"SUC" (space) message & send to 7575

ہن آرام ای ؟

بربادی‘ویرانی اور تباہی کے لفظوں کی تصویر بناتا ہوں تو آنکھوں میں خود بخود خوست ‘افغانستان کے بازار کی تصویر بنتی ہے۔ایسی بربادی اور ویرانی اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی نہیں دیکھی اور اللہ کبھی نہ دکھائے ۔جنگ زدہ علاقوں کی اس سے پہلے اور اس کے بعد صرف تصویریں ہی دیکھی تھیں ‘انہیں بذات خود نزع کے عالم میں کبھی دیکھا نہیں تھا۔یہ 1991ء کے غالباً اگست کے مہینے کی بات ہے ۔ افغان مجاہدین کو کابل کی نجیب اللہ افواج سے خوست چھینے ہوئے کچھ ماہ ہوئے تھے۔خوست وہ پہلا شہر تھا جس پر مجاہدین نے‘جو اس وقت طالبان کے نام سے نہیں جانے جاتے تھے‘قبضہ کیا تھا۔کہنے کو یہ شہر تھا‘ لیکن اس کے حالات قصبوں سے بدتر تھے یا شاید افغانستان کے شہر ایسے ہی ہوتے ہوں گے۔ایسا لگتا تھا کہ ہم دو تین سو سال پہلے کے عہد میں ایک ایسے شہر میں پہنچ گئے ہیں جسے کئی لشکر روند کر اور برباد کرکے گزرے ہیں۔میں ان تمام لوگوں کے ساتھ خوست کے مرکزی بازار میں کھڑا تھا جو ایک تنظیم کی دعوت پر وہاں آئے تھے۔
سخت مٹی کی ایک سڑک جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ گاہے گاہے مٹی اڑاتی تھی ‘دو طرفہ دکانیں جنہیں دکانیں کہنا ان پر تہمت سے کم نہیں تھا۔کبھی شاید یہ نیم پختہ دکانیں رہی ہوں گی‘لیکن اب تو ٹوٹے دروازوں ‘ اکھاڑی گئی چھتوں‘رخنہ رخنہ دیواروں اور توڑ دئیے گئے ٹین کے اندھے غار تھے۔اندر اندھیرے میں نظریں گاڑ کر دیکھیں تو لکڑی کے جھولتے تختے نظر آجاتے تھے جو کبھی شیلفوں کا کام کرتے ہوں گے ۔اب یہ سامان کے نہیں ‘تاریکی کے گودام تھے۔آوارہ بلیاں ‘اور کتے واحد ذی روح تھے جو کسی کسی جگہ ملبہ کرید کر کوئی ہڈی تلاش کرتے نظر آتے تھے۔بھری دوپہر اور تیز دھوپ میں بھی اس بازار سے خوف آتا تھا۔ مری ہوئی بستی میں زندہ بچ رہنے والا واحد رہائشی خوف تھا‘لیکن شاید صرف ہمارے لیے ۔مقامی مجاہدین اس سے بار بار گزرے تھے اور اب ان کیلئے یہ کوئی خوفناک چیز نہیں رہی تھی۔ 
1991ء کے افغانستان کے خوست ‘ گردیزکے اس دس روزہ سفر کی بہت سی تصویریں ہیں‘ لیکن ان پر روا روی کی نہیں ‘بلکہ مفصل تحریر درکار ہے ‘سو اسے کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں ‘ اس وقت تو امریکہ ‘طالبان کے درمیان اس جنگ بندی پر بات کرنی ہے جو ایک لمبی ‘ٹھنڈی ‘ آسودہ سانس کی طرح صدیوں جیسے سالوں کے بعد نصیب ہوئی ہے ۔اس معاہدے کے بارے میں بہت سی باتیں کہی جارہی ہیں۔ جتنے منہ اس سے زیادہ باتیں ۔ کسی بزرجمہر کا خیال ہے کہ امریکہ کو کامیابی ملی ہے ۔ کوئی اسے زلمے خلیل زاد کی بہترین سفارت کاری کا ثمر کہہ رہا ہے ۔کسی کا خیال ہے کہ امریکہ افغانستان کو امریکی ریاست بنانے تو آیا نہیں تھا‘وہ اپنے مقاصد پورے کر چکا تھا سو اسے جانا ہی تھا۔امریکی سیاسی حالات کے تجزیہ کار اسے سیاسی ضرورت سمجھتے ہیں ‘ کہ ٹرمپ کی سیاسی ضرورت تھی اس لیے اسے طالبان کی فتح قرار دینا جذباتی بات ہے ۔دوسرے نقطۂ نظر کے لوگ اسے صرف طالبان کی فتح سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ ایمانی طاقت کی آج کے دور میں مادیت اور ٹیکنالوجی پر معجزانہ فتح قرار دیتے ہیں ۔افغانوں کی جرأت و ہمت کی ایک اور مثال قرار دیتے ہیں اور اس نا قابلِ شکست ریکارڈ میں ایک اور سنہری باب کا اضافہ ۔ برطانیہ اورروس کے بعد ایک اور سپر پاور کو شکست فاش دینے کا میڈل۔لیکن مجھے تو چند سوال تنگ کر رہے ہیں ۔
میں خود سے بار بار یہ سوال پوچھتا ہوں ‘ لیکن مجھے افسوس ہے کہ ان کے جواب کے لیے نہ میں دوحہ میں موجود تھا نہ کابل میں۔صرف اندازہ ہوسکتا ہے‘صرف قیاس کیا جاسکتا ہے۔مجھے تجسس ہے کہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشین نے کلاشنکوفوں اورراکٹ لانچر والوں کے ساتھ ہاتھ ملاتے وقت کیا اس ہاتھ کی کرختگی دیکھی ہوگی ؟دنیا کے بہترین لباس پہن کر بہترین خوشبوؤں میں بسے ہوئے لوگوں کا گھیر دار شلواروں‘لمبے کرتوں اور عماموں والوں کے ساتھ برابری کا تعلق جوڑتے ہوئے دل ہلا ہوگا؟ہیبت ناک طیاروں ‘ہیلی کاپٹروں ‘دہشت ناک میزائلوں ‘خوفناک توپوں ‘رات کو دن بنا کر دیکھنے والی دوربینوں کو 29 فروری کے دن کچھ خفت ہوئی ہوگی ؟
روئے زمین پرا مریکہ کے دشمن کو کسی غار میں بھی پناہ نہ ملنے کے دعوے کرنے والوں نے کچھ شرمندگی محسوس کی ہوگی؟ خلا میں تیرتے پھرتے ‘ زمین کے اوپر سوئی تلاش کرلینے والے سیٹلائٹس کیا مٹی کے گھروں کی طنزیہ مسکراہٹ دیکھ سکے ہوں گے؟فضا میں ہدف تلاش کرتے پھرتے ڈرون طیاروں نے کیا ہمراہ اڑتے پرندوں سے آنکھیں چرائی ہوں گی ؟گوانتا نامو بے کے در ودیوار نے دوحہ کے سات ستارہ ہوٹل میں بیٹھے ان عمامہ پوشوں کو پہچانا ہوگا جو اس کے پنجروں میں زرد لباس پہنے زنجیریں چھنکاتے چلتے تھے؟ان افسروں نے ملا عبد الغنی برادر ‘ملا عبد السلام ضعیف کوروشن سکرینوں پر دیکھا ہوگا جنہوں نے ان کی ہتھکڑی ایک ہاتھ سے پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے ڈالر جیبوں میں ڈالے تھے؟ تکبر کی لا علاج بیماری میں مبتلا بستر بیماری پہ پڑے لوگوں کی بجھتی آنکھوں نے یہ منظر دیکھا ہوگا تونبض کی رفتار کیا ہوگی؟حامد کرزئی ‘ اشرف غنی کا ڈنک دوحہ کے دستخطوں کے بعد کتنا رہ گیا ہوگا؟ اب وہ اپنے آقاؤں کی کس پالیسی پر عمل کریں گے؟مودی اور ہندوستان کیا سوچ رہے ہوں گے؟ افغان پارلیمنٹ ہاؤس ‘ڈیمز ‘ قونصل خانوں سمیت بہت سی خرچ کی ہوئی رقم ڈوب گئی ہے یا بنیے کو ابھی کچھ امید باقی ہے ؟
سوال ختم نہیں ابھی شروع ہوئے ہیں ۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جیسا طاقت ور عہدے والا کسی کمزور ملک کے دورے پر بھی بمشکل جاتا ہے ۔اس نے دوحہ میں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنا کیسے گوارا کیا‘ جن کی حکومت کو وہ مانتا ہی نہیں؟ دنیا کی طاقت ور ترین فوج نے ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کیوں قبول کیے جنہیں وہ دہشت گرد‘ وحشی ‘ دنیا کے امن کے لیے خطرہ کہہ کر دنیا کو ڈراتی رہی تھی ؟امریکی کٹھ پتلی افغان حکومت کی سر توڑ مخالفت کے باوجود امریکہ کیوں بات چیت پر مجبور ہوا؟ سپر پاوراشرف غنی کاکوئی نمائندہ فریق کے طور پر افغان امن معاہدے میں شامل کیوں نہ کرواسکی ؟ناٹو ممالک سمیت 40 ترقی یافتہ ‘دولت مند ممالک نے امریکہ کے اس فیصلے پر کیا محسوس کیا ہوگا کہ ان لوگوں کے ساتھ معاہدہ کیا جائے جنہیں نیست و نابود کرنے وہ ٹیلوں والی سرزمین پر اترے تھے؟کیا اتحادی ممالک نے کبھی9/11کے واقعے کی درست تحقیقات کی ضرورت سمجھی ؟کیااتحادی ممالک اس بے انصاف افغان جنگ میں امریکی ایما پر نوجوان جھونک دینے پر کوئی شرمندگی محسوس کرتے ہیں ؟کیا یہ کتابی کلیہ درست ثابت ہوگیا کہ ٹیکنالوجی آج بھی انسانی عزم سے کمتر ہے ؟کیا دنیا کے دولت مند ترین لوگ مٹی پر بیٹھ کر کھانے والوں اور ملگجا پانی پینے والوں سے ہار گئے ؟دنیا بھر کے میڈیا کے اس منہ پر تالے کیوں پڑ گئے جو داڑھی پگڑی والے کسی طالبان کو دیکھتے ہی کھل جاتے تھے؟دہشت گرد کی جو تعریف اور حلیہ مغرب نے طے کیا تھا اس کا کیا بنے گا؟طالبان کے وحشیانہ ‘ بربریت کے مظاہروں اور خواتین کے ساتھ بد سلوکی کی ویڈیوز اور تصویریں آج کہاں پڑی ہیں؟ افغان بھی وہی ہیں ‘ طالبان بھی وہی اور خواتین بھی وہی ۔ کوئی نئی خبر‘ کوئی نئی ویڈیو کیوں دیکھنے میں نہیں آرہی ؟
بالآخر افغانستان سے نکل جانے والی سپر پاور اب کون سا نیا ہدف تلاش کرے گی؟ خود امریکی محکمہ دفاع کے اعدادوشمار کے مطابق 3459 زندگیاں مٹی کی نذر کردینے ‘20,000 زخمیوں کے بعد ‘ہزاروں نفسیاتی مریض بنا دینے کے بعدکیاامریکہ اپنے سود و زیاں کا حساب کرے گا؟ایک ہزار ارب ڈالر اور بے شمار جوانوں کی زندگیاں جھونک کرکیا ملا؟کوئی تسکین ؟کوئی مادی فائدہ ؟ کوئی اخلاقی فتح؟ امریکی طاقت کے رعب میں اضافہ ؟امریکی نفرت میں کوئی کمی ؟ پنجابی میں ایسے موقع پرایک جملہ طنزیہ کہا جاتا ہے۔ وہی امریکہ سے پوچھنے کو دل چاہتا ہے اور وہ یہ کہ'' ہن آرام ای‘‘ ؟ (اب آرام ہے ؟)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں