ان سے پہلا رابطہ صحافت نہیں بلکہ ادب تھا‘ بلکہ درست کہنا چاہیے کہ شعر‘ اور لگ بھگ بیس سال پہلے ابتدائی ملاقات سے 5 جنوری 2021 تک رؤف طاہر مرحوم سے یہی رابطہ اصل رہا۔ کسی ہنستے بستے زندہ دل دوست اور حرف کار کے نام کے ساتھ اچانک مرحوم کا لاحقہ جوڑنا کیسا مشکل لیکن کتنا ناگزیر ہے، وہ ناگہانی فراق کے حادثے سے دوچار ہونے والے جانتے ہیں۔
بیس سال پہلے کی وہ گرم مرطوب ڈھلتی رات یاد ہے۔ جدہ کے سمندر کی نیم خنک ہوائیں جھلستے شہر کو تھپکیاں دے کر سلا رہی تھیں۔ مشاعرے میں پاکستانی، بھارتی برادری کے چیدہ چیدہ لوگ جمع تھے۔ شاعری اور سحر انگیز رات کی سرشاری یکجا تھی۔ مشاعرے کے بعد سفاری سوٹ میں ملبوس ایک صاحب میری طرف آئے۔ کہا: میں رؤف طاہر ہوں۔ تعارف مکمل نہیں ہوا تھاکہ ایک منتظم درمیان میں آ گئے۔ باقی تعارف انہوں نے کروایا جس سے اندازہ ہوتا تھاکہ جدہ کے اہل علم، اہل ادب میں ان کا بڑا احترام ہے۔ اس کے بعد جب بھی جدہ جانا ہوتا، ایک ہمدم اور ہم مزاج دوست سے ملاقات ہوتی۔ انہوں نے 'اردو نیوز‘ کے لیے میرا مفصل انٹرویو بھی بڑے دھوم دھام سے چھاپا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میاں نواز شریف بھی سرور پیلس جدہ میں وقت گزار رہے تھے۔ وہاں پاکستانی برادری تھی بھی نسبتاً مختصر، صحافت اور ادب سے جڑے ہوئے لوگ تو خال خال تھے۔ رؤف طاہر کا تعلق میاں نواز شریف سے ایسا جڑاکہ بعد کے ماہ و سال اس میں شگاف نہ ڈال سکے۔ میاں نواز شریف کے اس زمانۂ قیام، شخصی خوبیوں اور واقعات کے وہ چشم دید گواہ تھے۔ یہ باتیں، جو ان سے دوستوں تک پہنچتی تھیں، متاثر کن تھیں اور ایسی باتوں کا ذکر کرنے والوں میں وہ تنہا بھی نہیں تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پرویز مشرف پاکستان میں مطلق العنان بنے ہوئے تھے‘ لہٰذا دائیں بازو اور نظریاتی وابستگی کے ہر فرد کے دل میں میاں نواز شریف کے لیے ہمدردیاں زیادہ تھیں‘ اور جس طرح انہیں حکومت سے نکالا گیا تھا‘ اس کا زخم صرف مسلم لیگ نون کے دل میں نہیں تھا۔
اپنے گھر بار اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر دیار غیر میں رہنا کیسا کٹھن ہوتا ہے‘ یہ انہی سے پوچھیے جنہوں نے ایسے ایک دو سال نہیں عشرے گزارے ہوں۔ فیض نے کہا تھا نا کہ اس رہ میں جو کچھ سب پہ گزرتی ہے سو گزری۔ سو رؤف طاہر نے بھی یہ کٹھن وقت گزارا لیکن خوش دلی سے اور شکوہ شکایت کے بغیر۔ وقت کی رفتار کا ساتھ کبھی کوئی دے سکا ہے؟ دن گزرتے گئے اور ایک دن پتہ چلا کہ رؤف طاہر مستقلاً پاکستان واپس آگئے ہیں۔ دیارِ غیر کی تنہائی نے یہ صلہ بہرحال دیا تھاکہ انہوں نے گھر بنا لیا تھا جہاں وہ دوستوں کو مدعو کرتے رہتے تھے۔ ان کی واپسی کے بعد ملاقاتیں بڑھ گئیں۔ ملکی سیاست میں بھی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہوئیں۔ وہ جلا وطن‘ جو سرور پیلس میں زندگی گزارتا تھا‘ پہلے حزب اختلاف میں اور پھر تختِ اقتدار پر پہنچا۔ میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے بعد جلاوطنی کی کسی بات پر کوئی عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن بہرحال وہ اس زمانے کے دوستوںکو نہیں بھولے۔ جناب رؤف طاہر کی ریلوے کے اطلاعات و عوامی رابطے کی نشست پر تقرری ہوئی اور وہ ایسے عہدہ و منصب کے اہل بھی تھے۔ اسی کے ساتھ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے جنرل سیکرٹری بھی مقرر ہوئے۔ مجھے بہت بار ان کا فون ایسے وقت میں آتا تھا‘ جب وہ کوئی شعر یا مصرع درج کرتے ہوئے اٹک جاتے اور دوسرا مصرع یا شاعر کا نام درکار ہوتا تھا۔ کئی بار ان کے گھر پر حاضری ہوئی، ان میں سے ایک ناخوشگوار وقت وہ تھا جب ان کی اہلیہ کی رحلت ہوئی اور پھر انہی دنوں وہ دُہری ڈکیتیوں کے عذاب سے گزرے۔ میں نے دنیا اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا تو ان کا مبارک کا فون آیا۔ انہوں نے کالم بہت پسند کیے اور میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ وہ بھی دنیا کے مستقل کالم نگار تھے اور یوں ان سے صبح صبح ملاقات ہوجاتی تھی۔ اِس زمانے کی اصطلاح میں بات کروں تو یوں کہنا چاہیے کہ ہم دونوں ایک پیج پر تھے۔ وہ مسلم لیگ نون کے پرجوش حامی تھے اور شریف فیملی سے اپنی ذہنی اور سیاسی وابستگی کو کھل کر کالم کا موضوع بناتے تھے۔ عمران خان کے دھرنے کے دنوں میں بھی انہوں نے کھل کر خلاف لکھا اور پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی۔ معروف کالم نگاروں سے، جو خان صاحب کی وکالت کیا کرتے تھے، ان کی ٹھنا ٹھنی رہی۔ انہیں بات کرنے کا سلیقہ تھا اور وہ لفظ کی دھار کو جانتے پہچانتے تھے؛ چنانچہ انہوں نے کڑی مخالفت میں بھی اپنے کالم کو غلط، نامناسب الفاظ اور الزام تراشی سے آلودہ نہیں ہونے دیا‘ جو فی زمانہ معروف اور مقبول ہونے کا آسان راستہ ہے۔ پہچاننے والا مخالفت اور جارحیت میں فرق ہمیشہ پہچانتا ہے اور وہ ایسی ہی پہچان والوں میں تھے۔ ان کا اشہب قلم جانتا تھاکہ کس رفتار پر دوڑنا ہے۔ مسلم لیگ نون کی حمایت خاص طور پر ایسی حمایت سے دوست چیں بہ جبیں بھی ہوتے تھے جس میں کمزور معاملات پر بھی اس کا دفاع کیا گیا ہو‘ لیکن اس بات کے سب معترف تھے کہ وہ نون لیگ کے اچھے اور برے دنوں کے ساتھی ہیں اور یہ تیزی سے بدلتے رنگوں اور قلابازیاں لگاتی وفاداریوں کی اس دنیا میں نایاب بات ہے۔ ان کے کالم کے رخ اور نقطۂ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا تھا اور کیا جاتا بھی تھا‘ لیکن بہت اچھی بات ہے کہ اس اختلاف کو انہوں نے ذاتی تعلقات سے بہت الگ اور بہت محفوظ فاصلے پر رکھا۔ وہ ہر ایک سے محبت سے ملتے اور ان کے دوستوں میں ہر نظریے اور ہر مکتب فکر کے لوگ ہمیشہ موجود رہتے تھے۔ کسی کو ان کی حب الوطنی میں کوئی شبہ تھا‘ نہ ہی ان کی مشرقی روایات کے پاسدار‘ وضع دار مزاج میں۔
اور یہ تو سیاست کی بات ہے، کسی ادبی موضوع پرکئی بار ان کی گفتگو ان کے ذوق اور مطالعے کا پتہ دیتی تھی۔ ایسی ہی خوشگوار حیرت کا ایک موقعہ وہ تھا جب لاہور کی ایک یونیورسٹی میں میرے ساتھ ایک شام تھی اور رٔوف طاہر گفتگو کرنے والوں میں ایک تھے۔ ان کی گفتگو بتاتی تھی کہ وہ ایسے شخص نہیں ہیں جو سرسری اس جہان سے گزرا ہو۔
اگر یہ اندازہ ہوکہ کوئی دوست بزم سے اس طرح اچانک اٹھنے والا ہے تو کم سے کم، قلیل ملاقاتوں کی وہ پشیمانی، ندامت اور شرمندگی نہ ہو جو بہت سے پچھتاوے چھوڑ جاتی ہیں۔ کاش مل لیتے، کاش کچھ باتیں اور کرلیتے، کاش ایک دوسرے کو کچھ اور جان لیتے، کاش یہ اور کاش وہ۔ یک کاشکے بود کہ بصد جا نوشتہ ایم (کاش کا ایک لفظ تھا جو سو جگہ لکھ دیا گیا ہے) کاش کا لفظ رؤف طاہر نے اس دن دل پر ثبت کردیا۔ اس طرح سیکنڈوں، منٹوں میں اتنی طویل مسافت کون طے کرتا ہے جو 4 جنوری کو انہوں نے کی۔ کیا ہے وہ مصرعہکسی استاد کا: ہستی سے عدم تک نفس چند کی ہے راہ۔
رؤف طاہر بھائی! رابطہ تو آپ سے شعر ہی کا تھا۔ خوانِ ادب پر صحافت، سیاست، معاشرت تو بس ذائقے بدلنے والی چٹنیاں تھیں۔ سودا کی غزل یاد ہے نا، جس کا مصرع ہے: لیکن کوئی خواہاں نہیں واں جنس گراں کا ۔ یہ بھی آپ کے حسب حال ہے کہ ان صفات کے طلب گار بھی اب کم کم ہیں جو آپ میں تھیں ۔لیکن اصل بات یہ کہ میں آپ کو کبھی کبھی فون پر کسی مصرعے کا اگلا مصرع یاد کرادیا کرتا تھا لیکن آج مجھے بھولا ہوا یہ شعر آپ نے یاد کروادیا ۔
ہستی سے عدم تک نفس ِچند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا