کیا کیا جائے جب حضرت انسان کے لگائے ہوئے زخموں، دنیا کی ابتری اور مسلسل پھیلتی بے انصافی کے بعد دل زخموں سے چور ہوجائے۔ بے بسی ہو اور قلم کے سوا ہاتھ میں کچھ بھی نہ ہو جس سے ان حالات پر گریہ کیا جاسکے۔ گریہ کرکے بھی تھک چکے ہوں اور وہ مقام آچکا ہو جو حضرت جگر مراد آبادی پر آیا تھا ''کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی‘‘۔
کہیں گوشۂ عافیت نہ ملے، کوئی دارالامان نہ ہو۔ دوستوں سے ملاقات کی صورتیں نہ ہوں، اور اگر ہوں بھی، تو ملنے کو جی نہ چاہے‘ کیونکہ بہرحال دوست بھی تو اسی دو پایہ مخلوق میں آتے ہیں جس کے لگائے زخموں کی بات ہورہی ہے۔ سو انسانوں سے بیزاری ہونے لگے تو انسان کہاں جائے؟ کتابوں میں پناہ ڈھونڈ لی جاتی ہے لیکن بیزاری ہمہ جہت ہو تو وہاں بھی اپنے سائے پھیلانے لگتی ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ روزی روٹی اور گھر بار کے جھمیلے تو زندگی بھر ساتھ چلتے ہی ہیں، سو اس بیزاری کے موسم میں بھی چلانے پڑتے ہیں۔
تو جی کا ملال دور کیسے کیا جائے۔ عزیز حامد مدنی نے کہا تھا ''تازہ ہوا بہار کی جی کا ملال لے گئی‘‘۔ بہار عہدِ کورونا کی نذر ہوئی سو اب بہار کی تازہ ہوا کا امکان بھی نہیں۔ برسات کی نم ہوائیں اور ترچھی بوچھاڑیں ابھی دور ہیں۔ میں اس اداسی کے موسم سے اکثر گزرتا ہوں جس کی سرحدیں بیزاری سے اس طرح ملنے لگتی ہیں کہ دونوں یکجان نظر آتی ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسی کیفیات میں جن چیزوں سے فائدہ ہوتا ہے اور دل کی کلی نیم شگفت ہوجاتی ہے وہ بچے، پرندے، پالتو جانور اور باغبانی ہیں۔ بچے‘ پرندے اور جانور تو ذی روح مخلوق ہیں لیکن بھئی! یہ پیڑ، پودے، بیلیں، پھول، سبزیاں، پھل کیا چیز ہیں دل بستگی کی۔ کیا خوشی ہے یہ جو نہ خریدی جاسکتی ہے اور نہ جس کا نعم البدل نہ مل سکتا ہے۔ ایک ننھے سے بیج کو مٹی میں چھپا دیا جائے اور چند دنوں کے انتظار کے بعد ایک ننھی، نازک اور کومل سی کونپل اس جگہ مسکرا رہی ہو تو بیج بونے والے کی طمانیت اور خوشی کو ترازو میں تولا جاسکتا ہے؟ یا ایک ملوک سی ڈنٹھل اپنے ہاتھ سے کیاری یا گملے میں لگائی جائے۔ بھربھری مٹی میں اپنے ہاتھ اچھی طرح خاک آلود کرلیے جائیں۔ زمین کی مقناطیسی طاقت ہاتھوں سے ہوکر پورے جسم میں دوڑتی محسوس کی جائے۔ پھر ہاتھ جھاڑ کر اس مٹی میں نصف دبی ڈنٹھل کو تھوڑا سا پانی دیا جائے۔ اسے دھوپ اور ہوا سے کچھ دن باتیں کرتے دیکھیں اور ایک صبح آپ محسوس کریں کہ یہ اپنے قد سے بڑی ہوگئی ہے۔ اس کے وجود سے ایک اور لہراتی کونپل نکلے اورآپ کو ایسا لگے کہ یہ آپ کے تن سے پھوٹی ہے تو اس خوشی کا کوئی نعم البدل ہے؟
کسی نے کہا تھاکہ زمین اپنے محبت کرنے والے سے کبھی بے وفائی نہیں کرتی۔ اسے اپنی محبت پھولوں، پھلوں اور سبزے کی شکل میں لوٹا دیتی ہے اور یہ بالکل سچ ہے۔ مجھے پودوں، پیڑوں اور سبزیوں کا شوق تو ہمیشہ سے تھا لیکن پہلے فرصت کم کم ملتی تھی اورزندگی کی دیگر مصروفیات ادھر توجہ کا موقع بھی بھی کم کم دیتی تھیں۔ میں اپنے آبائی گھر میں بالائی منزل پر رہتا تھا اور وہاں بھی اپنا شوق پورا کرتا رہتا تھا۔ اب دس سال پہلے زمین اور لان بہتر طور پر میسر آیا تو اس دیرینہ شوق میں اضافہ ہوتا چلاگیا‘ لیکن ایک بات پر افسوس رہا۔ مسئلہ زمین کا یا بالائی منزل کا نہیں، شوق کا ہے۔ یہ شوق تو بالکونیوں، برآمدوں، چھتوں، صحنوں، کھڑکیوں بلکہ کمروں میں بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔ بہت سی بیلیں بہت سے پودے ہر صورت میں آپ کے لیے حاضر رہتے ہیں اور اب تو چھت پر باغبانی یعنی روف ٹاپ گارڈننگ ایک باقاعدہ آرٹ کے طور پر روز افزوں رجحان ہے۔ ان ممالک میں خاص طور پر جہاں زمین کی کمی ہے۔
تازہ ہوا، دھوپ، خوشبو کی طرح سبز رنگ دوست ہر ایک کے دوست ہیں۔ بلا تخصیص مذہب، رنگ، نسل اور ملک۔ ان پر کوئی قدغن ہے نہ یہ کسی کیلئے مخصوص ہے۔ آپ ان ہرے بھرے پیاروں کے قریب ہوکر دیکھیے۔آپ کو لگنے لگے گا کہ آپ کے اندر ان کی جڑیں موجود ہیں۔ مجھے یاد ہے اپنے آبائی مکان کی بالائی منزل میں سفید گلاب کی بیل کیاری میں لگائی تھی۔ اس پر پھول کا شدت سے انتظار تھا، لیکن اس کے لیے دو سال انتظار کرنا پڑا۔ پہلا فرشتہ رو پھول اس پر نمودار ہوا تو میری اور بچوں کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ ہم سب ایک ہی عمر کے بچے ہوگئے تھے جنہوں نے اپنے دوستوں تک یہ خوشخبری پہنچائی اور اس مہکتے نازک پھول کی تصویریں محفوظ کی گئیں۔ ممکن ہے آپ اس بات پر ہنسیں لیکن یہ سچ ہے۔ یہ ضرور سوچیے اور یقین رکھیے کہ یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں جن سے ہم دور ہوجاتے ہیں، دراصل چھوٹی نہیں بڑی خوشیاں ہیں۔ اصل محبتیں ہیں۔
میں آج کل پھر مٹی اور مٹی کی اولاد کی محبت میں گرفتار ہوں۔ ایک خوبصورت اور سہ رنگہ پھولوں والی بیل کا نام کلورو ڈنڈرون ہے۔ اس کی کئی اقسام ہیں۔ میں نے پچھلے سال لگائی۔ وہ تیزی سے بڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے میرے قد سے اونچی نکل گئی۔ بالکل ایسے جیسے اولاد باپ سے زیادہ قد نکال لے تو باپ زیادہ خوش رہتا ہے۔ پھر اس موسم بہار میں اس پر پہلا سہ رنگہ شگوفہ نمودار ہوا اور میرا دل کھلا گیا۔ پھر اس کی شاخوں پر پھول کھلتے رہے اور ان دنوں یہ بیل ہری بھی ہے اور بھری بھی۔ پھولوں سے بھری اس دیوار گیر خوشی کو نظر نہ لگے کہ یہ ہر نظر میں مجھے خوش کرتی ہے۔ ایک اور بیل کا نام وسٹیریا ہے۔ پھولوں سے لدی ہو تو اس کے جھمکے والے پھولوں پر نظر نہیں ٹھہرتی۔ اس میں بھی کئی قسمیں ہیں۔ جو میں نے لگائی وہ ابھی تک پھولوں پر نہیں آئی، پیسی فلورا بھی اپنی خوبصورتی کے ساتھ دن بدن قد نکال رہی ہے۔ اس کے پر بہار اور جوان ہونے کا انتظار بھی محبوب کے انتظارکی طرح ہے۔ رات کی رانی تو خیر عام اور دیسی جھاڑی ہے لیکن اس کی مدہوش کن مہک کی ایک ہی لپٹ تازہ دم کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
گھر کی سبزی کی خوشی الگ ہوتی ہے۔ کچھ دن پہلے ٹوکری بھر کر جامنی رنگ کے بینگن توڑے اور انہیں اردو محاورے کی زد سے بچانے کے لیے تھالی میں نہیں رکھا۔ اس کے بعد وہ چھوٹی، موٹی اور لمبی ہری مرچیں توڑیں جو چھوٹے چھوٹے پودوں پر لگی ہوئی بھی پیاری لگتی تھیں اور قاب میں رکھنے کے بعد بھی ان کا حسن کم نہیں ہوتا تھا۔ ان میں ایک مرچ سرخ ہوچکی تھی سو لگتا تھا کہ وہ ان سب کی ملکہ ہے۔ ٹماٹر کے پودوں پر ٹماٹر لال بھبھوکا دکھائی دینے لگے تو آج انہیں بھی توڑ لیا۔ ایسے صحت مند ٹماٹر بازار سے کہاں ملتے ہیں بھئی۔
پھل دار دنیا الگ ہے۔ انگور کی بیلوں پر لٹکے خوشے سبز سے عنابی رنگ میں تبدیل ہونے لگے ہیں۔ کچھ دن کی بات ہے کہ یہ یاقوتی گچھے توڑنے کا وقت آجائے گا۔ کیلوں کے چرخے یعنی لُنگر فانوسوں کی طرح لٹکتے کیسے خوبصورت لگتے ہیں۔ کبھی دیکھا ہے؟ ادھرکینو کا پھل توڑتے ہی اس پر سفید پھول نمودار ہوئے اور پھر سبز موتیوں سے پورا درخت بھر گیا۔ اب یہ موتی بتدریج توانا ہوتے جائیں گے۔ پھر اکتوبر نومبر کے قریب نارنجی رنگ پکڑیں گے اور فروری مارچ میںان کی خوبصورتی رسیلے کینوؤں کی شکل میں عروج پر پہنچ جائے گی۔ سو یہی خوشیاں ہیں اور مختصر لان میں یہی کچھ ممکن ہے۔
مٹی سے اور زمین سے محبت فطری ہے۔ یاد کیجیے کہ اسے اور ہمیں بنانے والے نے کیا کہا ہے۔ ''اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ اسی میں تم واپس جاؤ گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائے جاؤ گے‘‘۔ سو، چاہے زمین سے کتنی بھی دوری اختیار کرلیں، لوٹنا یہیں پڑتا ہے تو بہتر نہیں کہ ہم جو ادھر ادھر دل لگاتے پھرتے ہیں، اسی سے دل لگا لیں۔ زمین سے بہتر محبوب کون سا ہوگا بھئی! یہی تو ہے حسین ترین محبوبہ۔