"SUC" (space) message & send to 7575

شعلے جیسا ذائقہ ،پانی جیسی شاعری

کیسا عجیب آدمی ہے۔ غیر مرئی کو مرئی بنا دیتا ہے۔ مرئی کو غیر مرئی۔ درختوں پتوں اور پھولوں سے کلام کرتا ہے۔ دن، رات صبح اور شام اس کے گھرانے کے افراد میں شامل ہیں۔ ہوائیں، بارشیں، سردیاں اور گرمیاں اس کے مخاطبین میں ہیں۔ وہ جمادات اور نباتات سے گفتگو کرتا ہے۔ ان کی خوشی میں خوش ہوتا ہے اور ان کے دکھوں پر غمگین۔ دن اس کی انگلی پکڑ کر نکلتا اور جوان ہوتا جاتا ہے۔ رات اس کے پہلو میں آ کر لیٹ جاتی اور اس سے ہم آغوش ہو جاتی ہے۔ وہ اشیاء کی ارواح سے مکالمہ کرتا ہے۔ اصل گفتگو تو اس کی انہی سے ہے۔ ہم سے تو وہ کبھی کبھی بات کرتا ہے اور بات بھی صرف شعر کی زبان میں۔ یہ اختیار صرف شاعر کا ہے اور شاعر ہونا کتنوں کو میسر ہے۔ کوئی شاعر بھی ہو جائے تو نذیر قیصر ہونا کتنوں کو میسر ہے؟ کتنے شاعر اس طرح کے شعر کہہ سکتے ہیں۔
خاموشی طویل ہو گئی تھی
پھر کی نہیں کوئی بات اس نے
شعلے پہ رکے ہیں ہونٹ میرے 
آنکھوں پہ رکھے ہیں ہاتھ اس نے
میں ایک تھکا ہوا مسافر 
بستر پہ بچھا دی رات اس نے
وہ مرے دھیان میں گم بیٹھی ہے 
بال کھولے ہیں ہوا نے اس کے 
شعلے جیسا ذائقہ 
پانی جیسی شاعری 
تیرا پہلا عشق ہے 
میری پہلی شاعری 
''اے شام ہم سخن ہو‘‘ میرے ہاتھ میں ہے۔ نذیر قیصر کی تصویر دیکھی تو وقت نے ایک الٹی زقند بھری اور میرا ہاتھ تھام کر لے اڑا۔ یہ تیز رفتار گھوڑا بیس سال کا فاصلہ ایک لمحے میں طے کر کے لاہور ٹی وی سٹیشن کے ایک سٹوڈیو میں جا اترا۔ ایک ادبی محفل کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ جناب ظفر اقبال کے ڈرائنگ روم کا منظر سجا ہوا ہے۔ ان کے احباب جن میں لاہور کے نامور شعراء ہیں ان سے ملنے ان کے گھر آئے ہوئے ہیں۔ ایک نووارد سعود عثمانی کے نام سے بھی موجود ہے۔ شعر کی دنیا کا ایک معتبر سینئر نام نذیر قیصر ہے۔ نووارد شاعر حیرت سے دیکھتا ہے کہ نذیر قیصر اپنی شاعری پر بہت کم لیکن سعود عثمانی کی شاعری پر زیادہ بات کرتا ہے۔ دل میں ان کی شاعری کی قدر تو ہمیشہ سے تھی ان کے ظرف کا سکہ بھی دل پر بیٹھ گیا۔ یہ ان کی شخصیت کا وصف اور اپنے کام پر ان کا اعتماد ہے جو کسی نئے آنے والے سے انہیں خوف زدہ نہیں ہونے دیتا ورنہ ان کے ہم عمر شعراء میں اپنے بعد کے شعرا کے لیے رویہ بالعموم حساب کتاب، سیاست اور منافقت سے عبارت ہے۔ کسی جہت سے بھی دیکھ لیں نذیر قیصر کا شعری سفر کمال تخلیق کاری اور نقش گری کا سفر ہے۔ ایسا سفر جو قابلِ دید بھی ہے، قابلِ داد بھی۔
ان کے نادر انداز کے چند شعر اور سنیے
اس نے ہاتھوں پہ ہونٹ کیا رکھے 
آ گئی ساری جان ہاتھوں میں 
وہی رستہ وہی ہوا قیصر 
اور وہی شمع دان ہاتھوں میں
پہلے میں دیکھ رہا تھا اس کو 
اب مجھے دیکھ رہا ہے کوئی 
ہاتھ میں مشعل دیدار لیے 
تیز بارش میں کھڑا ہے کوئی
وہ جو جسمانی ملاپ کی لطیف اور باریک جمالیات ہوتی ہیں‘ نذیر قیصر کے یہاں ایسے ایسے فنی رچاؤ کے ساتھ آتی ہیں کہ بس پڑھتے رہیے اور پرت در پرت محسوس کرتے رہیے۔ وصال کا لفظ ان کے یہاں کم کم لیکن اس کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر کیفیات ان کے یہاں ایسے بیان ہوتی ہیں جیسے پنکھڑی پنکھڑی اور تہہ در تہہ پھول کھلتا ہے۔ ایسا وصال جس میں جسم ہی نہیں ورائے جسم کائناتیں بھی جسمانی طور پر ہم آغوش ہوتی ہیں۔
دونوں مہک سے بوجھل تھے 
پھول کھلایا دونوں نے 
کمرے میں وہ دونوں تھے 
شور مچایا دونوں نے
پھول کھلے خاموشی میں 
ہاتھ ملایا دونوں نے
اپنی خوب صورت نثر میں نذیر قیصر نے معاصر شاعری کے بارے میں بہت بنیادی بات کی ہے ''کیا وجہ ہے کہ گفتگو کرتے ہوئے ہم اپنے مقاصد و معنی کو نہایت آسانی سے روزمرہ زبان میں ادا کرتے چلے جاتے ہیں لیکن جیسے ہی شعر کہنے لگتے ہیں ہم ایک بنی بنائی زبان اور اس کی گھڑی گھڑائی ترکیبوں اور ایک خاص شعری فضا کو اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں‘‘۔ یہ اس شاعر کی رائے ہے جو محض اپنی رائے دے کر بنی بنائی شاعری نہیں کرتا رہا بلکہ اس نے عملی طور پر نئے زمین آسمان تخلیق کیے۔ ایسی فضا بنائی جو اس کے ہم عصروں کے پاس یا تو نہیں تھی یا اس کے محض چند اجزا تھے۔ ہتھیلی پر چند پھول ہونا اور بات ہے پھولوں بھری ٹوکری ہر ہاتھ میں کہاں جھولتی ہے۔
کتنے دنوں کے بعد شجر نے چھتری کھولی
کتنے دن میں دن بارش کا واپس آیا
ہاتھ میں دیا لیے وہ چھت پر واپس آئی 
اس کے ساتھ ہوا کا جھونکا واپس آیا
تو دھرتی کی پہلی رات
میں دھرتی کا پہلا دن
تیرے بدن میں جاگی رات
میرے بدن میں ڈوبا دن
جمالیاتی شعور اس شاعری میں اتنا غیر معمولی اور منفرد ہے خاص طور پر خود کلام دل کی لرزشیں اور تھرتھراہٹیں تک صاف سنائی دیتی ہیں۔
اس دن کتنے پھول کھلے 
اس دن کتنی جھڑی رہی 
آسمان کے سارے رنگ انڈیل دئیے 
دھرتی پر بارش برسانے والے نے
خالی چھوڑ دیا ہے دل کی تختی کو 
دیواروں پر نقش بنانے والے نے 
دیکھا نہیں دہلیز پہ رکھے پھولوں کو 
دروازے سے اندر آنے والے نے 
نذیر قیصر کے فن و شخصیت کو مختصراً بیان کرنا ہو تو انہی کا شعر مستعار لینا پڑے گا۔ انہوں نے کسی کی بھی بات کی ہو دراصل اپنی بات کی ہے: 
دنیا اچھی لگتی ہے رب اچھا لگتا ہے 
اچھی آنکھوں والوں کو سب اچھا لگتا ہے
جھلاہٹوں، تلخیوں اور نفرتوں سے لبالب بھری ہماری شعری برادری میں کتنے شاعر ہوں گے جنہیں دنیا اچھی لگتی ہے۔ کتنے ہوں گے جنہیں رب اچھا لگتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ان لوگوں کو نذیر قیصر جیسی اچھی آنکھیں کہیں سے مل جائیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ پھر بھی کیا فائدہ۔ یہ قلم تو رب کسی کسی کو دیتا ہے۔ نذیر قیصر جیسا قلم انہیں کیسے ملے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں