"SUC" (space) message & send to 7575

پھینک کر مارا ہوا بجٹ

کرتے شلوار میں ملبوس ایک جواں سال رکن نے بجٹ کی مطبوعہ کاپی اپنے بائیں طرف سیاسی مخالف کو پھینک کر ماری۔ ابھی یہ بھالا اس کے ہاتھ سے نکلا بھی نہیں تھا کہ ایک غلیظ گالی بھی اس کے منہ سے برآمد ہوئی۔ گالی پہلے اور بھاری چکنے کاغذ پر چھپا ہوا بجٹ بعد میں اس کے مخالف کے دل پر لگا۔ کریم کرتا اور لٹھے کی کڑکڑاتی شلوار پہنے اس معزز رکن نے دو گالیاں بجٹ کے دو نسخوں کے ساتھ اپنے مخالف کی طرف جوابی طور پر پھینکیں لیکن نشانہ خراب تھا۔ بندہ بچ گیا۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں ہوا میں اڑتی کتابوں، اور ہوا کے دوش پر سفر کرتی گالیوں کے علاوہ نہ کچھ دکھائی دیتا تھا، نہ سنائی دیتا تھا۔ فریق ایک پل کے لیے ویڈیو کلپ قید کرتے کیمرے کے سامنے سے ہٹے تو سفاری سوٹ پہنے شہباز شریف کی شکل نظر آئی اور ان کے بعد کچھ وفاقی وزرا کی۔ شہباز شریف اس ہاؤ ہو کے درمیان تقریر کرنے کی کوشش کررہے تھے جس میں حکومتی ارکان سیٹیاں بجا رہے تھے، نعرے لگا رہے تھے اور جگتیں کس رہے تھے۔ ایک جوشیلے رکن اسمبلی کو بجٹ پھینک مارنے کے بعد بھی کسی طرح قرار نہ آیا، سو وہ مخالف پر حملہ آور ہونے کا راستہ تلاش کر رہا تھا لیکن درمیان میں موجود لڑتے گالی گلوچ کرتے لوگوں میں راستہ فوری بننا مشکل تھا، اس لیے جو وہ فوری طور پر کرسکتا تھا، اس میں اس نے کوئی تساہل نہ برتا۔ غلیظ گالیوں کا ایک فوارہ اس کے منہ سے برآمد ہوا۔ یہ اچھلتا، کف اڑاتا، رواں فوارہ بتاتا تھا کہ موصوف کو اس گفتار میں ید طولیٰ حاصل ہے۔ وہ اس کام کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں اور ان کا فحش ذخیرۂ الفاظ بھی دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ حکومتی ارکان کون سے ہیں اور اپوزیشن کے کون سے۔ صرف یہ اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ دائیں طرف حکومتی ارکان ہیں اور بائیں طرف اپوزیشن کے۔ جو ارکان سیٹیں چھوڑ کر باہر نکل آئے تھے اور گتھم گتھا تھے، ان میں یہ تفریق مٹ چکی تھی۔ نام سے کیا فرق پڑتا ہے‘ کسی کے ساتھ اعوان لگتا ہو یا اصغر۔ ہاں ایک چیز پہچانی جارہی تھی۔ لہجے اور زبان سے اندازہ ہورہا تھا کہ یہ وسطی پنجاب کی گالی ہے۔ یہ سرائیکی علاقے کی۔ یہ سندھی گالی ہے اور وہ پشتون گالی۔ وہ جو مصرعہ ہے نا ''یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے‘‘ سو یہاں بھی کوئی کسی سے کم دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ نوجوان وفاقی وزیر ڈیسک پر چڑھ کر اپنے مخالفوں پر بجٹ پھینک رہا تھا۔ ایک وفاقی وزیر بآواز بلند چور چور کا نعرہ لگا رہی تھیں۔ قومی اسمبلی کے سارجنٹ ایٹ آرمز اور سکیورٹی کا دیگر عملہ اس پورے ہنگامے میں سب سے شریف، سب سے پڑھا لکھا، سب سے زیادہ متحمل اور سب سے زیادہ بے بس نظر آتا تھا۔ رہا ان کا اختیار تو ان کی حیثیت وہی دکھائی دیتی تھی جو چوہدری کے سامنے کمّی کمین کی ہوا کرتی ہے۔ کمیوں کی مجال ہے کہ وہ چوہدری کی زبان بند کروا سکیں یا ہاتھ روک سکیں؟ غنیمت ہے، بہت غنیمت ہے کہ اس جوش میں کسی چودھری نے کسی کمی کو ٹھوک نہیں دیا۔
جھورے کے تنور پر روٹیاں لگنے کے انتظار میں کھڑا میں خاموشی سے ویڈیو کلپس دیکھ رہا تھا۔ جھورے یعنی ظہور کا تنور ہمارے محلے کا سیاسی پلیٹ فارم بھی ہے جہاں سب پارٹیوں کے حامی اور مخالف اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس کے یہ کلپس چٹ پٹے تھے اور بہت سارے۔ آج کی اس کارروائی نے تمام سابقہ کارروائیوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے تھے اور تمام بجٹوں کا پلندہ تاریخ کے منہ پر پھینک مارا تھا۔ ویسے تو مجھے یاد ہی نہیں کہ عشروں پر مشتمل ایوان کی کارروائیوں میں کوئی بجٹ ایسا گزرا ہو جس میں شوروغوغا نہ ہوا ہو، اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی نہ کی ہو اور بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر اس کے پرزے ہوا میں نہ اڑائے ہوں۔ ہنگامہ بھی ہر بار ایسا کہ وزیر خزانہ کے لیے تقریر جاری رکھنا مشکل ہوجاتا تھا۔ کیا نون لیگ کیا پیپلز پارٹی اور کیا قاف لیگ‘ ہر دور میں یہی میلہ لگتا ہے۔ ایسا کوئی بجٹ سیشن جس پر بجٹ پر کوئی علمی اور قانونی بحث ہو، میرے علم میں نہیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی یہ میلہ اور یہ تماشا لگا لیکن اس بار یہ سب پر بھاری تھا۔ عام آدمی کو یہ تو پتہ نہیں کہ معاشیات کے معاملے میں ان ارکان اسمبلی کا مبلغ علم کیا ہے، لیکن یہ واضح ہوگیا کہ ماں بہن کی گالیوں میں وہ کتنا درک رکھتے ہیں۔
موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین دبنگ آدمی ہیں۔ ان کی بجٹ تقریر کے دوران بھی نعرے بازی ہوئی لیکن یہ ہنگامہ آرائی ان پر زیادہ اثر انداز نہ ہوسکی۔ میڈیا پر بھی بجٹ کے نکات پر زیادہ بات ہوئی اور اپوزیشن کے احتجاج پر کم کم۔ شاید ارکان کو یہ بات پسند نہیں آئی، چنانچہ آج کی لڑائی مارکٹائی سے بھرپور فلم نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔
تنور پر میرے ساتھ کھڑے میرے ہمسائے فاروقی صاحب بھی یہ کلپس دیکھ چکے تھے۔ میں نے ان سے کہا ''فاروقی صاحب! مجھے یقین ہے کہ بجٹ کا کوئی تعلق فحش کلامی، گالی گلوچ، لڑائی مار کٹائی اور نعرے بازی سے ضرور ہے۔ ہو سکتا ہے نہ ہو‘ لیکن یہ طے ہے کہ یہ کوئی علمی بحث نہیں ہے اور اس کا تعلق علم معاشیات سے ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ یقینا بجٹ کارروائی کے دوران بد زبانی پر اسمبلی کو اضافی الاؤنس ملتا ہو گا۔ مجھے شک نہیں، یقین ہے کہ کسی رکن اسمبلی کی بہ آواز بلند دی گئی ہر گالی پر اس کی سیاسی جماعت اسے شاباش دیتی ہے۔ گالی جتنی فحش ہو گی اتنی ہی اس کا اگلا انتخابی ٹکٹ پکا ہوتا جاتا ہے‘‘۔
فاروقی صاحب بولے ''ان سب کی تعلیمی قابلیت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، نہ ان کی صداقت اور دیانت پر اور نہ ان کی سیاسی سمجھ بوجھ پر۔ یہ تمام صادق اور امین حضرات اپنی گفتار سے واضح کرتے ہیں کہ سیاسی کردار کیسے ادا کیا جاتا ہے۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ یہ محض شک و شبہ کی بات نہیں کہ بد کلامی اور بجٹ سیشن ایک ہی کارروائی کے دو نام ہیں۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو ہر بار بجٹ اپنے ساتھ یہ کیوں لے کر آتا ہے؟ ارکان اسمبلی کی زبانوں سے کوئی ٹھوس بات سنائی کیوں نہیں دیتی؟‘‘
مجھ سے پہلے جواب جھورے تنور والے نے دیا۔ وہ کسی چینل پر یہ کلپس دیکھ چکا تھا۔ بولا ''یہ باتیں تو مجھے نہیں آتیں باؤ جی! لیکن مجھے آج پھر بڑا افسوس ہوا ہے اپنے چاچے کی شکست کا۔ یہ جو بندہ ہے نا کریم کرتے والا، جو زور زور سے گالیاں دے رہا تھا وہ ہمار ے پنڈ کے حلقے کا ہے۔ یہ میرے چاچے سے الیکشن میں جیتا تھا۔ ہم جیت جاتے لیکن کسی پارٹی نے ہمیں ٹکٹ نہیں دیا‘ اور اسے مل گیا تھا۔ میرا چاچا ویسے کم نہیں تھا اسمبلی کے لیے۔ اس سے زیادہ بڑی گالیاں دیتا ہے اور لڑائی کا بڑا جگرا ہے اس میں۔ وہ اسمبلی میں ہوتا تو اس نے کپڑے لا دینے تھے مخالفوں کے۔ آج اس کا اس کی پارٹی کو لگ پتہ جانا تھا۔ بوسکی والے نے بھی بڑی گالاں کڈیاں پر میرے چاچا جیسا نئیں۔ میرا چاچا زیادہ ہتھ چھٹ ہے۔ زیادہ بہتر تھا وہ اس سیٹ کے لیے‘‘۔ وہ چپ ہوگیا‘ پھر کچھ یاد کرکے اس کا چہرہ چمک اٹھا ''لیکن کرتے والے کا نشانہ بڑا خراب تھا۔ جو بجٹ اس نے پھینک کرمخالف کو مارا، وہ اسے لگاہی نہیں۔ اسے کیا کسی کو بھی نہیں لگا‘‘۔
میری روٹیاں لگ چکی تھیں۔ کپڑا لپیٹ کر میں نے روٹیاں سنبھالیں اور جھورے کی طرف دیکھا ''نہیں جھورے‘ لگا ہے‘ بڑی زور سے لگا ہے‘ تمہیں کیا پتا کس کس کو لگا ہے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں