سفر کا آغاز ہی خراب ہوا تھا۔ سفر آگے چل کر کیا رنگ اختیار کرتا ہے، یہ تو بعد کی بات ہے، آگے چلے تو سہی۔ یہاں تو شروع میں آگے چلنے ہی کے لالے پڑ گئے تھے۔ اور اب میں جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ، کراچی پر ترکی ائیر لائن کے بورڈنگ کاؤنٹر پر حیران پریشان کھڑا تھا۔ فلائٹ کا بورڈنگ پاس اور سامان کا کوپن میرے ہاتھ میں تھا لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جاؤں۔ یہ کراچی سے استنبول کی براہ راست فلائٹ تھی۔ کچھ دن استنبول میں رک کر مانچسٹر، یو کے جانا تھا۔ استنبول دیکھنے کا شوق تھا اور یہی سوچا تھا کہ یعنی آگے چلیں گے دم لے کر۔
یہ اکتوبر 2010 کی ایک خوشگوار رات تھی۔ رات کے ایک بجے میں ائیر پورٹ پر پہنچا تھا۔ موڈ بہت خوشگوار تھا، طبیعت بہت اچھی تھی اور سفر کی ضروریات پوری تھیں۔ سامان سکریننگ سے گزارا۔ پلاسٹک میں ملفوف کروایا اور بورڈنگ کاؤنٹر پر قطار میں کھڑا ہو گیا۔ میرے آگے تین چار لوگ بورڈنگ پاس کے منتظر تھے۔ آٹھ دس منٹ میں میری باری بھی آ گئی۔ میں نے کندھے پر لٹکایا ہوا لیپ ٹاپ بیگ پیروں کے پاس زمین پر رکھا‘ پاسپورٹ اور ٹکٹ کاؤنٹر کی خاتون کو دیا‘ لیگ سپیس سیٹ دینے کی درخواست کی اور لگیج کا بیگ ترازو پر وزن کروا کے ''سپردم بتو مایۂ خویش را‘‘ کہتے ہوئے ان کے حوالے کیا۔ تین چار منٹ بعد خاتون نے مسکراہٹ کے ساتھ ٹکٹ، بورڈنگ پاس اور لگیج کوپن مجھے تھما دیا۔ اطمینان کی سانس لے کر میں نے لیپ ٹاپ بیگ اٹھانے کے لیے ہاتھ نیچے بڑھایا لیکن وہ خالی واپس آ گیا۔
میں نے پیروں کے پاس جہاں بیگ رکھا تھا وہاں دیکھا۔ وہاں بیگ نہیں تھا۔ آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا لیکن لیپ ٹاپ بیگ ندارد۔ مجھے شک ہوا کہ میں نے لیپ ٹاپ بیگ لگیج بیگ کے ساتھ رکھ دیا تھا‘ لیکن لگیج بیگ میرے سامنے پڑا تھا اور وہاں لیپ ٹاپ بیگ نہیں تھا۔ احتیاطاً خاتون سے پوچھا لیکن اس نے حسبِ توقع لا علمی کا اظہار کر دیا۔
میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ بات لیپ ٹاپ کی اتنی نہیں تھی اگرچہ وہ بھی سفر کی اہم ضرورت تھا، اس بیگ کے اندر سفری والٹ تھا جس میں ساری ضروری کرنسی رکھی تھی اور میرے کوٹ کی جیب میں بہت محدود پاکستانی کرنسی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ بیگ میں نے وہیں پیروں کے پاس رکھا تھا‘ لیکن پھر بھی گھوم پھر کر تمام جگہ دیکھا کہ شاید کسی جگہ غلطی سے بھول گیا ہوں لیکن بیگ کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا۔
سفر کا آغاز ہی خراب ہوا تھا۔ میں ساری کرنسی اور اہم کاغذات کھو بیٹھا تھا۔ پریشانی سے میری حالت خراب ہو گئی۔ اسی پریشانی میںسکیننگ مشین کی طرف گیا۔ رات ڈیڑھ بجے کے لگ بھگ زیادہ لوگ نہیں تھے اور مشین بند اور خالی تھی۔ میںنے آپریٹر سے اپنا مسئلہ بتایا اور کہا کہ مشین کے اندر چیک کرے، میں بیگ وہاں تو نہیں بھول گیا۔ اس نے کہا‘ یہ تو سوال ہی نہیں ہے مشین میں کوئی سامان نہیں ہے۔ اب پریشانی، جھنجھلاہٹ کے ساتھ مجھے غصہ بھی آنا شروع ہو چکا تھا۔ ائیر پورٹ کے بند ہال میں گنتی کے چند لوگوں کے درمیان سے میرا بیگ غائب ہو گیا تھا۔ آخر کیسے؟ اور کیوں؟ کیا یہ غصے کی بات نہیں تھی۔
''سکیورٹی انچارج کو بلائیں فوراً‘ میرا بیگ کسی نے یہاں سے اٹھایا ہے‘ کون ذمے دار ہے اس کا؟‘‘ میں نے غصّے میں زور سے چلا کر کہا۔ سکیورٹی سٹاف میں ایک دم بھگدڑ مچ گئی۔ ہر قسم کا عملہ میری طرف متوجہ ہو گیا۔ اے ایس ایف کا ایک ادھیڑ عمر اہلکار میری طرف بڑھا ''کیا مسئلہ ہے‘‘؟ اس نے پوچھا۔ ''میرا بیگ اسی ہال کے اندر سے اٹھایا گیا ہے اور اس میں میرا قیمتی سامان اور کرنسی ہے۔ میں سکیورٹی سٹاف سے پوچھ رہا ہوں لیکن یہاں سب بے فکرے ہیں۔ کوئی توجہ ہی نہیں کرتا کہ میرا کیا مسئلہ ہے۔ آپ سی سی ٹی وی کوریج مجھے دکھائیں اور کسی کو ہال سے جانے نہ دیں۔ جب تک میرا بیگ نہیں ملتا میں یہاں سے جانے والا نہیں ہوں‘‘۔ ''ہال کے اندر سے بیگ کون لے جا سکتا ہے جی؟‘‘ اس نے حیرانی سے کہا۔ فلائٹ میں ابھی دیر تھی‘ اس لیے اس طرف سے اطمینان تھا۔ انچارج نے تین چار اہل کار بلائے اور انہیں مسئلہ سمجھانے لگا۔ میں بھی وہیں کھڑا تھا اور انہیں بیگ کی نشانیاں بتا رہا تھا۔
ابھی ان سے بات چیت کر ہی رہا تھا کہ مجھے دور سے کسی کے پکارنے کی آواز آئی۔ پہلے میں متوجہ نہ ہوا، پھر دوبارہ کسی نے آواز دی تو دیکھا‘ دور ہال کے دوسرے کنارے پر امیگریشن کاؤنٹرز کے سامنے تین چار لوگ کھڑے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے دونوں ہاتھ بلند کر کے کوئی چیز اٹھائی ہوئی تھی۔ میں ادھر لپکا۔ قریب پہنچا تو دیکھا کہ اس آدمی کے ہاتھوں میں میرا لیپ ٹاپ بیگ ہے۔ ''یہ آپ کا لیپ ٹاپ ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ''بالکل یہ میرا بیگ ہے۔ آپ کے پاس کہاں سے آیا؟‘‘ میں نے حیرانی کے ساتھ اس سے پوچھا۔ اس نے میری بات کا جواب نہ دیا کہ بیگ کہاں سے ملا‘ لیکن یہ ضرور کہا کہ چلیے بہت اچھی بات ہے آپ تک پہنچ گیا آپ کا بیگ‘‘۔ میں تو بیگ ملنے کی خوشی میں بات کرنا بھی بھول گیا تھا۔ بیگ لے کر سب سے پہلے اس میں والٹ اور کرنسی چیک کی پھر دوسری چیزیں۔ سب چیزیں موجود‘ پوری اور ٹھیک تھیں۔ پھر مجھے ان سے بات کرنے کا خیال آیا۔ ''یہ میرا بیگ آپ کے پاس کیسے آیا‘‘؟ ''دراصل آپ سے پہلے ہم لوگ بورڈنگ کاؤنٹر پر کھڑے تھے اور ہمارے بیگ بھی ایسے ہی سیاہ اور ملتے جلتے ہیں۔ بورڈنگ پاس لے کر جب وہاں سے اپنے بیگ اٹھائے تو ایک ساتھی نے غلطی سے آپ کا بیگ اٹھا لیا۔ پھر اب چیک کیا اور آپ کو پریشان دیکھا تو آپ کو آواز دی‘‘ اس نے بالآخر پوری تفصیل بیان کر دی۔
بات سمجھ آنے والی تھی۔ یہ مغالطہ بالکل ممکن تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ میں کتنا سخت پریشان ہو گیا تھا۔ بیگ ملنے کے بعد اب میں کافی نارمل حالت میں آ چکا تھا۔ بات کرتے ہوئے ان چاروں کو دیکھا تو ایک دم ذہن نے خبردار کیا کہ یہ سب ایک جیسے کیوں ہیں؟ چاروں نوجوان صحت مند، دراز قد، تقریباً ایک جیسے کپڑوں میں ملبوس۔ خط و خال اور بالوں کا کٹ فوجیوں جیسا۔ دل نے کہا‘ یہ کسی ایجنسی کے لوگ ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا آپ استنبول جا رہے ہیں یا اس سے آگے؟ جواب ملا: ہم استنبول ہی جا رہے ہیں۔ انہوں نے میرے بارے میں پوچھا۔ میں نے مختصراً بتایا اور ہم ہاتھ ملا کر علیحدہ علیحدہ چل پڑے۔
آغاز غلط ہو جانے کے باوجود معاملات سلجھ گئے تھے۔ لاؤنج میں پہنچ کر سب سے پہلے تو بیگ کا ایک بار پھر مکمل چیک کیا۔ سب ٹھیک تھا۔ اب کئی سوالات سر اٹھانے لگے۔ کیا یہ سیدھا سیدھا چوری کا کیس تھا اور ہنگامہ مچنے پر بیگ واپس مل گیا یا یہ واقعی مغالطہ تھا اور جب غلطی واضح ہوئی تو انہوں نے میرا بیگ واپس دے دیا؟ یا ان لوگوں نے مجھے کسی شبے کی وجہ سے چیک کیا اور پھر بیگ واپس دے دیا؟ امکانات کئی تھے اور تصدیق کی کوئی صورت نہیں تھی۔ بظاہر تو یہ غلطی ہی سے ہوا تھا۔ ''چلو سعود! سب ٹھیک ہو گیا تو مٹی ڈالو‘‘ میں نے سوچا۔
سفر کا آغاز پھر گڑبڑ ہونے لگا۔ پرواز کے کچھ بعد میرا جی شدید متلانے لگا۔ واش روم گیا تو مجھے قے ہوئی اور ساتھ ہی بخار محسوس ہونے لگا۔ اندازہ ہو گیا کہ مجھے کسی چیز سے فوڈ پوائزننگ ہوئی ہے۔ بار بار واش روم جانا پڑتا حتیٰ کہ میں ڈیڑھ دو گھنٹے میں نڈھال ہو گیا۔ بخار سے پورا جسم پھنک رہا تھا۔ اب دوا کے سوا کچھ کھایا پیا نہیں جا سکتا تھا۔ نیا سورج طلوع ہوا اور صبح چھ بجے جہاز استنبول ائیر پورٹ پر اترنے لگا تو میرا یہ حال تھا کہ کھڑا ہونا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ لیجیے صاحب! اس شان سے ترکی میں ہمارا پہلی بار نزول ہو رہا ہے۔
عزیز حامد مدنی! آپ نے کیسی تجربے کی بات کہی تھی:
طلسمِ خواب زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں