''پھر یوں ہوا کہ پری زاد نے جادو کی چھڑی گھمائی۔ شہزادے نے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے کہ اس لق و دق ویرانے میں ایک حسین باغ کھلا پڑا ہے۔ فوارے چلتے ہوئے‘ خوبصورت پرندے طرح طرح کی بولیاں بولتے ہوئے‘ پھل دار درخت بوجھ سے لدے ہوئے رنگا رنگ پھول ہر طرف کھلے ہوئے‘ گلابوں کے تختے یہاں سے وہاں تک بچھے ہوئے‘ روشیں صاف۔ سبزہ کترا ہوا۔ سرو و سمن لہلہاتے ہوئے‘‘۔کہانیوں میں یہی ہوا کرتا ہے ناں؟ لیکن جو کچھ کہانی میں ہوتا ہے‘ حقیقی زندگی میں کہاں ملتا ہے۔ ویرانے باغ میں یکدم کہاں تبدیل ہوتے ہیں اور دشت آن کی آن میںکہاں آباد ہوا کرتے ہیں‘ لیکن صاحب! ہے اک ایسا دشت اور ایسا ویرانہ جو ہماری آنکھوں کے سامنے ایک دم آباد ہوا ہے‘ اور وہ بھی دیووں اور جنوں کی بھرپور مزاحمت کے باوجود۔ وہ سب دیو اور جن جو اب بوتل میں بند ہیں۔کہانیوں کے استعارے اور علامتیں ایک طرف رکھ دیں‘ تب بھی کراچی آرٹس کونسل کو ایک لہلہاتے باغ اور برادرم احمد شاہ کو اس پری زاد سے تشبیہ دیے بغیر بات بنتی نہیں؛ حالانکہ وہ خود شاہ ہیں۔ہم نے کبھی انہیں چھڑی اٹھائے پھرتے نہیں دیکھا‘لیکن کوئی اسم ‘کوئی طلسم تو ہے ان کے پاس کہ وہ یہ سب جناتی کام کر گزرتے ہیں۔باقی کام ایک منٹ کے لیے فراموش بھی کردیں تو ہر سال اتنی بڑی عالمی اردو کانفرنس کروانا ہی مبہوت کن ہے‘ جو بلا شبہ ادبی دنیا کے ادیبوں‘ شاعروں‘ لکھاریوں‘ فنکاروں کا سب سے بڑا اجتماع ہے اور پھر اس تواتر سے ہر سال اس کا انعقاد اور اسے بہتر سے بہتر بناتے جانا ‘کیا کوئی معمولی کارنامہ ہے؟
جمعرات 5دسمبر سے 8دسمبر 2019ء تک آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں 12ویں اردو عالمی کانفرنس شروع ہونے جا رہی ہے۔ اس کا جو پروگرام مجھ تک پہنچا ہے‘ وہ اتنا متنوع اور رنگا رنگ ہے کہ شاید یہ کانفرنسوں کے اس سلسلے کی سب سے وسیع تقریب ہوگی۔ان 4 دنوں میں کیسے کیسے سیشنز رکھے گئے ہیں۔اردو نثر‘ اردو ادب اور صحافت‘ اردو شاعری کا موجودہ منظر نامہ‘نعتیہ اور رثائی ادب‘غالب بزبان ضیا محی الدین‘علاقائی ادب‘اردو کی نئی بستیاں‘اردو فکشن کا معاصر منظر نامہ‘پاکستانی ثقافت‘عالمی مشاعرہ‘نوجوانوں کا مشاعرہ‘پاکستان میں فنون کی صورت حال۔معاصر اردو تنقید‘اردو کا شاہکار مزاح‘کتب کی تقاریب رونمائی‘نامور ادیبوں شاعروں کے ساتھ نشستیں‘موسیقی اور فنون کے بے شمار پروگرام۔کہیے! جون صاحب کا وہ مصرعہ یاد آیا؟ ع
ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے
لیکن ٹھہریے !ابھی سانس روک رکھیے۔کانفرنس کے شرکاء کے کچھ نام سن لیجیے۔شمیم حنفی‘ضیا محی الدین‘انور مقصود ‘زہرہ نگاہ‘اسد محمد خان‘ مستنصر حسن تارڑ‘کشور ناہید‘رضا علی عابدی‘انور مسعود‘افتخار عارف‘امجد اسلام امجد‘شکیل عادل زادہ‘امر جلیل‘پیرزادہ قاسم‘امداد حسینی‘مسعود اشعر‘ حسینہ معین‘زاہدہ حنا‘نورالہدی شاہ‘تحسین فراقی‘مجاہد بریلوی‘وسعت اللہ خان‘حامد میر‘سہیل وڑائچ‘اشفاق حسین۔ کتنے نام لکھے اور بے شمار نام تو ابھی رہتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے ادب اور فن کو زندگی کی پہلی ترجیح بنایا اور اب ایک ایک فرد ایسا ہے‘ جس پر مقالے اور کتابیں لکھی جاتی ہیں۔اتنے بڑے نام ایک چھت کے تلے کم کم یکجا ہوتے ہیں۔تنہا یہی کارنامہ بڑا ہے۔
اور بات صرف اردو کانفرنسوں کی ہی نہیں آرٹس کونسل نے کئی اطراف میں اپنے پر پھیلائے ۔اس نے یوتھ فیسٹول کروائے۔ایک سال کے اندر ایک ہزار سے زیادہ پروگراموں کا انعقاد کروایا۔آرٹ سکول‘ اور دیگر فنون کا اجراء کیا۔اب‘ ایک نئی عمارت پرانی عمارت کے پہلو میں اپنے بنیادی خد و خال کے ساتھ بلند ہوچکی ہے جو گراؤنڈ فلور کے علاوہ آٹھ منزلوں پر مشتمل ہے۔یہ بڑی عمارت انتظامی دفاتر ‘ریکارڈنگ سٹوڈیوز‘تھیٹر‘منی تھیٹر سمیت بہت سی ضروریات پوری کرتی ہے۔آرٹس کونسل کے مستقل عملے کی تعداد 100کے قریب پہنچ چکی ہے۔کیا کسی دور میں یہ سوچا بھی جاسکتا تھا کہ آرٹس کونسل کی سالانہ گرانٹ دس لاکھ سے بڑھ کر دس کروڑ تک پہنچ جائے گی؟
1948ء میں چند لوگوں کے فیصلے کے تحت کراچی فائن آرٹس سوسائٹی کے نام سے معرض وجود میں آنے والی یہ تنظیم بے زمین بھی تھی اور بے وسائل بھی۔1954ء میں یہ ادارہ دی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے نام سے منظم اور رجسٹرڈ ہوا۔ کمشنر کراچی نے 11270مربع گز پر مشتمل موجودہ قطعہ زمین اسے الاٹ کیا اور 1958ء میں عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب اہل ہنر فراواں بھی تھے اور فعال بھی۔لیکن گروہ بندیوں اور خود غرض سیاست نے جلد ہی اس کا وہ حال کردیا‘ جو بتدریج ہر اچھے ادارے کا ہوا اورجس کا میں نے شروع میں ذکر کیا۔اس ویرانے کا اندازہ شاید اب نہ ہو۔ پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے ۔میں کراچی آرٹس کونسل میں داخل ہوا۔ مغرب کے قریب کا وقت تھا۔سب سے پہلی نظر تین چار فربہ بلیوں پر پڑی‘ جو اس اطمینان سے مٹرگشت کر رہی تھیں‘ جیسے یہ ان کا مستقل ٹھکانہ ہواور یہ درست بھی تھا۔کسی اور کی نہ سہی یہ ان کی مستقل قیام گاہ تھی۔صحن کی صفائی شاید کافی عرصے سے نہیں ہوئی تھی۔سامنے ایک بے رنگ عمارت تھی ‘جس کے اجڑے ہوئے برآمدے میں ایک زرد روشنی پھیلاتا بلب لمبی تار کے ساتھ جھول رہا تھا۔.بلب کے نیچے کرسیاں ڈال کر کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ان کے چہرے پہچان میں نہیں آئے۔باقی عمارت بھی خانہ ٔ خالی کی تصویر پیش کر رہی تھی۔اکا دکا لوگ ادھر ادھر نظر آرہے تھے۔اکثر کمرے خالی یا بند تھے اور کسی طرح کی کوئی تقریب نہیں ہورہی تھی۔وہاں ٹھہرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا۔میں مایوس ہوکر باہر نکل آیا۔اندازہ ہوگیا کہ یہاں کا والی وارث ہی نہیں۔
خیر میرے اس مشاہدے کو چند سال گزرگئے‘پھر کچھ اچھی خبریں سننے کو ملنے لگیں۔2010ء میں پتا چلا کہ سابقہ عہدے داروں کی بجائے نوجوان اور فعال عہدے داروں کے ایک نئے پینل نے آرٹس کونسل کی باگ ڈور سنبھالی ہے اور وہ کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتا ہے ۔نئے سربراہ احمد شاہ کا نام ادھر ادھر سے تعریف اور تنقید دونوں کے ساتھ سنائی دینے لگا۔جلد ہی پہلی بار عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کی خبر ملی ۔ احمد شاہ کی مخالفت میں اور اضافہ ہوا۔وہ اگلا انتخاب اپنے پینل کے ساتھ پھر جیتا۔ یہ کانفرنسوں ‘پیش قدمیوں ‘پروگراموں‘مخالفتوں اور انتخابی کامیابیوں کے ایک لا متناہی سلسلے کا آغاز تھا ۔ ان دنوں آرٹس کونسل میں جب بھی جانا ہوا کوئی نہ کوئی پروگرام جاری تھا اور لوگوں کی اچھی تعداد موجود تھی۔احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی کارکردگی سے اپنے قدم بھی جمائے اور منہ بھی بند کیے۔فنون ِ لطیفہ سے منسلک لوگوں میں سیاسی‘ فکری ‘ نظریاتی اور گروہی اختلاف ہمیشہ ہوتا ہے ۔اتنے بڑے شہر میں دھڑے بندیوں ‘ نظریاتی ٹولیوں اور متحارب فریقوں کے درمیان قدم جمالینا انہی کا کارنامہ ہے اور وہ مختلف الخیال لوگوں کو ساتھ لے کر آج بھی بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں۔
کیا ہوا کام اپنے کرنے والے کی پہچان بنتا ہے ۔کراچی آرٹس کونسل نے ملک بھر کی آرٹس کونسلوں کو حیران کیا ہے ۔اس کا چہرہ جو پہلے کہیں نظر نہیں آتا تھا‘ اب نظر آتا ہے۔اس بار آج 5 دسمبر کو جو میلہ سجے گااس کے رنگ شاید پہلے سے زیادہ شوخ اورچہکتے ہوئے ہوں گے‘ اس کی ایک وجہ تو انتظامیہ کا سابقہ سالوں کا تجربہ ہے ۔ دوسرے کراچی کے بہت بہتر حالات۔ان کانفرنسوں میں سے تو بعض گولیوں اور گالیوں کی بوچھاڑ میں بھی ہوتی رہی ہیں ۔سو ‘اب تو ایک پر امن کراچی ہونے جا رہی ہے۔
کیا خیال ہے ؟ کراچی آرٹس کونسل کی تاریخ کو قبل از اور بعد از احمد شاہ کے ادوار میں تقسیم کردینا چاہیے؟ میں تویہ جملہ پیش بھی کرتا ہوں اور اس کی تائید بھی کرتا ہوں۔