لکڑی کی تختی پر انگوٹھے، ہتھیلی اور تین انگلیوں کی گرفت مضبوط کیے میں ملتان روڈ پار کرتا اور سمن آباد کی طرف چل پڑتا۔ تختی پکڑے پکڑے اور جھلاتے ہوئے مجھے سکول تک پہنچنا ہوتا تھا اور ہتھیلی کچھ دیر بعد درد کرنے لگتی تھی۔ چھٹیوں کی بات الگ لیکن روز میں سمن آباد موڑ والے اپنے آبائی گھر سے نکلتا اور پہلے گول چکر سمن آباد موڑ کے قریب اپنے سکول پیدل جاتا تھا۔ یہ ایک درمیانہ سا بلکہ درمیانے سے بھی قدرے کم درجے کا اردو میڈیم سکول تھا جہاں متوسط اور سفید پوش گھرانوں کے بچے زیادہ تھے۔ پہلے یہ پرائیویٹ سکول تھا‘ لیکن بعد میں بھٹو صاحب کی حکومت کے دوسرے غلط فیصلوں کے ساتھ ان سکولوں کو بھی قومیا لیے جانے کا عذاب برداشت کرنا پڑا تھا۔ میری کمر پر بستے کا پٹھو تھا جو کچھ دیر بعد کافی تکلیف دہ بن جاتا تھا۔ پھر اسے دائیں کندھے پر لٹکا لیا جاتا اور وہ بھی دکھ جائے تو بائیں کندھے پر۔ تیسری سے آٹھویں جماعت تک یہ راستہ میرا روز کا راستہ تھا۔ اس کے موڑ اور پیچ و خم مجھے ازبر تھے اور اس کے راستے میں آنے والے خوبصورت گھر، باغیچے پھول اور پودے زبانی یاد تھے۔ سمن آباد موڑ کے قریب پہلے جسٹس سجاد احمد جان کی کوٹھی پڑتی تھی‘ کچھ آگے چل کر معروف اداکارہ شمیم آرا کی کوٹھی‘ جن کے گھر اونچے قد کا کتا ہمیشہ راہگیروں کو خوفزدہ رکھتا تھا۔ خوبصورت اداکارہ بھی گھر سے نکلتے اور آتے جاتے اکثر دکھائی دے جاتی تھیں۔ تھوڑا سا آگے بڑھ کر جہاں سڑک ذرا دائیں طرف مڑکر سیدھی ہوتی تھی، اس سڑک کی سب سے خوبصورت کوٹھی آتی تھی۔ سکول جس گلی میں تھا اس میں نامور ڈرامہ نگار، مزاح نگار اطہر شاہ جیدی مرحوم بھی اس زمانے میں رہتے تھے۔ معروف فلمی شاعر تنویر نقوی مرحوم بھی‘ جن کا بیٹا میرا ہم جماعت تھا۔ فلمی اداکار زلفی کا گھر بھی قریب کی گلی میں تھا اور ان کا چھوٹا بھائی ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔
سکول دیر سے پہنچنے اور اسمبلی میں حاضری نہ لگنے سے ممکنہ پٹائی کا ڈر بستے اور تختی کے بوجھ میں کافی اضافہ کر دیتا تھا۔ پانچویں جماعت تک لڑکوں اور لڑکیوں کا مشترکہ سکول تھا اور استانیاں پڑھانے پر مامور تھیں۔ ان میں سے ایک دو وہ استانیاں بھی تھیں جن کے چہرے سید ضمیر جعفری کا یہ مصرعہ پڑھ کر آنکھوں میں گھوم جاتے تھے:
طبیعت ناملائم مستقل استانیوں جیسی
چھٹی جماعت میں جب میں اسی سکول کے لڑکوں کے شعبے میں منتقل ہوا تو آہستہ آہستہ پتہ چلنا شروع ہواکہ سکول کا ڈر کیا ہوتا ہے۔ پی ٹی، ڈرائنگ، حساب اور انگلش کے استادوں نے جتنا زور ہماری تعلیم اور تربیت پر لگایا، اتنا وہ اپنی تعلیم و تربیت پر لگاتے تو بہتر نتائج نکل سکتے تھے۔ خیر اب جبکہ وہ زمانہ بہت پیچھے رہ گیا ہے، دل میں ان کیلئے شکریے کے جذبات زیادہ ہیں کہ ان کی وجہ سے بنیادی چیزیں سیکھیں جو ساری عمر کام آتی رہتی ہیں۔ جس نے آپ کو ایک لفظ بھی سکھایا وہ آپ کا استاد ہے‘ سو سخت گیری اپنی جگہ، پرانے طور طریقوں کی قباحتیں اپنی جگہ، لیکن انہوں نے بے شمار چیزیں سکھانے کا احسان بھی کیا ہے‘ اور یہ بڑا احسان ہے۔
صبح سات ساڑھے سات بجے سے دوپہر لگ بھگ ڈیڑھ بجے تک کے اس پُرآزمائش وقت کے درمیان میں بریک کے وقت کا انتظار رہتا تھا۔ آپ کا مشاہدہ اور تجربہ بھی ہوگا کہ صبح ناشتہ اکثر بچوں کیلئے مشکل ہوتا ہے۔ زبردستی کروانا پڑتا ہے‘ خاص طور پر جب سکول جانے کی جلدی بھی ہو۔ ہمارے ساتھ بھی کم و بیش یہی تھا؛ چنانچہ ساڑھے دس گیارہ بجے کا وقت آتے آتے خوب بھوک لگ چکی ہوتی تھی۔ ریسیس یا بریک کا انتظار اس لیے بھی رہتا تھاکہ کچھ دیر اس مصیبت سے چھٹکارا ہوگا جس کا نام پڑھائی ہے۔ بچے کئی طرح سے بریک کا یہ وقت گزارتے تھے۔ کچھ بچوں کی مائیں انہیں ساتھ سینڈوچ یا آملیٹ یا روٹی دے کر بھیجتی تھیں لیکن ان کی تعداد کم تھی۔ اس دور میں متوسط اور سفید پوش گھرانوں میں یہ چونچلے کم کم تھے۔ زیادہ بچوں کو گھر والے حسب حیثیت کچھ پیسے دیا کرتے تھے تاکہ وہ کوئی چیز خرید کر کھالیں۔ جس کے پاس ایک روپیہ یا اٹھنی ہوتی وہ مالدار تھا۔ عام طور پر دس پیسے یا چونی کے اس زمانے کے مروج سکے ہی بچوں کی ڈھارس ہوا کرتے تھے۔ کچھ گھرانوں کے بچے اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ بریک کے وقت ان بچوں کے چہرے مجھے یاد ہیں۔ ایک ہم جماعت بہت ہی غریب گھرانے سے تھا۔ اس کا نام محمد حنیف فرض کرلیں۔ محمد حنیف کی آنکھیں مجھے اب تک بھولتی ہی نہیں۔ ہم میں سے کبھی کوئی اور کبھی کوئی ان بچوں کا بھی خیال رکھتا لیکن تسلسل کے ساتھ یہ کسی کیلئے بھی ممکن نہیں تھا۔ سکول گیٹ سے نکلتے ہی بچے ٹھیلوں اور خوانچے والوں کے پاس اکٹھے ہوجاتے۔ ابلے ہوئے چنے سب سے زیادہ بچوں کی دسترس میں ہوتے، جن پر مرچ مصالحہ لگایا جاتا یا کھٹی میٹھی چٹنی سے اس کا ذائقہ الگ سا بنا لیا جاتا۔ ابلا ہوا مکئی کا بھٹا، مصالحے اور چٹنی کے ساتھ اب شاید ہی کہیں دکھائی دے۔ یہ بھی ایک اور پسندیدہ چیز تھی۔ بعد میں پٹھان بھائیوں کی سٹے کی ریڑھیوں نے ان کی جگہ لے لی۔ ابلا ہوا بھٹا اب بھی ملتا ہے لیکن مختلف طرح کا۔ لڈو پیٹھیاں والے کی ریڑھی پر بھی خوب رش ہوتا‘ اور کالو چورن والے کے گرد بھی۔ ایسے کھٹے اور تیز چورن کہ اب بھی یاد کرکے جھرجھری آجاتی ہے۔ نان اور لاہوری چھولے جو عام طور پر معروف چکڑ چھولے ہوتے تھے، زیادہ پیسوں میں ملتے تھے لیکن ان کی کشش بہرحال کم نہیں تھی۔ بات ایک اردو میڈیم کم درجے کے سکول کی ہے۔ نان خطائی، بسکٹ،گٹا، پاپڑ، دال سویاں، گولہ گنڈا وغیرہ وہ دیسی چیزیں ہیں جن کا ذائقہ اور ہمارے بچپن لازم و ملزوم تھے اور دنیا بھر کی نعمتیں، سینڈوچز، فوڈ چینز اب بھی اس ذائقے کو مدھم نہیں کرسکے۔ بات سفید پوش بچوں کی ہے اور بات عشروں پرانی ہے اس لیے بیکری کی قیمتی اشیا اور برگر وغیرہ کا ذکر یہاں ممکن نہیں ہے۔
لیکن یہ تمام منظر تمام ذائقے آج کدھر سے امنڈ پڑے؟ بستے کا پٹھو کمر پر لٹکائے، تختی جھلاتا بچہ کیسے روپڑا۔ ماضی میں دفن خوشیاں، ناراضگیاں، لڑائیاں، ڈر، لالچ، حسرتیں، تکلیف، رونا دھونا اور ہنسنا بولنا کیسے زندہ ہوکر سامنے آکھڑے ہوئے؟ برسوں پرانی گم گشتہ کیفیات میں جان کس نے ڈال دی۔ کچھ تو ہوا ہوگا ایسا؟کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں۔ بس ایک خبر پڑھی اور جیسے کسی نے آنکھیں موتیوں سے بھر دیں۔ خبر تو اچھی تھی۔ ایسی اچھی کہ اس پر رونا نہیں خوش ہونا بنتا تھا۔ تو پھر یہ موسم گریہ کیسے طاری ہوگیا؟ آخر ایک اچھی خبر سے رونے کا کیا تک بنتا ہے؟ خوش ہونے کے بجائے دل اداس کیوں ہوگیا؟ نئے منظر کے ساتھ پرانی تصویریں کیسے جڑ گئیں؟
پرائمری اور نچلی جماعتوں کے بچوں کیلئے حکومت پنجاب نے مفت، معیاری اور صحت بخش کھانے کا انتظام کیا ہے۔ حکومتی ادارے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تحت ابتدائی طور پر یہ انتظام پورے پنجاب کے 100 سرکاری پرائمری سکولوں میں ہوگا۔ ایک مخیر ادارے اللہ والے ٹرسٹ نے یہ کھانے کی یہ ذمے داری لی ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم مراد راس کی تصویر چھپی ہے جس میں وہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں۔ سب بچے خواہ کسی بھی گھرانے اور کسی بھی حیثیت سے تعلق رکھتے ہوں، ایک ساتھ، ایک جیسا کھانا کھائیں گے۔ حکومتوں کے فیصلے کب بدل جائیں اور کب بچوں تک پہنچتے نوالے ختم ہو جائیں، کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے۔ ایک بہت پیاری روایت کے آغاز پر حکومت پنجاب، جناب مراد راس اور اللہ والے ٹرسٹ کو بہت بہت مبارک۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ شاید ان دنوں میں اس سے خوشی کی خبر کوئی اور نہیں پڑھی۔
تو پھر میں رویا کیوں؟ یہ آنسو کیسے؟ شاید اس لیے کہ مجھے محمد حنیف کی آنکھیں یاد آگئیں۔ اس کے آنسو آج میری آنکھوں میں بھر گئے۔