"SUC" (space) message & send to 7575

کچھ نہیں کرسکتے تو معذرت ہی کرلیں

اقبال عظیم مرحوم کا شعر ہے 
آدمی اس زندگی سے بچ کے جائے بھی کہاں
مے کشی بھی جرم ہے اور خود کشی بھی جرم ہے
شعریاد اس لیے آیا کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی زیادتیوں سے آپ کسی طرح محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ہر طرح اس کا ظلم اور نا اہلی آپ کو ہی بھگتنی پڑتی ہے ۔ویسے تو محکمہ کئی طرح کے ٹیکس وصول کرتا ہے اور ہر ایک کی کہانی الگ الگ ہے ‘ لیکن جائیداد اور سواری پر جو ٹیکس ہیں ان سے واسطہ تو ہر ایک کو پڑتا ہے ۔کہاں تک بچیں گے آپ ؟آخر رہنے کے لیے ایک چھت تو آپ کو چاہیے ۔محکمے کے پراپرٹی ٹیکس ہر کچھ ماہ بعد بھرتے رہیے اور خون کے گھونٹ پیتے رہیے ۔ کوئی موٹر سائیکل ‘ کوئی گاڑی تو آخر آپ خریدیں گے ہی کہ یہ زندگی کی ضروریات میں شامل ہے ‘بس یہاں سے آپ محکمے کے دوسرے چنگل میں گرفتار ہوگئے ۔ تاد م حیات بچوں کی تعلیم میں سے کٹوتی کرکے جرمانے ادا کرتے رہیے۔اگر کاروباری علاقے میں کوئی دکان آپ کی ملکیت ہے تو اب آپ ایکسائز انسپکٹروں کے ظلم سے بچنے کے لیے سفارشیں بھی کرواتے رہیے اور اپنا پیٹ کاٹ کران کے من مانے ٹیکس بھی جمع کراتے رہیے ۔اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد پراپرٹی سیل ہونے کی دھمکیاں بھی سہتے رہیے۔2011ء کی بات ہے۔ میں نے ایک ان رجسٹرڈ گاڑی خریدی ۔ یہ قانون لاگو ہوچکا تھا کہ گاڑی پر سرکاری نمبر پلیٹس ہی لگائی جاسکتی ہیں ۔رجسٹریشن کی فیس الگ اور سرکاری نمبر پلیٹس کی فیس الگ‘یہ پیشگی دھروالی گئیں لیکن نمبر پلیٹس نہیں دی گئیں ۔پتہ چلا کہ بے شمار نمبر پلیٹس تیار ہونی باقی ہیں اس لیے شاید ایک سال بعد نمبر پلیٹس ملیں گی ۔ اس دوران کیا کیا جائے؟ محکمے کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی ۔بازار سے اپنی نمبر پلیٹس بنوا کر لگوالی گئیں ۔ ایک دن ائیر پورٹ سے اپنے کچھ عزیزوں کو لے کر نکل رہا تھا کہ ٹریفک پولیس والوں نے روک لیا ۔ اعتراض تھا کہ سرکاری نمبر پلیٹس کیوں نہیں لگائی ہوئیں ؟‘انہیں رسید دکھائی گئی ۔زبانی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن بے سود۔مہمان گاڑی میں موجود‘کسی جگہ پہنچنے کا وقت تنگ‘ میں پریشان ۔لیکن یہ فرض شناس اتنی بات سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے کہ سرکاری پلیٹس مجھے کیا کسی کو بھی نہیں مل رہیں ۔ایک گھنٹہ ضائع کرنے ‘جھک مارنے کے بعد خلاصی ہوئی اور وہ بھی اس تنبیہہ کے ساتھ کہ جلد از جلد نمبر پلیٹس لے کر لگوائیں ۔
جلد از جلد؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ نمبر پلیٹس مجھے چار سال بعد ملیں ۔اس دوران کئی مرتبہ مجھے اسی جرم میں روکا گیا کہ نمبر پلیٹس کیوں نہیں لگوائیں ۔؟محکمے کی نااہلی اور کاہلی کی سزا میں نے یا بحث میں وقت کے ضیاع کی صورت میں بھگتی یا چالان کی صورت میں اور یہ محض2011ء کی بات نہیں ۔9سال کے بعد 2020ء میں بھی صورتحال یہ ہے کہ محکمہ ایکسائز نے ایک اندازے کے مطابق لاکھوں نمبر پلیٹس کے پیسے لے رکھے ہیں لیکن پلیٹیں تیار نہیں ہیں ۔ مہینوں نہیں سالوں کے اعتبار سے تاخیر ہے۔ محکمہ نہ اس پر شرمندہ ہے ‘نہ معذرت خواہ ۔یاد رکھیں یہ وہ محکمہ ہے جو لوگوں سے ٹیکس وصولی میں ایک دن تاخیرہوجانے کی صورت میں جرمانے ٹھونک دیتا ہے ۔خواہ وہ ٹوکن ٹیکس ہو‘پراپرٹی ٹیکس یا رجسٹریشن ٹیکس۔عام آدمی پابند ہے کہ وقت پر رقم جمع کرائے ورنہ جرمانہ ادا کرے ۔محکمہ چاہے اپنی نااہلی کی وجہ سے چار چار سال تاخیر سے کام پورا کرے ۔ کوئی جرمانہ ‘ کوئی معذرت‘کوئی پشیمانی نہیں ۔اور اس کی کہیں شنوائی بھی نہیں ۔ تو ظلم کے سر پر کیا سینگ ہوا کرتے ہیں ؟تازہ واقعہ سن لیجیے ۔ چند ماہ پہلے پچھلی گاڑی بیچ کر میں نے نئی گاڑی خریدی ۔ یہ رجسٹرڈ گاڑی تھی اس لیے نمبر پلیٹس کے مسئلے سے بچ گیا لیکن ٹرانسفر فیس جمع کرانی اور سمارٹ کارڈ حاصل کرنا تھا۔پہلا مسئلہ تو یہی تھا کہ ایجنٹوں کے بغیر متعلقہ دفتر میں رقم جمع کرائی جائے تو کیسے ؟ اس لیے کہ براہ راست کام ہونا بے حد مشکل ہے ۔ کوئی سفارش ڈھونڈ کر رقم جمع کروائی گئی اور رسید حاصل کی گئی لیکن سمارٹ کارڈ نہیں ملا۔معلوم ہوا کہ کئی ماہ لگیں گے پھر یہ کارڈ آپ کو بھیجا جائے گا۔ اس وقت تک رسید سے کام چلائیے۔ پولیس والوں سے بحثیں کیجیے۔چالان بھریے اور عیش کیجیے ۔ چار ماہ ہوچکے لیکن نہ کارڈ ملتا ہے ‘نہ کوئی میسج کہ آخر مزید کتنی تاخیر ہوگی ۔ اگر اس دوران رسید گم گئی تو آپ اس سہارے سے بھی گئے ۔اور یہ میرا نہیں ہزاروں لوگوں کا معاملہ ہے ۔اگر محکمہ ایکسائز سمارٹ کارڈ نہیں دے سکتا‘نمبر پلیٹس کا انتظام نہیں ہے تو یہ قوانین لاگو ہی کیوں کیے گئے ۔اور یہ رقم پیشگی کیوں لے لے گئی ؟ہے کوئی جو مجھے محکمے سے جرمانہ دلوائے؟
پراپرٹی ٹیکس کا سن لیجیے ۔ گھر کاپراپرٹی ٹیکس کا نوٹس ہر سال وصول ہوتا ہے۔پہلے سال وصول ہوا تو دیکھا کہ گھر کے رقبے سے کافی زیادہ رقبہ نوٹس میں لکھا ہوا تھا۔اس لیے ٹیکس کی رقم بھی بے حد زیادہ لگی ہوئی تھی ۔نام بھی غلط درج تھا۔پہلا سوال تو یہی ہے کہ جب رجسٹری ضابطے کے مطابق سرکاری ریکارڈ میں جمع کرادی گئی جس میں نام اور رقبہ واضح لکھا ہوا ہے تو یہ غلطی سراسر نا اہلی ہے ۔لیکن یہ بات مگرمچھ سے کہے کون؟متعلقہ انسپکٹر کو فون کیا ‘انہوں نے ایک بیزار کن ‘مدہوش لہجے میں فرمایا کہ آپ کو دفتر آنا پڑے گا۔ سارے کام چھوڑ کر حاضری دی تو معلوم ہوا چھٹی پر ہیں ۔ پھر گئے تو سیٹ پر نہیں تھے۔کئی بار کوشش کے بعد ملے تو کہا کہ رجسٹری کی کاپی لے کر آئیے ۔ احتیاطاً کاپی ساتھ لے لی گئی تھی جو پیش کردی گئی ۔ لے کر ایک طرف رکھ دی ۔یقین تھا کہ نہ درستی ہوگی نہ کاپی محفوظ کی جائے گی ۔ یہ صرف ٹالنے کی کوشش ہے ۔ یہی ہوا بھی ‘ اگلی بار وہی غلطیاں ‘ وہی ظالمانہ ٹیکس‘وہی رجسٹری کی کاپی کا مطالبہ اور وہی ان کے دفتروں کے پھیرے ۔ ظلم کے سر پر کیا سینگ ہوا کرتے ہیں ؟ اور ابھی تو کاروباری جائیداد کے پراپرٹی ٹیکس کی ہوش ربا تفصیل رہتی ہے۔اس کالم میں گنجائش نہیں اس لیے پھر کبھی سہی ۔ ہر علاقے میں یہی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔زیادہ تر اس وجہ سے کہ لوگوں کو تنگ کیا جائے تو نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ باقی کام چوری اور نا اہلی کی وجہ سے۔اور کلرکوں‘ انسپکٹروں اور افسروں کی ایک تعداد وہ بھی ہے جوبے بس لوگوں کو گڑگڑاتے اور چکر لگاتے دیکھ کر خوش ہوتی ہے ۔اور اب خبر پڑھی ہے کہ محکمہ ایکسائز ان گاڑیوں کے خلاف مہم شروع کر رہا ہے جنہوں نے ٹوکن جمع نہیں کرائے ہوئے ۔تازہ مہم میں محکمہ ان مجرموں سے رقم وصول کرکے دم لے گا۔یعنی مجھے سمارٹ کارڈ نہ دینے والے اب میرا چالان کریں گے کہ تم نے سمارٹ کارڈ کیوں نہیں بنوایا۔ہے کہیں کوئی خلاصی کی صورت؟ کہیں سے انصاف پانے کی امید ؟کوئی کنزیومر کورٹ جو اس ظلم سے روک سکے ؟ہائی کورٹ کا کوئی جج جو سوموٹو ایکشن لے سکے؟کوئی وزیر ؟ کوئی وزیر اعلیٰ؟ کوئی رکن اسمبلی ؟کہنے کو اس صوبے کا ایک وزیر اعلیٰ بھی ہے ‘ اس محکمے کا ایک وزیر بھی ہوتا ہے ۔ محکمے کے اعلیٰ افسران بھی ہیں ‘لیکن سچ یہ ہے کہ عملًا کوئی بھی نہیں ہے ۔ عملاًصرف ایک با اختیارکا زور اور ایک بے بس عام آدمی کی بے بسی ہے ۔ باقی سب تماشا دیکھنے کے لیے ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں