"SUC" (space) message & send to 7575

ساتواں موسم …(2)

چالیس پچاس سال پہلے کی گرمیاں اپنے ساتھ لُو کے جھکڑ بھی لاتی تھیں۔ لُو اب بھی ہے لیکن شہر کے مرکزی علاقوں سے کترا کر گزرتی ہے۔ ہونکتی دوپہریں جن کی لمبائی شبِ فراق کے قریب قریب ہی تھی، اپنے اندر ایک پراسراریت رکھتی تھیں‘ جس میں کم عمری کی فراغت اور بے فکری کے اسرار بھی شامل ہو جاتے تھے۔ لاہور ایک آہستہ رَو اور کم آزار شہر تھا۔ شہر کے بہت سے علاقے شہر اور قصبے کی ملی جلی شباہت لیے ہوئے تھے۔ اکثر حصے پُرسکون اور خاموش قریے تھے۔ رات جلدی اترتی تھی اور صبح جلدی طلوع ہو جاتی تھی۔ گھروں میں ریفریجریٹر نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہر محلے میں ایک دو برف بیچنے والے لازماً ہوتے تھے۔ برف کی بڑی اور کھوکھلی سل سے ٹکڑا نوک دار سوئے سے توڑا جاتا اور سیروں کے تول سے بکتا۔ گھروں میں صبح و شام برف لانا ایک باقاعدہ کام تھا۔ حالانکہ گھڑوں اور صراحیوں کا بہت چلن تھا لیکن برف خانے کی برف کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ یہ برف ٹاٹ میں لپیٹ کر سائے میں رکھ دی جاتی تھی۔ صرف برف کی ڈلی چوسنا بھی ایک مزیدار شغل تھا جس کی ٹھنڈک دانتوں اور زبان سے اترتی جاتی اور سیراب کرتی جاتی تھی۔ ریفریجریٹر آیا تو زبان برف کی ڈلی چوسنا بھی بھول گئی۔ پتا نہیں یہ عمر کا تقاضا تھا کہ زمانے کا چلن۔
گرم دوپہروں میں سورج سر پر آتا تو درختوں اور دیواروں کے سائے اپنی اپنی ماؤں سے جا لپٹتے جیسے انہیں لُو لگ جانے کا ڈر ہو۔ لمبی سہ پہر ڈھلتی تو یہ سائے دبے پاؤں باہر نکلتے۔ شام اترتی تو سرخ اینٹوں کے صحنوں یا کچی مٹی کے آنگنوں میں چھڑکاؤ کیا جاتا۔ کیاریوں کو پانی دیا جاتا۔ شام عموماً حبس بھری ہوتی۔ چھڑکاؤ کے بعد زمین سے گرم بخارات اُٹھتے اور تادیر بیٹھنے نہ دیتے۔ مٹی کی سوندھ میں چارپائیوں پر سفید چادریں بچھتیں اور چاندی کے کٹوروں میں موتیا مہکتا۔ سرخ شربت سے بھرے شیشے کے گلاس ہاتھوں میں تھمائے جاتے یا پھر دم دی ہوئی چائے کی خوشبو سے بھری پیالیاں تازہ دم کرتیں۔ یہ زمانہ آم کا ہوتا ہے۔ قسم در قسم مختلف شباہتوں اور ذائقوں والے آم۔ تخمی اور قلمی آم جنہیں بالٹی میں برف ڈال کر سرد کیا جاتا اور اس بالٹی کے اطراف بیٹھ کر آم کھائے جاتے۔ اب تخمی آم یعنی چوسنے والے آم تو نظر آنے ہی بند ہوگئے اور شاید اس طریقے کو بدتہذیبی بھی سمجھا جانے لگا ہے۔ وجہ جو بھی ہو، ایک ذائقہ زندگی سے کم ہوتا جارہا ہے۔ گرما اپنے ساتھ بہت سے پھلوں کی سوغات بھی لاتا ہے۔ ایسے رسیلے اور کھٹ مٹھے پھل جن کا سارا سال انتظار رہتا ہے۔ لیچی ان میں سب سے مہنگا پھل سمجھا جاتا تھا اور کم کم دستیاب تھا۔ لاہور‘ کراچی میں مخصوص جگہوں پر ملتا تھا لیکن سرشار کردینے والا لطف ساتھ لاتا تھا۔ نازک پھل ہونے کی وجہ سے زیادہ فاصلہ بھی طے نہیں کرپاتا تھا اور زیادہ وقت رکھا بھی نہیں جاسکتا تھا‘ لیکن وہ دور اب پیچھے رہ گیا۔
سات آٹھ تیز گرم دنوں کے بعد مغرب سے متصل شمال مغربی سمت سے گردوغبار کا دیو بلندی سے بستیوں کو گھورتا اور آندھی طوفان کی طرح شہر پرٹوٹ پڑتا۔ بہت بار نم آلود خوشبو، ٹھنڈی ہوا اور ہلکی بارش بھی اس گرد کا تعاقب کرتے آ پہنچتے۔ گردوغبار تو خیر وہ غیرمطلوب مہمان تھا جس کی آمد پر گھریلو خواتین کئی کئی دن بڑبڑاتی نظر آتیں لیکن اگر ہلکا پھلکا چھینٹا پڑ جاتا تو ایک دو دن تک موسم اور مزاج خوشگوار رہتے تھے۔
رات کو کھانے سے پہلے محلے کے تنوروں پرگندھے ہوئے آٹے سے بھری پراتیں جمع ہو جاتیں۔ تنور والی ماسی روٹیاں لگاتی اور اپنی اجرت وصول کرتی جو آٹے کے پیڑوں کی شکل میں بھی ہوسکتی تھی۔ یہ گھروں میں چولہوں کی تپش سے خواتین کو بچانے کی ایک صورت تھی۔ کھلے آسمان کی صورت میں صحنوں اور آنگنوں میں پلنگ بچھتے اور رات کی رانی کی مہک میں کہانیاں کھِلتی تھیں۔ ائیرکنڈیشنر گھروں میں کہاں تھے اور جنریٹرز کا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا؛ البتہ پیلی روشنی پھیلانے والے ٹنگسٹن فلامنٹ کے بلب نے اپنے پہلو میں دودھیا ٹیوب لائٹ کو جگہ دے دی تھی۔ آہستہ خرام شہر میں دن اور رات اپنی پوری کیفیات کے ساتھ مکینوں پر گزرتے تھے۔ کمروں کی چھتیں بلند اور بعض اوقات بلند تر ہوتی تھیں۔ پندرہ سے اٹھارہ فٹ پر۔ روشن دان وافر اور کمرے کی اکثر دیواروں میں ہوا کے رخ پر ہوتے تھے جن سے ہوا سے زیادہ چڑیاں آتی جاتی تھیں۔ یہ روشن دان وقت گزرنے کے ساتھ چڑیوں اور کبوتروں کے محفوظ ٹھکانے ثابت ہوتے تھے۔
ائیرکنڈیشنرز تو کیا، روم کولرز نے بھی کافی بعد میں کمروں میں تانکا جھانکی شروع کی۔ ہمارے گھر میں خس کا روم کولر لگا ہوا تھا جس کی بھینی خوشبو سے پورا بڑا کمرہ مہکا رہتا تھا۔ اسی خس خانے میں گرم دوپہریں کاٹی جاتی تھیں۔ گھروں میں حبس بڑھ جائے اور گرمی چین نہ لینے دے تو باغات اور کھلے مقامات کا ایک دورہ فرحت بخش ہوتا تھا۔ شام کے وقت باغ جناح یعنی لارنس گارڈن کے درجۂ حرارت اور شہر کے درجۂ حرارت میں نمایاں فرق ہوتا تھا۔ باغ کے خیابان فاطمہ نامی حصے میں جہاں سرکاری تقریبات منعقد ہوتی تھیں، تراش خراش دیدنی ہوتی تھی۔ اس وقت سے لارنس کی مسالے والی چنے کی دال کا ذائقے اب تک زبان پر رچا ہوا ہے۔ لاہور میں کتنے ہی باغ موجود ہیں لیکن باغ جناح کا ثانی اب بھی کوئی نہیں۔
پھر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا یہ شہر بڑا ہوگیا۔ اپنے مکینوں سے بھی بڑا۔ دماغ بڑے ہوگئے اور دل چھوٹے۔ گھروں کی چھتیں نیچی ہوکر بارہ تیرہ فٹ پر آگئیں۔ روشندان بند اور سپلٹ ائیرکنڈیشنرز کے منہ کھل گئے۔ صحنوں اور آنگنوں کی گنجائشیں کم ہوتی گئیں۔ زمین نے پودوں اور بیلوں سے اور مکین نے زمین کے چھڑکاؤ سے منہ پھیر لیا۔ جنریٹروں کی آواز پرندوں کی چہکار پر غالب آگئی۔ ٹنگسٹن بلبوں اور ٹیوب لائٹس نے انرجی سیورز کے لیے جگہ خالی کی۔ روشن چراغوں کی نئی نسل ایل ای ڈی کے نام سے جانی گئی۔ بین الا قوامی آئس کریم برانڈز نے ہتھ ریڑھی والے ''پائی‘‘ کو اس کی ریڑھی سمیت دور دراز دیہات میں لے جاکر پھینک دیا۔ گرمیاں یخ کدوں میں کمبل لے کر قیلولہ کرنے لگیں۔
ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ اب اللہ کے فضل سے لاہور پھلوں کا مرکز ہے۔ ہر طرح کا پھل دستیاب ہے۔ لیچی سیزن میں بہت جگہ اور ریڑھیوں اور ٹھیلوں پر بھی دستیاب ہے۔ لاہور کے اطراف میں بھی کثرت سے لیچی کے باغات ہیں لیکن وہ ذائقہ یا تو نسل کے فرق کی وجہ سے بہت کم ملتا ہے یا اسے پانی میں بہت دیر بھگو دینے کی تجارتی ملاوٹ کی وجہ سے۔ بہرحال کچھ ہے جو لیچی کو لیچی جیسا رسیلا اور شیریں نہیں رہنے دیتا۔ مئی شروع ہو چکا ہے اور ابھی آم بازاروں میں نظر نہیں آئے ہیں۔ سب سے پہلے سندھ کا سندھڑی آم پہنچتا ہے جو اپنے گوناگوں استعمال کی وجہ سے منفرد قسم ہے۔ لاہور اس لحاظ سے غنیمت ہے کہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے جنوبی گرم علاقوں، میدانی خطوں اور پہاڑی بلندیوں کے ثمرات یکساں طور پر یہاں پہنچتے ہیں۔ ماضی کو یاد کرنے کا مطلب حال کی نعمتوں اور سہولتوں کا انکار ہرگز نہیں ہے اور میں صرف ماضی کو یاد ہی کر رہا ہوں۔ کبھی کبھار ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟
لیکن کبھی سوچتا ہوں کہ کھڑکی پرگہرے رنگ کا دبیز پردہ واپس ڈال دیں تو اچھا ہے۔ ماضی کو پلٹ کر دیکھیں تو زمانی فاصلہ اس سیاہ وسفید تصویر میں رنگ بھر دیتا ہے۔ ماضی کے ذکر کا مطلب نہ اسے برتر ثابت کرنا ہے نہ کمتر۔ اسے یاد کرنے کا مقصد تو بس اسے یاد کرنا ہے۔ جیسے آپ کسی پرانے دوست کو یاد کرتے ہیں۔ اس کی خوبیوں اور خامیوں سمیت۔ اور جو دوست گزر چکا ہو اس کی خوبیاں زیادہ بیان کی جاتی ہیں۔
کیا ہم یہ گزرا ہوا موسم یاد رکھ سکتے ہیں؟ ماضی کو یاد کرنے سے وہ کبھی مستقبل نہیں بن سکتا‘ لیکن اس سے مستقبل بہتر ضرور بن سکتا ہے۔ یہ آپ تھے، آپ کا شہر تھا، آپ کے ماہ و سال تھے۔ کیا آپ ان سے جدا ہوسکتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں