چیخیں ہیں کہ فلک شگاف ہیں۔ آہ و بکا ہے کہ دل چیرے ڈالتی ہے۔ آنسو ہیں کہ لگاتا رہیں۔ منظر ہیں کہ دیکھے نہیں جاتے۔ کوئی ویڈیو پوری دیکھ نہیں سکتے۔ کسی تصویر کو زیادہ دیر نہیں دیکھ سکتے بہت جگرا چاہیے اس کیلئے۔ جاں بلب مریض جو ایک ایک سانس کیلئے ترس رہے ہیں۔ پچھاڑیں کھاتے تیماردار۔ جن کا بس نہیں چلتا کہ اپنے پیاروں کو بچھڑنے سے روک لیں۔ گھبرائے ہوئے ڈاکٹر جن کے بس میں کچھ زیادہ نہیں۔ موت کی زردی ہر چہرے پر کھنڈی ہوئی ہے۔ صرف مریضوں کے نہیں، باقی لوگوں کے بھی۔
بھارت سے ایسی ایسی ہولناک ویڈیوز، ایسی ایسی بھیانک خبریں ہیں کہ الامان والحفیظ۔ ہسپتال کے بیڈ پر اپنی بے خبر ماں سے لپٹتی ہوئی، چیخیں مار کر روتی ہوئی ایک نوجوان لڑکی ہسپتال والوں سے کبھی آکسیجن کی بھیک مانگتی ہوئی، کبھی غصہ کرتی ہوئی۔ زاروقطار روتا ہوا نوجوان جس کا باپ منہ کھول کر سانس لینے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ سٹریچرز کی لمبی قطار کے آخر میں، جو ہسپتال کے دروازے کے باہر داخلے کی منتظر ہے، ایک لڑکا جو ہر ایک سفید اوورآل پہننے والے کی منتیں کر رہا ہے کہ اس کی ماں کو ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ ہسپتال کے باہر لمبی قطار میں فٹ پاتھ پر کھڑی عورت جو یک بیک تیورا کر فٹ پاتھ پر گرجاتی ہے اور پھر کبھی ہوش میں نہیں آتی۔ اس کے دو چھوٹے ننگ دھڑنگ بچے ماں کے بے جان وجود کے پاس بیٹھے ہیں۔ کیا بے بسی ہے اور کیا قیامت ہے۔ شمشان گھاٹوں میں جگہ نہیں ہے۔ ایک ایک وقت میں سینکڑوں چتائیں جل رہی ہیں۔ بیسیوں جنازے اٹھ رہے ہیں۔ شمشان گھاٹوں کا عملہ اور گورکن کم پڑ گئے ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی میں ایسی صورتحال نہیں دیکھی۔ کیا دکھائیں اور کیا بتائیں۔ بہت جگرا چاہیے دیکھنے کواور بہت دل چاہیے بیان کرنے کو۔
اورفیس بک تو موت کی ڈائری بن کررہ گئی ہے۔ فیس بک کھولیے اور ان بہت سے چہروں کو پڑھ لیجیے جو پرسوں نہیں، کل نہیں، آج رخصت ہوئے ہیں۔ وہ بہت سے نام پڑھ لیجیے جو اپنے اپنے شعبے کے باکمال تھے اورانہوں نے گہرے نقوش ثبت کیے تھے۔ بوڑھوں، ضعیفوں کی قید نہیں۔ مسلم، غیرمسلم، جوان، کم عمر، ادھیڑ عمر‘ سب کے سب۔ نہ بھارت کی تخصیص ہے نہ پاکستان کی‘ لیکن اپریل نے بھارت کے شہروں خاص طور پر یوپی پر جو قیامت ڈھائی ہے وہ ناقابل تصور تھی۔ جیسے دہلی اور لکھنؤ سمیت بڑے شہر وں کے سرپر کالی دیوی منڈلا رہی ہو۔ موت کا دیوتا راج کررہا ہو۔
دیوی، دیوتا؟ یہ حالیہ لہر دیویوں دیوتاؤں کے معاملے ہی سے تو شروع ہوئی تھی۔ ہردوار میں 11 مارچ سے شروع ہونے والے کنبھ میلے میں مقدس دریاؤں میں نہاکر اپنے پاپ ہمیشہ کیلئے دھونے کیلئے لاکھوں لوگ پہنچے تھے۔ ایک انداز ے کے مطابق یہ تعداد پچاس لاکھ سے زیادہ تھی۔ کنبھ دراصل جار، مرتبان اور پانی کے برتن کو کہتے ہیں۔ ہندو داستانوں کے مطابق قدیم زمانوں میں ایک مرتبان میں آب حیات موجود تھا، جس سے ابدی زندگی حاصل کی جاسکتی تھی۔ مرتبان کو حاصل کرنے کیلئے دیوی دیوتاؤں میں کشمکش ہوئی جس میں یہ جار چار جگہ سے ٹوٹ گیا اور اس کا پانی چارجگہ گرا۔ الہ آباد (جہاں دو ظاہر دریا گنگا اور جمنا اور ایک پوشیدہ دریا سرسوتی، تروینی کے مقام پر ملتے ہیں)، ہردوار (دریائے گنگا)، ناشک (گوداواری دریا) اور اجّین (شپرا دریا) اس عقیدے کے مطابق انہیں مقدس پانیوں سے بنے ہیں اور اس میں نہاکر سارے پاپ دھل سکتے ہیں۔ یہ میلہ باری باری ان سب جگہوں پر منایا جاتا ہے جس میں اصل اور مرکزی چیز پانیوں میں نہانا ہے۔
ہردوار میں کنبھ کا یہ حالیہ میلہ اگلے سال یعنی 2022 میں ہونا تھا اس لیے کہ یہ میلہ ہر بارہ سال بعد منعقد ہوتا ہے اور آخری میلہ 2010 میں ہوا تھا‘ لیکن داد ہے اترکھنڈ صوبے کی انتظامیہ اور بی جے پی کے فیصلہ سازوں کو کہ انہوں نے عین اس وقت جب کووڈ کی دوسری لہر دنیا بھر میں پھیل رہی تھی اور بھارت میں بھی اس کا زور پہلی لہرسے زیادہ بڑھ رہا تھا، یہ میلہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور کیا آپ کو پتا ہے کہ ایک سال پہلے یہ میلہ کھینچ لانے کا سبب کیا تھا؟ جوتشی اور نجومی۔ انہوں نے 2021 کوشبھ گھڑی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے حساب کے مطابق سورج برج حمل میں اور مشتری برج دلو میں پہنچا ہوا ہے اور ایسا 83 سال بعد ہوا کرتا ہے‘ اس لیے اس میلے کو ایک سال پہلے منانا بہت ہی دانائی کی بات ہوگی۔ میلے کا فیصلہ کیا گیا اور سچ یہ ہے کہ یہ دانائی سے زیادہ اپنے لوگوں کو خوش کرنے کا فیصلہ تھا۔ ووٹ کا لالچ کیا کچھ نہیں کرواتا۔ بہت آرام سے یہ میلہ اس وقت ٹالا جاسکتا تھا اس لیے کہ اس کا حقیقی سال تھا ہی 2022 اور اگلے سال بہتر انتظامات اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ یہ میلہ منعقد کیا جاسکتا تھا لیکن کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر یہ فیصلہ کیا گیا جو بدترین فیصلہ ثابت ہوا۔ فیصلہ کرتے ہوئے اترکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت نے کہا کہ یہ زائرین باہر کے نہیں ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ گنگا کی رحمتیں بہہ رہی ہیں اس لیے کوئی کورونا نہیں پھیلے گا۔ نیز کنبھ میلے کا نظام الدین کے تبلیغی اجتماع سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
10سے 14اپریل کے5دن کے اندر کنبھ میلے کے زائرین میں 1700 لوگوں کا ٹیسٹ کووڈ کیلئے مثبت آیا اور یہ تعداد اس سے یقینا بہت زیادہ تھی۔ کیونکہ یہ دو لاکھ سے زائد لوگوں کے ٹیسٹ کا نتیجہ تھا جب لوگوں کی تعداد پچاس لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔ یہ بہت سے مسائل کا صرف ایک رخ تھا۔ گھاٹ پر اشنان لینے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور اشنان غروب سے پہلے ہی کیاجا سکتا تھا؛ چنانچہ لاکھوں لوگوں کو کنٹرول کرنا اور ان سے احتیاطی تدابیر پر عمل کروانا پولیس اور انتظامیہ کے بس سے باہر تھا۔ ایک مذہبی لیڈر سوامی کپل دیو بھی میلے کے دوران کووڈ سے مرنے والے سینکڑوں لوگوں میں تھے لیکن اصل قیامت تو اس وقت برپا ہوئی جب ایک جگہ اکٹھے ہونے اور ایک جگہ اشنان کرنے والے یہ لاکھوں لوگ اپنے اپنے شہروں، اپنی اپنی بستیوں کو واپس لوٹے۔ بڑے شہروں میں کووڈ مریضوں کی تعداد پہلے دو لاکھ اورپھر تین لاکھ سے بھی زیادہ بڑھ گئی اور یہ پوری دنیا میں ایک دن میں مریضوں کی تعداد کا سب سے بڑا ریکارڈ تھا۔
بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ کووڈ19 سے قطع نظر بھی یہ کنبھ میلے متعدی امراض کے پھیلنے کا بہت بڑا سبب رہے ہیں۔ماہرین یاد دلاتے ہیں کہ1817 میں کنبھ میلے میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ میلے کے اختتام پر ہیضہ کی وبا زائرین کے ساتھ ہندوستان کے مختلف شہروں میں پہنچی اور اس کی بندرگاہوں سے یورپ اور مشرق بعید کے ممالک میں پہنچ گئی۔ یہ 1817-1824 کی سب سے بڑی وبائے عام ثابت ہوئی اور اس کا آغاز اسی طرح ہوا تھا۔ سچ یہ ہے کہ بھگدڑ میں لوگوں کے کچلے جانے سے لے کر وبائے عام تک سبھی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
لیکن میلہ تو آیا اور اپنے اثرات دکھا کر رخصت ہوگیا۔ اس وقت بھارت کورونا کی جس لپیٹ میں ہے اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ناکافی صحت کی سہولیات جن میں ہسپتالوں میں بیڈ کم پڑجانا‘ آکسیجن نایاب ہوجانا اور ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی قلت سبھی شامل ہیں، ایک چہار طرفہ مصیبت ہے۔ دل دکھتا بھی ہے ہمسایوں کی اس تکلیف پر اور لرزتا بھی ہے۔ یہی صورت حال خدانخواستہ کسی وجہ سے پاکستان کو پیش آجاتی ہے جو بعید از قیاس ہرگز نہیں ہے تو بے آسرا مخلوق کا کیا بنے گا؟ ترقی پذیر ممالک کے پاس صحت کے وسائل عام دنوں ہی میں ناکافی ہوتے ہیں، اللہ نہ کرے وبا نے لپیٹ لیا تو کیا ہوگا؟ سوال اہم ہے لیکن اس کا تصور اتنا بھیانک ہے کہ آنکھیں بند کرلینا اور دماغ سے یہ سوال باہر نکال دینا ہی بھلا لگتا ہے‘ لیکن کیا ان دونوں کاموں سے یہ سوال ختم ہوجائے گا؟ اصل سوال تو یہ ہے۔