"SUC" (space) message & send to 7575

کئی نسلوں کا لاڈلا

دو پیاری لڑکیاں۔ اتنی پیاری کہ بس دیکھے جائیے۔جلد کا رنگ وہ جو شہد اور دودھ کوباہم آمیز کرکے بنتا ہے۔ ہونٹ ایسے خوبصورت کہ ابھی رس لینے کے لیے تتلی آبیٹھے۔ستواں مناسب ناک۔ رخساروں کے فراز دہکے ہوئے۔ پیشانیوں پر گلابی اور چمپئی رنگ کا امتزاج۔سبک دودھیا گردن جسے دیکھنے سے لگتا ہے کہ روشنی جلدکے آر پار گزر رہی ہے۔ گردن ختم ہوتی ہے تو بند گلے کا لکھنوی کڑھائی کا کرتا شروع ہوجاتا ہے۔ انگوری کپڑے پر عنابی رنگ کی نازک بیلیں جو لگتا ہے کہ صراحی پر چڑھا چاہتی ہیں۔ایک لڑکی دوسری سے کچھ سرگوشی کرتی ہوئی۔ کوئی راز کی بات کہتی ہوئی۔کہنے والی اور سننے والی دونوں کے ہونٹوں پر ایک دل آویز مسکراہٹ۔دونوںجیسے لجا رہی ہیں اور دونوں کے وجوو سے جیسے شرم اور لاج کی پھوٹتی کرنیں نکل کر پورے کاغذ پر پھیل رہی ہیں۔
میں سمن آباد موڑ‘لاہورکے کونے والے حاجی حبیب الرحمن اخبار فروش سے سب رنگ ڈائجسٹ کا تازہ پرچہ لے کر ابھی لوٹا تھااور ایک ٹک سرورق کو دیکھے جارہا تھا۔مجھے لگا کہ ان میں سے ایک بازی گر کی کورا ہے اور دوسری زریں۔مہینوں کے انتظار کے بعد سب رنگ کا پرچہ ملا تھا۔اور ملا کیا تھاجدو جہد کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔اتنے پیسے کہاں ہوتے تھے ایک طالب علم لڑکے کے پاس کہ وہ پرچہ خرید سکے۔اور اردو ڈائجسٹ کے علاوہ کسی اور ڈائجسٹ کے لیے گھر سے پیسے مانگنا ممکن ہی کہاں تھا۔ سو دو ہی صورتیں تھیں۔یا تو بہنوں کے ساتھ مل کر پیسے جمع کیے جائیں اور پرچہ خریدا جائے۔ یا پرچہ طور صاحب کی لائبریری تک پہنچنے اورکرائے پر دستیاب ہونے کا انتظار کیا جائے۔دوسری صورت مہینوں کے انتظار پر محیط ہوتی۔اتنا انتظار بے صبرے بچے کہاں کرسکتے تھے۔ایک بار یہ انتظار چکھا تھا۔محشر بدایونی نے سچ کہا تھا ؎
اس انتظار سے بھی ہم گزر چکے اب تو
جس انتظار میں انسان مر بھی جاتا ہے
سب رنگ کا تازہ پرچہ ہاتھ میں ہو تو عیاشی کا دن شروع ہوجاتا تھا۔ ویسی عیاشی بھی کوئی کوئی کرتا ہوگا۔ کچے آم کی کھٹی کیری یعنی امبی کے لمبے لمبے قتلے کاٹے‘یا رس بھرے ٹماٹر کے چھوٹے ٹکڑے کئے۔ سٹیل کی پلیٹ میں ایک طرف نمک اور سرخ مرچوں کی چھوٹی ڈھیریاں لگائیں۔ بچوں کے کمرے میں جو کھڑکی باہر کی طرف پیپل کے پیڑ کے رخ کھلتی تھی‘اس کھلی کھڑکی کی چوڑی دہلیز پر ایک پٹ سے ٹیک لگائی دوسرے کھلے پٹ پر پاؤں ٹکائے۔ساتھ چٹخارے دار پلیٹ رکھی۔سب سے پہلے بازی گرپھر جانگلوس اور پھر دیگر کہانیاں۔ کوئی عیاشی سی عیاشی ہے !اس رنگ میں بھنگ اس وقت پڑتا تھا جب کوئی بہن غفلت کے کسی لمحے میں رسالہ ہاتھ سے چھین لیتی کہ وہ بھی پیسوں میں برابر کی حصے دار تھی۔پھر ایک معرکہ گرم ہوتا جس میں برصغیر کی بڑی لڑائیوں کے سب رنگ موجود ہوتے تھے۔
خوش قسمت تھے کہ سب رنگ ڈائجسٹ شروع ہوا تو ہم پڑھنے اور لطف اٹھانے کی عمر میں پہنچ چکے تھے۔مزید خوش قسمتی یہ کہ گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔آپ اس خوش نصیبی کو مزید رنگ دینا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ دورِما قبل کمپیوٹر اور سوشل میڈیا زمانہ تھا۔یعنی ایک لحاظ سے پتھر کا زمانہ۔لیکن فائدہ یہ کہ جو پڑھتے تھے وہ پتھر پر لکیر ہوجاتا تھا۔جملے تک ازبر ہو جاتے۔سب رنگ نے اپنا اسلوب بنانے میں وقت بہت کم لیا۔ وجہ یہ کہ کھانا باکمال اور صاحب اسلوب باورچیوں کی ترکیب سے تیار ہوتا تھا اور اس کی ڈوئی شکیل عادل زادہ کے ہاتھوں میں تھی۔لیکن یہ تو میں اب کہہ رہا ہوں نا! اس وقت شکیل عادل زادہ کو میں کہاں جانتا تھا۔میں تو بابر زمان خان کو جانتا تھا جو ہندوستان کے کونے کونے میں کورا اور مولوی صاحب کی تلاش میں پھرتا تھا۔ ایک عشق میں وارفتہ و سرگرداں۔ ایک نظر دیکھنے کو ترستا ہوا۔ایک طویل ہجر اسے بگولے کی طرح کبھی فیض آباد‘کبھی لکھنؤ، کبھی کلکتہ‘کبھی بمبئی‘کبھی حیدر آباد اور کبھی مراد آباد لیے پھرتا۔یہاں وہاں پھینکتا اور پھر اٹھاتا ہوا۔نہ اس بگولے کی وحشت کم نہیں ہوتی تھی نہ بابر زمان کی۔اس کے ہاتھ پاؤں اینٹھتے‘اورایک اضطراب اسے پا بہ رکاب رکھتا۔ ایک جگہ رکنا ہی محال تھا کہ اس کی تلاش کسی ٹھکانے کی تھی ہی نہیں۔ دیوانگی بیٹھنے ہی کہاں دیتی ہے سو ہر کچھ دن بعدآوارگی کی لہر اس کے قدم اکھاڑ دیتی۔وہ کتنے ہی ہجوم میں رہے‘اکیلا ہی رہتا تھا۔ استاد بٹھل‘ استاد پیرو، استاد جامو‘کانتے‘مارٹی۔کون تھا جو لاڈلے سے محبت نہیں کرتا تھا۔ہر شہر کے بدنام علاقوں کے نامور ترین چاقو باز‘ بازی گر میں کیسے اپنی اچھائیوں‘ برائیوں‘خوبیوں خامیوں کے ساتھ مجسم ہوتے جاتے ہیں۔لگتا ہی نہیں کہ ان لوگوں کی بات ہورہی ہے جنہیں عرف عام میں غنڈے‘بدمعاش یا بھتہ خور کہا جاتا ہے۔کیا کمال ہے کہ بدنام بازاروں اوراڈوں کا مسلسل ذکر ہو لیکن تعلق اور کہانی میں ہوا و ہوس کا چھینٹا تک نہ پڑنے دیا جائے۔بازی گر میں یہ سب تقسیم سے پہلے کی وضع دار روایات و اقدار کے ساتھ چلتے پھرتے ہنستے بولتے نظر آتے ہیں۔ زریں‘ خانم‘جولین سب لاڈلے کی نگا ہ اور توجہ کی متمنی ہیں لیکن وہ کورا کی جستجو میں کوچہ و بازار میں دیوانہ ہوا پھرتا ہے اور کورا اسے نہیں ملتی ہے۔ کارِ جہاں دراز ہونے کا بھی اس کہانی سے پتا چلتا ہے اور اب مرا انتظار کر کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اس کہانی میں فراق ہی فراق ہے۔ وصال سے پہلے ہی ہجر آغاز ہوگیا تھا۔دیکھیے کورا بابر کو ملتی ہے یا نہیں۔ دل کا ایک حصہ کہتا ہے کاش مل جائے۔ دل صاحب ہی کا مگر یہ تقاضا ہے کہ نہ ملے،کہ یوں کہانی ختم ہوجائے گی۔ لیکن ہر کہانی نے کبھی ختم تو ہونا ہوتا ہے۔شکیل عادل زادہ اس وقت بازی گر کی آخری قسط لکھ رہے ہیں اورعشروں پراناوہ تجسس برقرار ہے جس کے ساتھ ہم نے زندگی گزاری۔
شکیل عادل زادہ کا ایک زمانہ مداح ہے اور میں بھی اس قبیلے میں شامل ہوں۔ان سے ملاقاتیں تو اس وقت ہوئیں جب سب رنگ بند ہوئے مدتیں ہوچکی تھیں لیکن ان کی محبت اور شفقت سے لگتا رہا کہ وہ دیرینہ مہربان ہیں۔بہت قریبی محبت میں ایک رشتے داری بھی شامل ہے۔میں سوچ رہا تھا کہ وہ تعلق کتنا عجیب اور کتنا قیمتی ہوتا ہے جو محض چند ملاقاتوں اور بے حساب رفاقتوں پر استوار ہو۔شکیل بھائی سے بہت لوگوں نے روبرو سیکھا ہو گا، میں نے ان کی غیر موجودگی میں ان سے اکتسابِ فن کیا ہے۔لفظوں سے جو محبت میرے لہو میں دوڑتی ہے اس میں اس اکتساب کا بھی فیض ہے۔
سب رنگ میں سب ہی رنگ ہوا کرتے تھے۔ اردو،ہندی‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘پرتگالی‘عربی اور دیگر بڑی زبانیں تو الگ‘ مراٹھی‘بنگالی اور بہت سی مقامی زبانیں بھی اپنے قالب بدل کر لیکن اپنی روح کے ساتھ سب رنگ میں شامل ہوتی تھیں۔ حسن رضا گوندل نے ہم سب کا فرض ادا کیا اور عالمی ادب کی ان بیش قیمت کہانیوں کو یکجا فراہم کردیا۔ جب سے سنا تھا‘بے چینی تھی کہ کب یہ کتابیں میرے ہاتھ لگیں۔
دو دن پہلے وہ تحفہ مجھے ڈاک سے وصول ہواجس کا مجھے کتنے ہی دن سے انتظار تھا۔سب رنگ کہانیاں۔دونوں حصے۔دو کتابیں جن میں فضیلت کی دو سندیں بھی چسپاں ہیں۔کیسا لگتا ہے جب آپ کا ممدوح خود آپ کی مدح کرنے لگے۔لکھا تھا اشعر الشعراء حضرت قبلہ سعود عثمانی کی خدمت میں۔نذر گزار۔شکیل عادل زادہ۔16/01/21۔اب خواہ انہوں نے کسی شگفتہ رو کے زیر اثر یہ لفظ لکھے ہوں‘مجھے یہی اصرار ہوگا کہ نہیں جناب ! یہ سند لکھی ہے میرے لیے او رپوری سنجیدگی سے۔ اللہ اللہ !یہ وقت اور یہ اعزاز بھی میرے حصے میں آیا۔
شکیل بھائی ہمارے بابر زمان ہیں۔ سب رنگ ان کا عشق‘ان کی کورا ہے۔ایسا رسالہ‘ایسا عشق،ایسی کہانی اور ایسی تحریر لاڈلے ہی کو نصیب ہے۔ کئی نسلوں کا ایسا لاڈلا ہونا کس کو نصیب ہوتا ہے پیارے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں