"SUC" (space) message & send to 7575

ہلکورے دیتا حسن

آیا صوفیہ سے نیلی مسجد کی طرف جائیں تو گویا یہ قدیم جلال سے جدید جمال کی طرف سفر ہے۔ قوی ہیکل، بھاری بھرکم آثار میں ایک عجیب طرح کی گھٹن بھی تھی۔ آیا صوفیہ شکوہ کا نام ہے‘ نزاکت اور سبک پن کا نہیں۔ نکل کر تازہ فضا میں سانس لیا تو رکا ہوا دم بحال ہونے لگا۔ کچھ دیر ہی میں قدیم فضا سے نکل کر حقیقی دنیا میں آ گئے۔ ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ سے نکل کر باہر کھلی دھوپ، ہرے بھرے پارک اور تازہ ہوا میں آنا ایسا لگا جیسے ٹائم مشین نے یک لخت زقند بھر کر لمحۂ موجود میں لا اتارا ہو۔
استنبول کی فضا میں ایک عجیب قسم کی شادابی اور شگفتگی ہے۔ سمندر بلکہ سمندروں کے اتنا متصل ہونے اور تین اطراف سے سمندری پانی میں گھرے ہونے کے باوجود فضا میں عام طور پر وہ ناگوار بو اور پانی کی بساند نہیں ہوتی جو بہت سے ساحلی شہروں کی پہچان ہے۔ پھر آب و ہوا چونکہ معتدل اور خوشگوار ہے اس لیے وہاں پیدل چلنا نہ صرف یہ کہ کھلتا نہیں بلکہ زیادہ اچھا لگتا ہے۔ ویسے بھی کسی شہر کسی علاقے کو پیدل گھوم پھر کر دیکھنا ہی سب سے بہترین تعارف ہوتا ہے۔
آیا صوفیہ سے مسجد سلطان احمد تک پیدل کا راستہ ہے۔ ایک لحاظ سے آمنے سامنے۔ درمیان میں ایک خوب صورت پارک ہے۔ میں کچھ دیر کے لیے اس پارک میں بیٹھ گیا۔ نیلی مسجد میرے سامنے تھی۔ بھنی ہوئی مکئی کی چھلی استنبول میں عام سٹالز پر ملتی ہے اور مزے کی ہوتی ہے۔ اتنی مزے کی تو نہیں جیسا لاہور کا بھٹا بلکہ سٹا، لیکن پھر بھی مزے دار۔ نیم گرم دن میں باسفورس کی طرف سے آتی خنک ہوا بہت اچھی لگ رہی تھی۔ سیاحوں کا ہجوم تھا‘ جو نیلی مسجدکی طرف جا بھی رہا تھا اور دیکھ کر واپس آ بھی رہا تھا۔ میں اٹھا اور جانے والے ہجوم کا حصہ بن گیا۔ کچھ فاصلے پر رک کر مسجد کی عمارت کو دیکھا اور بے اختیار قدم رک گئے۔
پہلے تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ 1609-1616 کے دوران جب سلطان احمد کے حکم پر یہ مسجد بنائی گئی تو آیا صوفیہ استنبول کی مرکزی مسجد کے طور پر موجود تھی۔ اس کے علاوہ سلیمان اعظم کی بنائی ہوئی مشہور ترک ''معمار سنان‘‘ کی جامع سلیمانی (1557 عیسوی) بھی فاتح کے علاقے ہی میں استنبول کی دوسری بڑی مسجد کے طور پر بنائی جا چکی تھی۔ آیا صوفیہ اور معمار سنان کے طرز تعمیر نے میری رائے میں (جو ضروری نہیں ناقص ہی ہو) ترک مساجد پر خاص طور پر جو اثر ڈالا، اس کے بعد کا طرز تعمیر اس سے بہت مدت تک باہر نہیں نکل سکا۔ سال بھر کے موسموں سے مطابقت اور اس زمانے کی تعمیری انجینئرنگ کی محدود بساط بھی اس کی وجوہ میں سے ہو سکتے ہیں؛ تاہم دور سے دیکھنے میں سب ترک مساجد ایک جیسی لگتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ اسی طرز کے اندر بے شمار اختراعات اور تبدیلیاں ہر تعمیر میں موجود ہیں یعنی تبدیلیاں اپنی راہ بھی بناتی رہی ہیں۔ استنبول کی مسجدوں میں ایک مشترک انداز ضرور جھلکتا ہے لیکن ہر مسجد اپنی شان و شوکت اور عظمت کا الگ رنگ بھی رکھتی ہے۔ طیب اردوان کی حکومت کے بعد ان کی دیکھ بھال میں بدرجہا اضافہ ہوا اور ان کے لیے خطیر رقمیں بھی مختص کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود مسجد سلطان احمد سب سے جدا رنگ رکھتی ہے۔
نیلی مسجد ایک شاندار عمارت ہے۔ مختلف جسامت کے گنبدوں کی مختلف سطحوں پر مختلف المقاصد بناوٹ خاص ترکی تعمیر کی غماز ہے۔ پانچ بڑے اور آٹھ چھوٹے گنبد مسجد کی مرکزی عمارت کا حصہ ہیں۔ کوئی اور چھ مناروں والی مسجد بھی کم از کم مجھے یاد نہیں ہے۔ یہ منار بھی ترکی تعمیر کے مطابق پتلے اور نکیلے ہیں۔ عمارت کی بلندی اور وسعت آیا صوفیہ سے کم نہیں بلکہ کچھ نکلتی ہوئی ہے۔ لیکن اس پورے نقشے میں لدھڑ پن نہیں۔ نزاکت، سبک پن اور خوب صورتی ہے۔
نیلی مسجد دراصل مسجد، ملحقہ مدرسہ اور مقبرہ سلطان احمد کی عمارتوں پر مشتمل عمارات کا مجموعہ ہے۔ مسجد کے مسقف حصے سے پہلے ایک بڑا احاطہ ہے‘ جس کے وسط میں فوارہ اور وضو کے لیے جگہیں موجود ہیں۔ صحن کے بیچوں بیچ فوارہ اور حوض تھا‘ جسے ترکی میں ''سدروان‘‘ (sadirvan) کہتے ہیں۔ یہ حوض وضو خانے کا کام آج بھی انجام دے رہا ہے۔ میں نے تازہ پانی سے تازہ وضو کیا اور کھڑا ہوا تو لباس پر وضو کے پانی کے جابجا نشان دیکھ کر شکیب جلالی کا مصرعہ کچھ تبدیلی کے ساتھ یاد آیا۔
لباسِ جسم پہ تازہ وضو کے چھینٹے ہیں 
نظافت، صفائی، سلیقے میں دو مسلمان قومیں اگر سب سے آگے محسوس ہوئیں تو وہ ایرانی اور ترک ہیں۔ اور ان دونوں میں بھی ترک آگے ہیں۔ ترکوں کے با سلیقہ اور تہذیب یافتہ ہونے کا اندازہ عمرے اور حج کے دوران بھی ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد نہیں حج اور عمرے کے کسی سفر میں کسی ترک کو لڑتے جھگڑتے دیکھا ہو‘ حالانکہ یہ اکثر قوموں کے بارے میں روزمرہ کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ترکوں نے اپنی عمارات میں بھی اس سلیقے کا مظاہرہ ہمیشہ کیا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ بر صغیر میں بھی یہ سلیقہ ایرانیوں‘ خراسانیوں اور ترکوں کی دین ہے۔ 
آپ جب اس بڑے ہال میں داخل ہوں گے جہاں بہت بلند گنبدوں، بڑے بڑے گول ستونوں، ہاتھ کی بنی ہوئی نیلی ٹائلوں اور قرآنی خطاطی کے نمونوں سے نظر مبہوت ہو کر رہ جاتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس جمال، اس عظمت کے ساتھ ایک تیسری کیفیت آپ کے دل پر نزو ل کرے گی‘ جسے آپ ٹھنڈک کا نام دے دیں، ذوق جمال کی تسکین کے لفظ استعمال کر لیں یا سکون کہہ لیں۔ کچھ ہے جو آپ کے دل کو گرفت میں لیتی ہے لیکن بھینچتی نہیں۔ اسے ہلکورے دے کر جھلاتی ہے اور تپتے دل پر برف کے ٹکڑے دھرتی جاتی ہے۔
معمار سنان کا شاگرد، البانوی نژاد معمار ''صدف کار محمد آغا‘‘ موتیوں کے جڑاؤ کام کے ماہر کے طور پر جانا جاتا اور اسی لیے صدف کارکہلاتا تھا۔ محمد آغا شاہی معمار بھی تھا‘ سو اسے یہ ذمے داری سونپی گئی۔ سرخ سنگِ خارا (گرینائٹ) یورپ سے، سنگِ سماق (ایک تعمیراتی پتھر جو گھس کے بہت چمکیلا اور چکنا ہو جاتا ہے) اناطولیہ سے، سنگ مرمر بحر مرمرا کے جزائر سے منگوایا گیا۔ برصہ کے قریب ''ازنک‘‘ ایک ترکی شہر تھا‘ جہاں منقش، رنگین ٹائلز بنانے کا فن سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل چلتا رہا اور بالآخر دفن ہو گیا۔ 23 ہزار سے زائد ازنک ٹائلز مسجد کے وسط سے چھت کی طرف اوپر اٹھتی ہیں اور اپنے لاجوردی، فیروزی اور زمردی رنگوں سے نظر کو مبہوت کر دیتی ہیں۔ کھلتا ہوا نیلا رنگ غالب ہے اور یہی نیلی مسجد کی پہچان بھی ہے۔ چھت اور گنبدوں کی بلندی کے وسط سے بلند ترین مقام تک 200 مستطیل کھڑکیاں عمودی کھڑی ہیں۔ ان میں رنگین شیشے ہیں جن سے چھن کر آتی دن کی روشنی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ محراب پر سنگ یشب اور خالص سونے کا کام ہے جبکہ گنبدوں میں سونے کا پانی جابجا نیلے رنگ میں سنہری جھلملاہٹ شامل رکھتا ہے۔ اعلیٰ خطاطی میں ترکوں کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ عرب، ایرانی اور بر صغیر کے خطاط ان کے سامنے ہیچ ہیں۔ یہاں بھی خط ثلث، نسخ، طغریٰ اور کوفی میں کمال کے نمونے ہیں۔ ایسے کہ ایک ایک کو دیکھنے اور سر دھننے کے لیے وقت چاہیے۔ میں نے ایک ستون سے ٹیک لگائی اور اس وقت تک چھت کو دیکھتا، اسے سراہتا رہا جب تک گردن کی رگیں دکھ نہیں گئیں۔ لفظ اور تصویر کیا بیان کر سکتے ہیں؟ کوئی جملہ، کوئی نظم، کوئی غزل، کوئی تصویر، کوئی فلم کبھی حسن کو بیان کر سکے ہیں بھلا؟ نیلی مسجد کا تو ایک ایک کونہ حسن کا خزانہ ہے ‘ اور خزانہ کبھی مٹھیوں میں سمایا ہے؟
مسجد کے داخلے کے ساتھ کی صفیں سیاحوں کے لیے مخصوص ہیں۔ آگے رسی کی ایک حد فاصل ہے۔ نماز مغرب کی صفیں بنیں تو میں بھی ان میں شامل تھا۔ ترک لہجے کی قرأت میں وہی دل کشی اور حسن تھا جو ترکی طرز تعمیر کی مسجد میں۔ برف کا ایک اور ٹکڑا دل پر پگھلتا اور قطرہ قطرہ گھلتا رہا۔ 
ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں