وہ منظر آنکھوں کے سامنے دوبارہ پھر گیا۔ ہم ٹرین کے ذریعے لاہور سے کراچی جارہے تھے۔ ریل جنوبی پنجاب کے ہرے بھرے علاقے سے گزر رہی تھی۔ عصر اور مغرب کے درمیانی وقت میں عجیب اداسی پھیلی ہوئی تھی۔ دیکھا کہ گنے کی لدی ٹرالیاں قطار اندر قطار ایک دوسرے کے پیچھے کھڑی ہیں۔ وہ ٹریکٹر ٹرالیاں جو اپنے انجن بند کرکے اپنی باریابی کی منتظر تھیں۔ ریل سڑک کے ساتھ چلتی گئی۔ ٹرالیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھیں۔ بلا مبالغہ سینکڑوں لدے کھیت جنہوں نے کہیں پہنچنا تھا لیکن پہنچ نہیں رہے تھے۔ ایک قطار ختم ہوئی تو دوسری شروع ہوگئی۔ یہ جو ٹرالی میرے سامنے ہے وہ دروازے تک کب رسا ہوگی؟ آخر ایک ٹرالی کو کتنا انتظار کرنا پڑتا ہے شوگر مل میں داخلے کے لیے؟ خوشی کی بات یہ تھی کہ ملک میں گنے کی اتنی پیداوار ہے اور دکھ کی یہ کہ انہیں قیمت دینے والا کوئی نہیں۔ جو ہے وہ کھلے آسمان تلے انہیں کئی کئی دن انتظار کروا کر، ذلیل کرکے شوگر مل میں داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ جو سنا تھا اس پر یقین آ گیا کہ اپنی باری دوسرے کے ہاتھ بیچنے کی بھی قیمت ہے۔ اور مجبور کسان سے سرکاری قیمت سے بہت کم پر گنا خرید لینے کا حربہ بھی۔ جتنی جلدی ادائیگی، اتنی کم قیمت۔ پسے ہوئے کاشت کار، ذلیل ہوتے طبقے کو ذلیل تر کرنے کے متعدد حربے جنہیں کاروبار کہنا بھی کاروبار کی توہین ہے۔ ٹرین رس بھری ٹرالیوں کے ساتھ ساتھ دیر تک دوڑتی رہی حتیٰ کہ رات نے سب پر پردہ ڈال دیا۔
آخر چینی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ محاورے میں بلّی کا تھیلے سے باہر آنا اتنا دھماکہ خیز ہرگز نہیں رہا ہوگا جیسا چینی کا۔ یعنی اس کی رپورٹ کا جو ابھی منظر عام پر آئی ہے اور جس میں نیک نام افسر واجد ضیا نے اپنی تحقیقات کا انکشاف کیا ہے۔ اس رپورٹ کے بارے میں وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے احتساب شہزاد اکبر اور وزیر اطلاعات شبلی فراز نے جو پریس کانفرنس کی اور اہم نکات بتائے وہ بذات خود دھماکہ خیز ہیں لیکن اس پر کسی تبصرے سے پہلے ان نکات پر ایک نظر ڈال لیں۔
شوگر فورانزک کمیشن (SFC) حالیہ دنوں میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں یک دم اضافے کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا تھا اور اس کی سربراہی قابل افسر جناب واجد ضیا کے سپرد تھی۔ کمیشن نے بہت باریک بینی سے ان معاملات کا جائزہ لیا اور جو نتائج پیش کیے ان میں درج ذیل چونکا دینے والے ہیں:چھ بڑی چینی کی ملیں کارٹلز بنا کر کام کر رہی ہیں۔ (کارٹل مختلف لوگوں یا کمپنیوں کے ایسے تجارتی اکٹھ کو کہتے ہیں جو کسی مشترکہ کاروبار، فائدے کے لیے کاروباری مسابقت چھوڑ کر زبانی اور عملی طور پر ایک ہو جائیں)۔ یہ ملیں مجموعی رسد کا 51 فیصد پورا کرتی ہیں۔
ایک شوگر مل نے، جس کا تعلق رحیم یار خان سے ہے اور جس کے ایک حصے کے مالک پی ایم ایل کیو کے رہنما مونس الٰہی بھی ہیں، 2014 سے2018 کے دوران گنے کے کاشتکاروں کی رقم میں منظم طریق کار سے 11-15 فیصد کٹوتی کی‘ جس کی مجموعی رقم 970 ملین روپے بنتی ہے۔ اس سے گنے کے کاشت کاروں کو بہت بڑا جھٹکا لگا۔ مل نے چینی کی فروخت کم کرکے ظاہر کی اور بے نام خریداروں کو چینی فروخت کی جو قواعد کی خلاف ورزی تھی۔
ایک شوگر مل کے 21 فیصد کے حصے دار پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس مل نے ڈبل بکنگ، اوور انوائسنگ، اور انڈر رپورٹنگ کی ہے۔ گنے کے پھوک اور شیرے کی انڈر انوائسنگ بھی کی جس سے لاگت میں 25 فیصد کا اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ مل سے پرائیوٹ کمپنی میں رقم کی منتقلی میں بھی غیر قانونی کام کیے گئے۔ پیشگی فروخت (فارورڈ سیل)، سٹہ، اور بغیر نام کی فروخت میں بھی مل ملوث ہے۔
ایک شوگر مل جناب سلمان شہبازکی ملکیت ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس نے غلط رسیدوں اور مارکیٹ میں غلط طریقے سے دخل اندازی کی بنا پر 400 ملین روپے کا فراڈ کیا۔ کئی شوگر ملوں نے بے ضابطہ رسیدوں پر کام کیا‘ جس سے بالآخر گنے کے کاشت کار کو نقصان ہوا کیونکہ کوئی باضابطہ ریکارڈ موجود ہی نہیں تھا۔ مل مالکان نے لاگت امدادی قیمت سے زیادہ ظاہر کی جس کا مطلب یہ ہے کہ کاشت کار کو کم پیسے ملے۔ 2017-18 میں لاگت 51 روپے فی کلوگرام ظاہر کی گئی جبکہ رپورٹ کے مطابق لاگت 38 روپے تھی۔2018-19 میں لاگت 52.60 روپے بتائی گئی جبکہ اصل لاگت40 روپے تھی۔ کاشت کاروں سے گنا کم قیمت میں خرید کر زیادہ قیمت میں ظاہر کیا گیا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ ملوں کی چینی میں موجود سکروز (surcose) کی مقدار 9.5 تا10.5 فیصد تھی جو بین الاقوامی معیار سے کم تھی۔
رپورٹ کے مطابق شوگر ملیں کاشت کاروں سے غیر قانونی بنکنگ میں بھی ملوث ہیں۔ اس خلاف ضابطہ کام سے ملوں کو 35 فیصد تک فائدہ اور کاشت کاروںکو نقصان پہنچا۔ یہ دہری ناانصافی تھی۔ ایک طرف لاگت بڑھا کر پیش کی گئی اور دوسری طرف مارکیٹ میں غلط طریقے سے دراندازی کی گئی‘ جس سے عوام کو نقصان پہنچا۔ اسی کے ساتھ ساتھ دُہری اکاؤنٹ بکس بھی رکھی گئیں۔ گنے کی خریداری 25-30 فیصد کم ظاہر کی گئی اور ٹیکس بچایا گیا۔ یہ بڑا فراڈ ہے۔ سندھ کے ایک گروپ نے سندھ حکومت کی طرف سے خاص سبسڈیز کا فائدہ اٹھایا۔ اس سلسلے میں جناب مراد علی شاہ کا نام لیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب وفاقی حکومت سے پہلے ہی سبسڈی دی جا رہی تھی تو وزیر اعلیٰ سندھ نے صوبے کی طرف سے الگ سبسڈی کیوں دی؟ شہزاد اکبر صاحب نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ چینی کی لاگت کے بارے میں آزادانہ تحقیقات کروائی گئیں۔ ان کے مطابق بہتر نظام کیلئے نیب، سٹیٹ بینک، ایف آئی اے جیسے اداروں کو اقدامات کرنے چاہئیں اور جو رقم لوٹی گئی ہے اسے بازیاب کرکے کاشت کاروں پر خرچ کرنی چاہیے۔
یہ تو تھے رپورٹ کے نکات۔ اور یہ صرف اہم نکات ہیں۔ ان پر تبصرہ نہیں۔ جن لوگوں کی طرف انگلیاں اٹھیں ان میں سے چند نے اس پر وضاحت بھی پیش کی۔ جناب جہانگیر ترین نے ٹوئٹر پر کہا کہ مجھے ان بے بنیاد الزامات سے جھٹکا لگا ہے۔ سارا پاکستان جانتا ہے کہ میں کاشت کاروں کو پوری رقم ادا کرتا ہوں۔ میں دہرے اکاؤنٹ نہیں رکھتا اور تمام ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ میں ایسے سارے بے بنیاد الزامات کا جواب اور ثبوت دیتا رہوں گا۔ جناب مونس الٰہی نے علیحدہ ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ میں پہلے بھی واضح کر چکا ہوں کہ میں نہ کسی بھی شوگر مل کے منتظمین میں ہوں، نہ بورڈ کا رکن ہوں۔ میں اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ سٹہ کی روک تھام کے لیے اقدامات اور قانون سازی کی جائے۔
اس رپورٹ اور اس کے ردعمل پر تبصرہ ابھی چھوڑیے، ابھی تو صرف یہ دیکھیے کہ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، نون لیگ، قاف لیگ سمیت تمام لوگ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے متحد ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کے حریف، سخت مخالف اور ایک دوسرے کی کرپشن سرعام افشا کردینے کے دعویدار۔ یہ سب چینی کے ایک فائدے میں شریک ہیں۔ وہ فائدہ جو ہر عہد حکومت میں متعلقہ لوگوں تک پہنچتا رہا ہے‘ اور جو خواہ چشم پوشی کی وجہ سے ہو، خواہ بدانتظامی کی وجہ سے ہو، قانونی سقم کی وجہ ہو یا طریق کار میں دانستہ چھوڑے گئے شگاف وجہ ہوں۔ جن کی بنا پر کسی کو عدالت میں لانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ گنا اگانے والے کو پیسے حق سے کم دئیے گئے اور میری جیب سے قیمت زیادہ نکال لی گئی۔
جو نتائج چینی کی رپورٹ میں نکالے گئے ہیں وہ درست ہیں یا غلط، سیاسی دشمنی ہے یا پہلی بار غیر جانبدارانہ تحقیقات۔ سب طرح کی باتیں کہی جا رہی ہیں اور یہ چلتی رہیں گی‘ لیکن وزیر اعظم عمران خان کی تعریف کیے بغیر بات نہیں بنتی۔ انتہائی جرأت مندانہ قدم اٹھانا انہی کے بس کا تھا۔ اس کے شدید زخم ان کی پارٹی کو لگ سکتے ہیں اور ان کی صوبائی حکومت کو بھی۔ کیا وہ اس کے اثرات سے کامیابی سے نکل سکیں گے؟اگر یہ نتائج درست ہیں تو ان پر کیا تبصرہ کروں؟ یہ رپورٹ خود ایک تبصرہ ہے۔ لیکن تبصرہ ہی کرنا ہو تو یہی کہوں گا کہ چینی اوراتنی کالی۔ چینی اور اتنی کڑوی؟