وزیر اعظم عمران خان نے یہ حکم دے کر کہ آئندہ ان کی تمام تقریبات انگریزی میں نہیں اردو میں منعقد کی جائیں، دلوں میں ٹھنڈ سی ڈال دی ہے۔ اس ہدایت کا نوٹی فکیشن بھی جاری ہوگیا۔ وہ چاہے خود انگریزی میں جاری ہوا لیکن ہم تو اسے بھی غنیمت سمجھ رہے ہیں کہ اپنی زبان کی طرف ہمارا تاریخی سرد مہر رویہ جیسا رہا ہے اور جیسا اس کا حق مارا گیا ہے، اس کی تفصیل ہر دکھے دل میں موجود ہے۔ اس ملک میں ایک مظلوم ہے جسے انصاف کی طلب ہے لیکن تمام اخلاقی اور قانونی تقاضے اور فیصلے حق میں ہونے کے باوجود انصاف اسے کسی طرح مل کر نہیں دیتا۔ 73 سال مقدمہ لڑتے ہو چکے ہیں‘ لیکن کبھی کوئی فرد، کوئی گروہ، کوئی صوبہ اور کبھی خود وفاق اس کے حق میں حائل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی شائستہ مزاج، مہذب ملکہ کا مقدمہ ہے جس کا گھر کاغذات میں اس کے نام ہے لیکن ایک بدیسی عورت نے اس پر اس طرح قبضہ جمایا ہے کہ وہ عملاً اپنے گھر سے بے دخل اور لا تعلق ہوکر رہ گئی ہے۔ ہے آپ میں سے کوئی جو اسے انصاف اور اس کا گھر اسے دلا سکے؟ یہ آپ سے بھیک نہیں اپنا حق مانگتی ہے۔
اس گھر کو پاکستان کہتے ہیں اور یہ ملکہ اردو کہلاتی ہے۔ یہ قومی اور سرکاری زبان ہے۔ پھر اس گھر میں اس کی حاکمیت کیوں نہیں ہے؟ معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ خدا خدا کرکے ملک میں وہ قیادت آئی جس نے اہم معاملات پر توجہ دی ہے۔ قومی لباس اور قومی زبان کو عملاً عزت دی ہے اور قوم کو امید کی ایک کرن دکھائی دی ہے کہ شاید ملک کو درست سمت مل سکے۔ یہ کالم نگار بھی اسی خوش گمانی میں ہے کہ شاید اس دور میں اردو کو اس کا صحیح مقام مل سکے۔ کیا یہ غلط ہے کہ قومی زوال میں ایک بڑا دخل زبان کو نہ اپنانا بھی ہے۔ جتنی دلیلیں دی جاچکی ہیں، کیا ان پر اضافے کی ضرورت ہے؟
اب تک تو یہی لگ رہا ہے کہ خان صاحب کی حکومت بڑے فیصلے کرنے کی ہمت اور عزم رکھتی ہے۔ بچت، کفایت شعاری، سادگی، ڈیم کے لیے سرمایہ۔ یہ سب ٹھیک لیکن ایک اہم قومی منصوبہ ایسا بھی ہے جس میں نہ محل اور گاڑیاں بیچنے کی ضرورت ہے، نہ ٹیکس لگانے کی، نہ کروڑوں اربوں کے بجٹ کی۔ صرف ایک قوت فیصلہ اور عزم کی ضرورت ہے۔ یہ حق تو کبھی نہ کبھی ان شاء اللہ مل ہی جائے گا۔ دیر سویر سے سہی۔ حکومت کے ذریعے نہ سہی، عدالت کے ذریعے سہی۔ پارلیمنٹ کے ذریعے نہ سہی، عوامی تحریک کے ذریعے سہی‘ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ملک کو اس سب سے بچا کر اس کام کا سہرا اپنے سر سجا لیں۔ یاد رکھیے کہ آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہر سابقہ حکومت کا چہرہ داغوں سے بھرا ہے۔ صرف نون لیگ حکومت کی بات کروں تو اس کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے خواجہ صاحب کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کرکے یہ کالک خود اپنے چہروں پر ملی تھی۔ اس دور میں سرکاری کانفرنسوں میں نفاذِ اردو کی قرارداد پیش نہیں کی جاسکتی تھی، عدالتی فیصلے کی تائید نہیں کی جاسکتی تھی، حتیٰ کہ کئی کانفرنسز کے بینرز میں اردو کا کوئی لفظ ڈھونڈا نہیں جا سکتا تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کم ترین مدت کے لیے منصف اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے۔ صرف 23 دن‘ لیکن اس مدت میں انہوں نے عوام کے دلوں میں اس فیصلے کے ذریعے ٹھنڈک ڈال دی۔ ان کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس فائز عیسیٰ پر مبنی تین رکنی بینچ نے 8 ستمبر2015 کو حکم صادر کیا کہ 1973 کے آئین کی شق (آرٹیکل) 251پر عمل درآمد کے فوری نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ آرٹیکل تین ذیلی دفعات پر مشتمل ہے اور اس کی اصل عبارت یہ ہے۔
(1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور آغاز سے 15 سال کے اندر اندر یہ انتظام کیا جائے گا کہ اسکو سرکاری اور دیگر مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔
(2) ذیلی دفعہ 1 کے اندر رہتے ہوئے انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری زبان کے طور پر استعمال کی جا سکے گی جب تک اس کے انتظامات نہیں کیے جاتے کہ اس کی جگہ اردو لے لے۔
(3) قومی زبان کے مرتبہ پر اثرانداز ہوئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی بذریعہ قانون ایسے اقدامات کر سکتی ہے جس کے ذریعہ صوبائی زبان کے فروغ، تدریس اور قومی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کا بھی بندوبست کیا جا سکے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی عبارت درج ذیل ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 5 کا بھی ذکر ہے، جس کے تحت ہر شہری پابند ہے کہ وہ آئین کی ہر دفعہ پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
(19) ان دستوری احکامات کے پیش نظر، جو آرٹیکل 5 اور آرٹیکل 51 میں بیان کیے گئے ہیں اور جن کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، اور اس امر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ دستور کا لازمی تقاضا ایسی بات نہیں ہے جس سے صرف نظر کیا جا سکے اور پھر عشروں پر پھیلی ہوئی حکومتوں کی بے عملی اور ناکامی کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمارے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں کہ ہم مندرجہ ذیل ہدایات اور حکم جاری کریں:
(1) آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا تاخیر فوراً نافذ کیا جائے۔
(2) جو میعاد (مذکورہ بالا مراسلہ مؤرخہ 6 جولائی 2015) میں مقررکی گئی ہے اور جو خود حکومت نے مقرر کی ہے‘ اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے جیساکہ اس عدالت کے روبرو عہد کیا گیا ہے۔
(3) قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔
(4) تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔
(5) بغیر کسی غیرضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل 251 کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں۔
(6) وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی مندرجہ بالا سفارشات پر عمل کیا جائے۔
(7) ان عدالتی فیصلوں کا، جو عوامی مفاد سے تعلق رکھتے ہوں یا جو آرٹیکل 189 کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں، لازماً اردو میں ترجمہ کروایا جائے۔
(8) عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتی الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔
(9) اس فیصلے کے اجرا کے بعد، اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار آرٹیکل 251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔
(20) اس فیصلے کی نقل تمام وفاقی اور صوبائی معتمدین کو بھیجی جائے تاکہ وہ آرٹیکل 5 کی روشنی میں آرٹیکل 251 پر عملدرآمد کیلئے فوری اقدام کریں۔ وفاق اور صوبوں کی جانب سے اس ہدایت پر عملدرآمد کی رپورٹ تین ماہ کے اندر تیار کرکے عدالت میں پیش کی جائے۔
اے قائدین کرام! امکان اس بات کا ہے کہ جلد کوئی نہ کوئی ملک، قوم اور اردو سے محبت کرنے والا اٹھ کر عدالت میں پٹیشن دائر کردے گاکہ حکومت اس حق کے راستے میں رکاوٹ کیوں بنی ہوئی ہے؟ تب موجودہ حکومت کیا کرے گی ؟ رکاوٹ بن کر ایک داغ اپنے چہرے پر لگا لے گی یا عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی؟ اگر یہ کرنا ہے تو پھر کسی کے عدالت میں جانے کا انتظار کیسا؟ کیا یہ کام از خود نہیں کیا جا سکتا؟ جناب وزیر اعظم! بیوروکریسی کی بات ایک طرف رکھ کر اردو میں تقاریب منعقد کرنے کے آپ کے حکم نے بہت سے دلوں میں ٹھنڈک ڈال دی ہے۔کیا اس گرمی میں آپ مزید ٹھنڈک ڈالنے کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ یہ خواہش عوام کی ہے۔