ارجمند بانو بیگم اورشاہ جہاں کی غیرمعمولی محبت شاہی خاندانوں کے حوالوں سے بھی غیر معمولی تھی۔38 سال کی عمر میں ممتاز محل انتقال کرگئی۔ 19 سال کی اس شادی شدہ زندگی میں ممتاز محل نے شاہ جہاں کے چودہ بچوں کو جنم دیا۔سات بچوں کا پیدائش کے فوراً بعد یا نہایت کم عمری میں انتقال ہوگیا۔ باقی سات شہزادے اور شہزادیاں زندہ رہیں۔ چودھویں اولاد شہزادی گوہر آرا بیگم کی ولادت کے دوران ممتاز محل کا انتقال ہوگیا۔دونوں کی عمروں میں کم فرق‘ممتاز محل کی غیر معمولی خوب صورتی‘ذہانت‘معاملہ فہمی‘شعری ذوق اور شاہ جہاں کی مزاج شناسی بھی اس محبت کے بڑے عوامل رہے ہوں گے‘ لیکن میرا خیال ہے جس بات نے شاہ جہاں کا دل اپنی مٹھی میں لے لیا وہ سخت اور نہایت حوصلہ شکن حالات میں شاہ جہاں سے وفا نباہنا تھی۔
شادی کے بعد ایک کڑا وقت وہ آیا جب جہانگیر اپنے ولی عہد شہزادہ خرم سے سخت ناراض ہوگیا۔نورجہاں بوجوہ بادشاہ کو بھڑکانے میں پیش پیش تھی۔ اس کے عزائم کچھ اور تھے۔آہستہ آہستہ یہ واضح ہوتا گیا کہ وہ جہانگیر کے چھوٹے بیٹے اور اپنے داماد شہزادہ شہریار کو جہانگیر کے تخت پر بٹھانا چاہتی تھی۔شہزادہ خرم اور نورجہاں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا اور خرم نے سیاہ و سفید کی مالک ‘نورجہاں کے حکم پر قندھار کی مہم سے انکار کردیا۔خرم کو اندازہ تھا کہ نورجہاں شہنشاہ جہانگیر سے اس کے قتل تک کا حکم صادر کروا سکتی ہے۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ 1622ء میں اس نے مشہور سالار مہابت خان کے ساتھ مل کر بادشاہ کے خلاف بغاوت کا علم اٹھا لیا۔ مارچ 1623ء میں بلوچ پور میں دونوں لشکر مقابل آئے۔خرم کو شکست ہوئی اور وہ جان بچا کر بھاگا۔ خون کی پیاسی شاہی افواج سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔
جہانگیر نے شہزادے کو باغی قرار دے کر اسے زندہ یا مردہ اپنے حضور پیش کیے جانے کا حکم دے دیا۔ان دنوں خرم کیلئے کوئی جائے امان نہیں تھی۔کوئی شخص بادشاہ کی مرضی کے بغیر اس کی مدد نہیں کرسکتا تھا۔جہانگیر کے بیٹے خسرو کا انجام سب کے سامنے تھا۔ بادشاہ کا غضب بھگتنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ آصف الدولہ میں بھی نہیں جو شہزادہ خرم کا سسر اور لاہور کا گورنر تھا۔جنگلوں‘ویرانوں‘ بیابانوں‘صحراؤں اور پہاڑوں میں بھٹکتا خرم اب ایک باغی تھا اور اسے پکڑنے والے پیچھا کرتے تھے۔معمولی ساز و سامان اور چند وفادار۔ہاں ایک محبت بھری بیوی ہر تکلیف میں اس کے ساتھ تھی جو اس کا حوصلہ بڑھاتی اور مشکل سے نکلنے کی تدبیریں سجھاتی تھی۔ ایسے میں خرم مہاراجہ اودھے پور‘ کرن سنگھ کے پاس پناہ کا طالب ہوا اور راجہ نے اسے پناہ دے دی۔تین سال خرم اور اس کا گھرانہ غیروں کی پناہ اور رحم و کرم پر رہا۔
1626ء میں بالآخر جہانگیر کی شفقت نے جوش مارا اور اس نے خرم کی خطائیں معاف کردیں لیکن مراعات اور عہدہ و منصب بحال نہ کیے۔اس کے ساتھیوں کو عبرت ناک سزائیں ملیں۔یہ دور ِ آزمائش جہانگیر کی وفات پر ختم ہوا جب آصف الدولہ نے نورجہاں کو محل میں نظر بند کرکے اس کے اختیارات ختم کردیے۔دارا شکوہ‘شجاع اور اورنگزیب کوجہانگیر کے محل سے اپنے پاس بلا لیا اور خرم کی تخت نشینی کی راہ ہموار کرکے اسے شاہ جہاں بنا دیا۔شاہ جہاں کی تخت نشینی 14فروری 1628ء کو ہوئی۔اس کے صرف تین سال کے بعد7جولائی 1631ء کو ممتاز محل کا انتقال ہو گیا۔ کڑی مشکلات میں شاہ جہاں کا ساتھ دینے والی آسائش کے دور میں زیادہ دیر ساتھ نہ رہ سکی۔مجھے لگتا ہے کہ یہ دور ابتلا ہمیشہ کیلئے شاہ جہاں کو ممتاز محل کا بنا گیا‘ یہ محبت ہمیشہ کیلئے اس کے دل میں گھر کر گئی۔
ماہ و سال کی یہ کٹھن داستان میں نے تو کچھ ہی جملوں میں رقم کرڈالی لیکن کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس کا ممتاز محل اور خود شاہ جہاں کیلئے کیا مطلب رہا ہوگا؟ بغاوت سے پہلے کی ہر مہم میں ممتاز محل اپنے شوہر کے ساتھ تھی۔خواہ وہ راجپوتانہ کا ایک سال کا محاصرہ ہو یا دکن کی دور دراز کٹھن چڑھائیاں۔پھر بغاوت کے دنوں میں محلاتی سازشیں ہوں یا وطن سے دور دراز غیروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنا۔ اب سمجھا جاسکتا ہے کہ شاہ جہاں ممتاز محل کے بعد ایک سال تک اس کے سوگ میں کیوں رہا۔
17جون1631ء کوشاہ جہاں کے چودھویں بچے شہزادی گوہر آرا کو جنم دیتے ہوئے 38سالہ ممتاز محل برہان پور‘حید ر آباد دکن میں انتقال کر گئی۔ ممتاز محل کو امانتاً دریائے تپتی کے کنارے شاہ جہاں کے چچا دانیال کے باغ زین آباد میں دفن کیا گیالیکن شاہ جہاں اس محبت کی یادگار عمارت آگرہ میں بنانا چاہتا تھا ؛چنانچہ دسمبر1631ء میں ملکہ کی میت اس کے بیٹے شاہ شجاع کی نگرانی میں سنہرے تابوت میں آگرہ لائی گئی اور دریائے جمنا کے پاس ایک چار دیواری میں تاج محل کی تکمیل تک کیلئے دفن کردی گئی۔اس یادگار کیلئے شاہ جہاں نے معمار استاد احمد لاہوری کا انتخاب کیا۔شاہ جہاں ہر مرحلے میں دلچسپی سے شریک رہا۔آخر دریائے جمنا کے کنارے اس قطعۂ زمین کا انتخاب کیا گیا جو راجہ مان سنگھ کی ملکیت تھا۔56ایکڑ کا یہ مستطیل قطعہ جنوب سے شمال کی طرف بتدریج بلند ہوتا گیا تھا۔عمارت کا نقشہ تیار ہوا۔ تاج محل کے احاطے میں وہ میوزیم موجود ہے جس میں ابتدائی نقشے محفوظ ہیں۔ مجھے ہمایوں کا مقبرہ دہلی تاج محل کا ابتدائی خاکہ لگتا ہے۔ 1631ء میں تاج کی تعمیر کا آغاز ہوا۔0 2 ہزار مزدوروں‘ سنگ تراشوں‘ معماروں‘ خطاطوں سمیت بہت سے اہل ہنر نے بائیس سال کام کیا اور 1653ء میں یہ مقبرہ مکمل ہوا۔سامان کیلئے ایک ہزار ہاتھی مامور کیے گئے۔دریا کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے سیلاب‘پانی اور نمی بہت بڑے خطرات تھے؛چنانچہ بنیادوں میں کنووں کا ایک سلسلہ بنایا گیااور انہیں سال کی لکڑی (sal wood)اورچنائی سے بھرا گیا۔ ماہرین کے مطابق دریا ئے جمنا تاج محل کیلئے خطرہ نہیں بلکہ بقا کا سبب ہے۔اگر دریا نہ رہے تو تاج کی بنیاد خطرے میں پڑ جائے گی۔ میرے علم کے مطابق دنیا میں کسی عمارت کی یہ پہلی اور آخری ہائیڈرالک فاؤنڈیشن تھی۔ بنیادیں بھرنے‘ عمارت کی کرسی بنانے کا کام پندرہ سال میں مکمل ہوا جبکہ مسجد‘ مہمان خانہ‘ داخلی دروازہ بننے میں مزید پانچ سال صرف ہوئے۔ سنگ مرمر زیادہ تر راجستھان کی مکرانا کان سے نکالا گیا او رپنجاب‘ چین‘ تبت‘ افغانستان‘سری لنکا اور عرب سے بھی منگوایا گیا۔ اٹھائیس اقسام کے قیمتی پتھر جڑاؤ کام کیلئے استعمال ہوئے۔سنگ یشب پنجاب‘فیروزہ تبت‘لاجورد افغانستان اور نیلم اور بلّور چین سے لائے گئے۔ ان کاموں کیلئے ترکی‘ ایران اور عرب سے بھی ماہرترین کاری گر بلوائے گئے۔
سنگ مرمر میں نازک بیلوں‘ پھولوں اور پتیوں میں مختلف قیمتی پتھر کمال مہارت سے جڑے گئے ہیں۔سورج نکلتے وقت عمارت پر روشنیوں کی چھوٹ پڑتے دیکھنا ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔آپ عمار ت سے ذرا فاصلے پر چلے جائیں۔مثلا مہمان خانے اور مقبرے کے بیچوں بیچ۔ اور عمارت کو دیکھیں۔ سورج کی ابتدائی کرنوں میں ایک دو قیمتی پتھر جگمگائیں گے۔پھر ایک ایک کرکے سب جگمگانا شروع کردیں گے۔ ہر پتھر ایک قمقمے کی شکل اختیار کرلے گا۔ مبہوت کردینے والا یہ نظارہ پورے چاند کی رات میں بھی ایک نئے رنگ کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس مبہوت کن منظر پر بہت سے سیاح حیرت اور خوشی سے چیخ پڑتے ہیں یا بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں اور یہی بے ساختہ خراج تحسین ہوتا ہے۔مسلمانو ں پر تاریخی ورثوں کو برباد کرنے کا الزام دینے والے لوگ ذرا یاد رکھیں کہ 1857ء میں بغاوت ہند کے زمانے میں قیمتی پتھر لاجورد (Lapis lazuli) سمیت بہت سے قیمتی پتھر انگریزوں نے اکھاڑ لیے اور سامنے والے وسیع باغ کوجو اسلامی‘ایرانی‘ مغل انداز کا چار باغ تھا‘ انگریزی طرز کے باغ میں بدل دیا۔(جاری)