"SUC" (space) message & send to 7575

تشنہ مزاج ساقی

چند دن پہلے فیس بک سے معلوم ہوا کہ آج شاعر طرح دار ساقی فاروقی کی برسی ہے تو مجھے وہ دن اور ساقی دونوں یاد آگئے۔ 7 اکتوبر 2010 کی ایک دوپہر میں لندن میں اپنے میزبان برادرم ارشد لطیف کے ساتھ جناب ساقی فاروقی سے ملنے جارہا تھا۔ میری خواہش کو دیکھتے ہوئے ارشد لطیف نے ساقی صاحب سے ملاقات کی اجازت چاہی تو انہوں نے کہا‘ آجاؤ‘ سموسے گلاب جامن تم لیتے آنا‘ چائے میں بناؤں گا‘ گنڈی (ان کی یورپین بیگم گن ہلڈ فاروقی) گھر پر نہیں ہیں۔ ارشد لطیف کے گھر سے ساقی کا گھر دور تھا۔ تقریباً ایک گھنٹہ۔ اکتوبر کی خنک دھوپ میں دائیں بائیں گزرتے خوبصورت گلابی‘ نارنجی اور سرخ درختوں کو دیکھتے‘ ان کا حسن سراہنا بھی بہت ضروری تھا‘ لیکن ذہن ساقی فاروقی میں اٹکا ہوا تھا:
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اک دن
اک رات کے راہی ہیں، گزر جائیں گے اک دن
نام بہت سنا تھا ساقی کا۔ پھر اکا دکا شعر پڑھے پھر غزلیں‘ پھر کتاب پھر نثر۔ یہ بھی پتہ تھاکہ موصوف کٹیلا فقرہ لکھتے ہیں۔ نہ کسی کو مانتے ہیں، نہ کسی کو بخشتے ہیں۔ اپنے قریبی لوگوں کو بھی نہیں۔ بڑے لوگوں کی صحبتیں اٹھائے ہوئے چہیتے ہیں۔ ہوش کے نظریات سب جانتے ہیں۔ مدہوشی کی مشغولیات سب پہچانتے ہیں۔ جو نووارد اور گمنام جونیئر قلم کار مزاج کے اعتبار سے دونوں سے الگ ہو اس کا کیا حشر کرتے ہیں یہ پتہ نہیں تھا۔ تو گویا الگ مزاج کے آدمی ہیں۔ تو پھر ملا جائے یا نہیں؟ یہ سوال تھا۔ پھر ہمت کی اوراب ہم ان سے ملنے جارہے تھے۔
یاد آیا کہ ایک بار آواری ہوٹل لاہورمیں ایک مشاعرہ تھا۔ میں بھی شریک تھا۔ مشاعرے کے بعد جناب احمد ندیم قاسمی نے مجھے کہاکہ آپ نے اپنے گھر سمن آباد جانا ہے‘ مجھے بھی گھر چھوڑ دیجیے گا۔ ندیم صاحب اور قتیل شفائی پکی ٹھٹھی میں رہتے تھے۔ قتیل صاحب کو بھی ساتھ چلنا تھا لیکن پھر وہ کسی اور کے ساتھ چلے گئے۔ ندیم صاحب اکیلے میں بہت بے تکلف گفتگو کرتے تھے‘ جس میں خالص مردانہ لطیفے اور واقعات بھی ہوتے تھے۔ اس دن انہوں نے از خود ساقی کا ذکر چھیڑ دیا۔ کئی ناگفتنی واقعات سنائے اور ایک بہت بولڈ نظم کا بھی ذکر کیا۔ اس دن ندیم صاحب ساقی کے عمومی رویے سے بھی ناخوش لگتے تھے۔ اس کے کچھ عرصے بعد ساقی نے بنام وزیر آغا وہ مشہور خط نما طویل مضمون لکھا جس میں وزیر آغا کے کلیات"''چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل‘‘ پر خوفناک اور نہایت کٹیلا تبصرہ تھا۔ جابجا فنی گرفت کے ساتھ ایسے ظالم فقرے تھے کہ بس۔ لکھنے والا فنی مہارت رکھتا ہو، فقرے باز ہو‘ لحاظ، رو رعایت، مروت ایک طرف دھر دے اور ادب کا مطلب بھی صرف لٹریچر لے تو پھر ایسا مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ شاید اس کے ایک دو سال بعد ساقی نے ایک غزل لکھی‘ جس کا مطلع تھا:
ہم تو بس ایک درد کی زحمت سے تنگ آگئے
سینے میں آگ جل اٹھی لہجے میں رنگ آگئے
ندیم صاحب نے یہ غزل فنون میں نہیں چھاپی اور ساقی کو اس کے بعض مصرعوں کی طرف توجہ دلائی جو ندیم صاحب کے خیال میں خارج از بحر تھے۔ ساقی اڑ گئے۔ مشفق خواجہ مرحوم بھی بحث میں شریک ہوگئے۔ ان کی رائے بھی یہی تھی کہ کچھ مصرعے خارج از بحر ہیں۔ ساقی کہاں ماننے والے تھے بھلا؟ خیر اس بحث میں ایک موڑ اس وقت آیا جب نامور عالم‘ شاعر‘ ادیب‘ عروض دان جناب خورشید رضوی بھی اس بحث میں شامل ہوئے اور ان کی اس غزل پر ساقی سے طویل مراسلت ہوئی۔ (یہ غزل اور یہ مکمل دو طرفہ مراسلت اس زمانے کے ادبی رسائل میں شائع ہوئی تھی) میری تو بساط ہی کیا تھی کہ ان بڑوں کے بیچ کلام کرتا۔ نیز کبھی عروض دان بھی نہیں رہا لیکن میری بطور شاعر طالب علمانہ رائے یہی تھی کہ غزل بحر میں ہے؛ تاہم وزن پڑھنے پر موقوف ہے کہ اسے کس طرح پڑھا جاتا ہے۔
دراصل اس غزل میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک نظر میں اس بحر پر معروف بحر مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن کا دھوکا ہوتا ہے (مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن خود ایسی بحر ہے جس میں کم کم شعرا ہی اچھے شعر نکال پاتے ہیں) جبکہ یہ بحر مستفعلن مفاعلن مستفعلن مفاعلن تھی۔ کچھ مصرعے دونوں بحروں میں تقطیع ہوتے تھے۔ ایک دو جگہ اس میں بھی دقت تھی تو ساقی اس کی ایک زحاف کے ذریعے توجیہہ کرتے تھے۔ خورشید رضوی صاحب غزل کو بحر میں مانتے تھے لیکن زحاف کو خود ساختہ قرار دیتے تھے‘ لیکن ان کی بات ساقی قبول نہیں کرتے تھے۔ (میں یادداشت کی بنیاد پر یہ خلاصہ نکال رہا ہوں ممکن ہے کچھ نکات اور ہوں۔ بہرحال یہ ساری بحث مجھ جیسے طالب علموں کیلئے بہت کام کی تھی)
ساقی لندن کے ایک خوبصورت علاقے میں رہتے تھے۔ ہم پہنچے تو انہوں نے تپاک سے خیرمقدم کیا۔ میرا تعارف حاصل کیا۔ مجھے شک تھاکہ وہ مجھ سے بالکل ناواقف ہوں گے‘ لیکن ایسا نہیں تھا۔ میں وہ میری شاعری پڑھ چکے تھے؛ تاہم انہوں نے کسی تاثر کا اظہار نہیں کیا۔ مختلف ادبی موضوعات پر بات ہوتی اور گھومتی رہی۔ انہیں نے دوران گفتگو یہ بھی بتایاکہ ان کے خطوط مرتب ہورہے ہیں۔ ان کا پالتو بلا بھی اس دوران موضوع کی طرح گھومتا رہا۔ وہ چائے بنانے کیلئے اٹھے تو ہم بھی ہاتھ بٹانے کچن میں چلے آئے۔ ڈائننگ ٹیبل پر انہوں نے تنبیہ کی کہ میری بیگم اس لکڑی کی میز کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ 
ان سے ملاقات خوشگوار تھی۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں‘ پھر انہوں نے شعر سنانے کی فرمائش کی۔میں نے اور ارشد لطیف نے شاید دو دو، تین تین غزلیں سنائیں‘ پھر ان سے ان کی شاعری سننے کا وقت آیا۔ ساقی نے ہماری فرمائشی غزلیں نظمیں سنائیں جن میں وہ کمال کی نظم بھی تھی جس کا مرکزی مصرعہ ہے، جان محمد خان سفر آسان نہیں۔ شعری نشست کے بعد کی گپ شپ میں باکمال شاعر احمد مشتاق کا ذکر آگیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان سے روز بات ہوتی ہے۔ میں نے بتایاکہ احمد مشتاق کا بڑا مداح ہوں لیکن کبھی رابطہ نہیں ہوا۔ کہنے لگے: میں ابھی تمہاری بات کرواتا ہوں۔ انہوں نے کال ملائی‘کچھ دیر خود بات کی‘ پھر میری بات کروائی ۔ مختصر سے تعارف کے بعد میں نے ان سے کوئی تازہ شعر سنانے کی فرمائش کی۔ انہوں نے یہ کمال کا تازہ مطلع سنایا:
کبھی خواہش نہ ہوئی انجمن آرائی کی
کوئی کرتا ہے حفاظت مری تنہائی کی
فون بند ہوا اور بات چیت پھر شروع ہوئی۔ ساقی نے اچانک کہاکہ اچھا بھئی تم دونوں شاعر ہو ایک سوال کا جواب دو۔ اس شعر میں کیا غلطی ہے:
آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا
ہم دل کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہاتھوں سے کلیجہ تھام لیا
چند لمحوں کیلئے سناٹا چھا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ میں توقع نہیں کررہا تھاکہ ہمارا امتحان بھی ہوگا۔ پھر میں نے کہاکہ جب شاعر دل کو پکڑ کر بیٹھ چکا ہے تو ہاتھوں سے کلیجہ تھام لینا فضول بات ہے۔ ساقی واضح طور پر خوش ہوئے کہ جواب درست تھا۔ انہوں نے اپنی دوکتابیں الماری سے نکالیں اور مجھے عنایت کیں۔ خاصی دیر بعد ہم نے اجازت چاہی۔ ساقی ہمیں چھوڑنے باہر تک آئے۔ یہ شام ان کی یاد کے ساتھ خاص ہوچکی تھی۔ ملاقات اس کے بعد ہونے کا امکان اس وقت بھی بہت کم لگتا تھا۔ سو اس کے بعد ساقی سے نہیں،ان کی سخت بیماری اور وفات کی خبروں سے ہی ملاقات ہوئی۔
اتنا کچھ لکھا لیکن تشنگی ہے کہ کچھ اور بات ہوتی۔ ساقی پر، ان کے شعر پر، ان کی نثر پر، ان کی آپ بیتی پر‘ لیکن سوچتا ہوں کہ تشنگی رہ جائے تو مفید ہوتی ہے۔ اگلے جرعوں کا لطف بڑھ جاتا ہے۔اور ایک سوال تو بہرحال ہمیشہ سے تشنۂ جواب ہے‘ یہ کہ تشنگی اور سیرابی میں سے کون سی بہتر ہے۔ میں کیا بتا سکتا ہوں؟ ساقی ہوتے تو جواب دیتے کہ وہ ساقی تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں