"SUC" (space) message & send to 7575

جواہرات سے بھرے صندوق

میں بہت دیر اس کیفیت سے نہ نکل سکا اور نہ نکلنا چاہتا تھا‘لیکن وہ حصہ بھی دیکھناضروری تھا جو ہزانے‘ یعنی خزانے سے متعلق ہے اور شاید دنیا کے قیمتی ترین خزانوں میں شمار ہوتا ہے ۔خزانے کے کمرے بھی سلطان کے ذاتی رہائشی محل کا حصہ ہیں۔ ان کمروں کو آپ سونے اور جواہرات سے بھرے ہوئے مرصّع‘منقّش صندوق سمجھ لیں۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عام مال و زریہاں نہیں رکھا گیا ۔یہاں صرف وہی چیزیں رکھی گئی ہیں‘ جو بہت نادر اور خاص ہیں ۔ عام یہاں کوئی چیز نہیں ہے ‘اگر عام کہلانے کے لائق کچھ ہے تو وہ مفلس اور قلاش سیاح ہیں‘ جو توپ کاپے کا مہنگا ٹکٹ خریدنے کے بعد بار بار جیبوں کو ٹٹولتے رہتے ہیں۔کیا نہیں ہے اس محل میں۔بیرام تختی یعنی مرصع تخت ‘خالص سونے سے بنے ہوئے یا زرکاری سے مزین ۔عریف تختی جو سلطان احمد اول کاتخت ہے اور محمد آغا صدف کار کا بے مثال شاہ کار۔سلطان مراد چہارم کا تخت جو آبنوسی لکڑی پر موتیوں کے جڑاؤ کام کامرقع ہے ۔ مغل شہنشاہوں کا دیا ہوا تخت زریں۔زمرد‘ یاقوت اور ہیروں کے جڑاؤ تاج۔بلند اور اونچی سہ رنگہ دستاریں۔ انگوٹھیاں جن کی چمک دمک اب بھی نظر خیرہ کرتی ہے ۔گلو بند ‘ ہار اور لاکٹ ۔موتیوں کی جھالروں والے چاندی کے چھپر کھٹ ‘پاؤں کی بلائیں لینے کے منتظرنقرئی قدمچے ۔چاندی کی تھالیاں ۔ سونے کی رکابیاں۔سنگ یشب کے گلدان۔دنیا کے بہترین کاریگروں کی ہاتھی دانت کی زیور رکھنے کی صندوقچیاں۔ بلّور کے شمع دان ۔ مزین کاٹھیاں اور ریشم کے زین پوش‘ زربفت کی خلعتیں‘سنہری ریشمی سینہ بند‘ اون کی پوستینیں‘نفیس ترین کام دار چمڑے کی خورجینیں‘ طلائی مشکیزے ‘عطر گلاب کے پیالے ‘خالص سونے کی صراحی جو سلطان سلیم ثانی اور مرادثالث سے منسوب ہے۔ چاندی کے جوتے ‘ ریشمی غالیچے ‘ ہیروں بھرا عصا جو مغل تحائف میں شامل تھا۔ زار روس‘ ایرانی شاہ قاچار ‘قیصر جرمنی کے بیش قیمت جواہر۔دنیا بھر کے بادشاہوںکے نذرانے۔سلطان در سلطان منتقل ہونے والے ہیرے‘ اور قیمتی پتھر‘ زرہ بکتر‘کمانیں ‘ تیر‘خود‘تلواریں ‘خنجر ‘ذاتی اسلحہ۔یہ شہکار اور وہ فن پارہ۔ 
توپ کپے سرائے بنیادی طور پر رہائشی محل تھا اس لیے اس میں تمام وہ رہائشی ضروریات موجود تھیں‘ جوشاہی خاندانوں کو درکار تھیں۔سیاح ایک احاطے سے نکلتے دوسرے میں داخل ہوتے‘ ایک کمرے میں نوادرات دیکھتے اور اس سے ملحقہ کمروں کا چکر لگاتے۔ہر کچھ دیر بعد مجھے تازہ ہوا کی یاد بھی آتی‘ لیکن اس سے زیادہ شدت کی یاد سگریٹ کی ہوتی تھی ۔ میں کھلی فضا میں نکلتا‘سرد موسم میں شعلہ سلگاتا اور خوشبودار‘ جاں فزا کش لیتا تو لگتا کہ تازہ دم ہوگیا ہوں۔اب‘ یاد نہیں وہ کون سا احاطہ تھا ‘لیکن تھا وہ خزانوں والے کمروں کا۔وہاں سے کچھ دیر کے لیے تازہ دم ہونے نکلا تو بحر مرمرا کے رخ پر کئی ستونوں والی ایک بارہ دری سی نظر آئی ۔یہاں کافی دھواں اڑانے والے موجود تھے ۔ میں ایک ستون کے ساتھ کھڑا ہوگیا ۔فضا میں بادل بھی تھے اور دھوپ بھی ۔ سامنے دور تک رنگ بکھیرتا نیلا سمندر ۔سفید پرندے‘پانی پر تیرتی رنگ برنگی کشتیاں۔سلاطین کے کمروں سے نکلا تھا سو ایک پل کے لیے لگا کہ میں سلاطین کے زمانے میں زندہ ہوں۔کیسی خوب صورت طلسماتی فضا ہے ‘جو ایک ہی جیسی رہتی ہے ۔ اسے غرض نہیں کہ کون سلطان آتا ہے اور کون جاتا ہے۔کس نے کون سی زمین فتح کی اور کون سے علاقے میں ہزیمت اٹھانی پڑی ۔ محل میں سازشیں کیا ہیں اور کون سے پیالے میں زہر کی آمیزش کی گئی ہے ۔ 
جینز‘ جوگرز اور جیکٹ میں ایک یورپی لڑکی اسی ستون کے دوسری طرف آکھڑی ہوئی جہاں میں کھڑا تھا۔کھلتا چہرہ ‘ خوبصورت نقش اور سنہری بال۔اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگایا۔کچھ دیر ستون کے دونوں طرف دھویں کے مرغولے اُٹھتے رہے ۔ سگریٹ ختم ہوا‘ لیکن اس کی طلب ھل من مزید کی تھی ۔ اس کے پیکٹ میں سگریٹ ختم دیکھ کر میں نے اسے اپنا پیکٹ پیش کیا ۔ اس نے پہلے مجھے اورپھر سگریٹ برانڈکو دیکھا اور مسکراہٹ کے ساتھ سگریٹ قبول کرلیا ۔ ایک کش لیا اور بولی : ' ' یہ بہت لائٹ‘ لیکن مزے کا ہے۔شاید مجھے ایک اور چاہیے ہو‘ ‘۔ اس جادوئی فضا میں ایک خوبصورت ہم کلام لڑکی کے طلسم کا اضافہ ہوگیا تھا۔ہم نے ایک دوسرے کا تعارف حاصل کیا۔ایوا ہالینڈ کی رہنے والی تھی۔ انٹر نیشنل ریلیشنز کی طالبہ اور سیاحت کی شوقین ۔انگریزی کچھ اٹک کر بولتی‘ لیکن اپنی بات کہنے پر قادر تھی ۔وہ سہیلیوں کے ایک گروپ کے ساتھ استنبول آئی ہوئی تھی‘ جس کے باقی لوگوں کی توپ کپے میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی ۔ ہم کچھ دیر کھڑے سگریٹ پیتے اور گپ شپ کرتے رہے۔وہ پہلے بھی توپ کپے آئی تھی اور اس سے مسحور تھی۔سگریٹ ختم ہوئے‘ لیکن ملاقات ختم نہ ہوئی ۔ اتنی دیر میں وہ میری کافی کی دعوت قبول کرچکی تھی ‘اسے سمندر کے رخ پر اس خوبصورت کھلے ٹیرس اور کافی شاپ کا پتا تھا۔یہ ٹیرس اپنے نظارے کے اعتبار سے مبہوت کن تھا۔سامنے تا حدِ نظرنیلا سمندر‘آڑی ترچھی قوسیں بناتے پرندے اور استنبول کی جزیرہ نما ڈھلوانیں ۔ہم خود اس پہاڑی ڈھلوان کے تقریباً کنارے پر کھڑے تھے جو بتدریج سمندر سے ہم آغوش ہوجاتی تھی ۔ ایسی جگہ پہنچ کر بے اختیار جی چاہتا ہے کہ اس لمحے کو کسی طرح محفوظ کرلیا جائے لیکن افسوس کوئی کیمرہ ‘ انسانی آنکھ کے سوا‘ اس منظر کو قیدکرنے پر قادر نہیں ہے ‘ پھر بھی ٹیرس سے گزرتے ہوئے ہم نے ایک دوسرے کی تصویریں کھینچیں اور سنگ مرمر کی سیڑھیاں اتر کر ذرا نیچے کافی شاپ میں جا بیٹھے۔ سرد فضا ‘ گرم خوشبودار کافی ‘ سگریٹ اور ایوا ۔ کیا خبر اس کے کئی سال بعد کہا جانے والا یہ شعر اسی منظر کا اعادہ ہوا اور نہاں خانۂ دل سے اُٹھ کر آگیا ہو۔؎
تم ہو اور سردی میں خوشبو کافی کی 
میں نے شاید باقی عمر اضافی کی 
سورج بھی شاید ایوا کو دیکھ رہا تھا ‘گرتی کرنوں اور تیز جھونکوں میں اس کے کندھوں تک بال سونا بکھیرنے لگے۔وہ پرنسس آئی لینڈز‘ برصہ اور مارمریس جانا چاہتی تھی ۔تاریخی عمارتوں سے اسے عشق تھا‘ لیکن اس کی ساتھی لڑکیاں زیادہ وقت شاپنگ اور ہلے گلے میں گزارنے کی خواہشمند تھیں۔وہی آفاقی مسئلہ جو ہر جگہ ہے ۔ جو پسند آپ کی ہے وہ آپ کے ہم سفر کی نہیں ۔ ساتھی کے اپنے مسئلے ہیں اور اکلاپے کے اپنے‘لیکن اکیلے پن کی مصیبتیں پھر بھی کم ہیں۔میں نے دل ہی دل میں ایک بار پھر خود کو شاباش دی ۔ سعود عثمانی ! تم خوش قسمت ہو جو اکیلے سفر پر نکلتے ہو۔ابھی توپ کپے کے کافی کمرے دیکھنے رہتے تھے۔ہم آخری سگریٹ ختم کرکے اٹھے۔ایوا کے مطلوبہ کمرے وہ تھے‘ جہاں سے میں گزر کر آچکا تھا۔سو ‘ہم نے نمبرز اور ای میلز کا تبادلہ کیا ۔وہ رابطے جن پر کبھی رابطہ نہیں کیا گیا ۔دوبارہ ملنے کی امید کی گئی۔جس کی قطعاً کوئی امید نہیں تھی ۔ہر ایسی ملاقات جو اتفاقی بھی ہو اور عارضی بھی ‘پتا نہیں ایک کسک کیوں چھوڑ جاتی ہے۔ یہ کسک ایوا کو خدا حافظ کہنے سے پہلے بھی موجود تھی اور بعد میں بھی تا دیر موجود رہی ‘لیکن کیوں ؟محل کا آخری کمرہ میرے لیے بادشاہوں سے اکٹھے ملاقات کا کمرہ تھا۔ایک کمرے میں تمام سلاطین عثمانیہ کی بڑی بڑی روغنی تصویریں دیواروں پر آویزاں ہیں۔ارطغرل سے آخری سلطان عبد المجیدثانی تک۔سیاح ان بادشاہوں کے سامنے اونچی آواز میں ان کی شخصیات پر تبصرے کر رہے تھے‘ جن کے حضور آنکھ اٹھا کر دیکھنا محال تھا ۔سب میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ قدرے دراز قامت‘وجیہہ شخصیت ‘کھلتا رنگ ‘مخصوص اونچی اور عقابی ترک ناک ‘جس کے ساتھ خدوخال کا نقشہ بھی مخصوص۔
اونچی کلاہ ۔چہرے پر سلطانی اور جناب ! یاد رہے کہ سلیمان اعظم ہو یاترکی کا مرد ِبیمار کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی ‘کمرے بھر گئے ‘لیکن بادشاہوں کے دل نہ بھرے‘لیکن سعود عثمانی ! بادشاہوں کی کیا تخصیص ۔خود تمہارا دل کب بھرتا ہے ۔ درویشی کی تلقین بادشاہوں کے لیے ہی نہیں‘ اپنے لیے بھی بچا کے رکھو۔یہ آیت صرف سلاطین ترکی کے لیے نہیں اتری تھی: ' ' تمہیں کثرت (کی خواہش) نے ہلاک کردیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں‘ ‘۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں