنسی کی تجارت کرنے والی کمپنی جس نے چند سالوں میں پاکستان کے لیے اربوں کا زرِمبادلہ حاصل کیا اُسے اور اُس سے وابستہ ہزاروں افراد کا مستقبل تاریک کرنے کامجرمانہ فعل بھی قابل فراموش نہیں۔
نیویارک ٹائمز کی خبروں پر عراق میں مہلک ہتھیارتو نہ مل سکے البتہ ہزاروں بے گناہ انسانوں کے سر آج تک قلم کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ایک مایہ ناز بنکار مرحوم سید آغا حسین عابدی کا قائم کردہ عالمی شہرت یافتہ مالیاتی ادارہ ،بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس بھی ایسی ہی ایک خبر کی نظر ہو گیا تھا۔ ان سب خبروں پر بعد از وقت چند سطور میں معذرت کر لی گئی لیکن اس سے جو نقصان ہوا اُس کی تلافی کسی بھی صورت ممکن نہیں ۔ شعیب شیخ کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کمانے اور پاکستان کو آئی ٹی کی دنیا میں بلند مقام پر لے جانے کی خواہش کے اظہار سے پہلے ڈاکٹر عطاء الرحمن اور سید لخت حسنین سے رہنمائی حاصل کر لیتے ۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ''شریف آدمی سے ڈرو جب وہ مظلوم ہو اور کمینے آدمی سے ڈرو جب وہ اقتدار میں ہو ‘‘۔ سبحان اللہ انسانی نفسیات کے متعلق پندرہ سو سال پہلے کتنی جامع رہنمائی فراہم کر دی گئی ۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ ذاتی دلچسپی کے نتیجے میں آزاد کشمیر میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران میں نے بوسٹن سے دنیا میں آئی ٹی کے ادارے کے ایک بڑے سربراہ نیگرو پانٹے کو مدعو کر کے آزاد کشمیر میں پرائمری سطح کے طلبہ و طالبات کو آئی ٹی سے وابستہ کرنے کی ابتدائی منصوبہ بندی کر لی تھی جس سے کسی بھی وقت استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔
جس دور میں ایان علی پر انعامات اور شعیب شیخ پر الزامات کی بارش ہو اُس دور کے حکمران تاریخ میں جواب دہی سے نہیں بچ سکیں گے ۔
جس دور میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اُس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے