نہ کووڈ کی وبا ختم ہورہی ہے، نہ خوف ختم ہورہا ہے، نہ زندگی معمول پر آرہی ہے۔ ذرا دیر کا ایک وقفہ آتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم دو سالہ قید کے بعد اس عذاب سے نکل آئے تو اس کے پیچھے ایک اور بڑی لہر دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ دو سال بھی کہنے کو دو سال ہیں ورنہ یہ اپنی طوالت میں ایک عشرے جیسے ہیں اور دہشت میں پوری عالمگیر جنگ جیسے۔
اور سکون کا وقفہ بھی اس طرح آتا ہے جیسے فرضی ہو۔ برطانیہ نے پچھلے دنوں کووڈ کی پابندیوں سے باہر نکل آنے کا جشن منایا۔ 59 لاکھ کیسز اور ایک لاکھ تیس ہزار اموات کو بھگت کر زخم خوردہ برطانیہ اس خوف کو جھٹکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بہت بڑی تعداد میں ویکسین لگا دئیے جانے کے بعد اب یہ خیال کیا جارہا ہے کہ لوگ محفوظ ہوگئے؛ چنانچہ وہاں ریسٹورنٹس، کیفے، شراب خانے اور پبلک مقامات کھولنے کا اعلان کردیا گیا۔ عوامی اعلان نہیں بھئی، سرکاری اعلان۔ ملاقاتوں، کھانوں اور ہلے گلے کو ترسے ہوئے لوگوں نے سڑکوں، شراب خانوں اور ریسٹورنٹس کو بھر دیا لیکن اسی دوران کووڈ کے مریضوں میں ہولناک حد تک اضافہ دیکھا گیا‘ اور ڈیلٹا وائرس‘ جو زیادہ مہلک ہے‘ کا بڑے پیمانے پر پھیلاؤ بھی دیکھا جارہا ہے۔ تو اس صورت میں یہ جشن دیکھ کر وہ محاورہ یاد آتا ہے کہ موت سامنے دیکھ کر شتر مرغ ریت میں منہ چھپالیا کرتا ہے۔ خدا کرے یہ خوف واقعی اور حقیقی معنوں میں پوری دنیا سے دور ہوسکے لیکن فی الحال یہ نظر نہیں آتا۔
ادھر پاکستان میں یہ حال ہے کہ اللہ کا کرم رہا اور دیگر ملکوں کے معاملے میں بہتر صورتحال دیکھنے میں آئی‘ لیکن کچھ دن سے خوف کی ایک تازہ لہر ہے جس نے کراچی کو خاص طور پر اور پورے ملک کو عام طور پر اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک طرف ویکسین نہ لگوانے پر موبائل سم بلاک کرنے کی دھمکی دے دی، جس کے بعد لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔ دوسری طرف یہ بھی اچھی خبر ہے کہ سندھ حکومت نے ویکسین کے لیے شناختی کارڈ کی پابندی بھی ہٹا دی، دیگر شناختی کاغذات بلکہ صرف موبائل نمبر پر بھی ویکسین لگوائی جاسکتی ہے‘ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ شکایت بہت عام ہے کہ کراچی میں ویکسین لگانے کے انتظامات بھی ناکافی ہیں اور عملہ بھی تعاون نہیں کرتا ہے۔ سندھ حکومت کی یہ سختی اور اس کے ساتھ یہ بدانتظامی بڑا تضاد ہے اور ایسے تضادات وہاں بہت سے ہیں۔
کووڈ ویکسین جب تک تیار نہیں ہوئی تھی اور اس کی دوڑ میں بہت سے ملک اور دواساز کمپنیاں لگی ہوئی تھیں، بہت سے سوال اس ویکسین کے بارے میں موجود تھے۔ میں نے اس پر کئی کالموں میں مفصل بات کی تھی جن میں سے قسط وار 'تریاق از عراق‘ بھی شامل ہے۔ کئی سوال جو عام ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اس میں پوچھے گئے تھے۔ پھر پاکستان میں ویکسین آنے کے بعد اور خود ویکسین یافتہ ہونے کے بعد بھی کئی سوال پوچھے گئے تھے جن کا تسلی بخش جواب کبھی نہیں مل سکا۔ اب مزید وقت گزرنے کے ساتھ مزید سوالات پیدا ہوچکے ہیں اور یہ سوال اہم ہیں۔ یہ کب تک نظر انداز کیے جاتے رہیں گے۔ مجھے حیرت ہے کہ اب تک وفاقی یا صوبائی وزارت صحت، وزرائے صحت نے ان سوالات کے جوابات نہیں دئیے۔ اصل میں تو یہ عالمی ادارہ صحت کا کام تھا لیکن وہ بھی ان معاملات پر خاموش ہے۔ کم از کم میرے علم کی حد تک۔ لیکن کسی کی خاموشی سے سوال ختم نہیں ہو جاتے بلکہ نئے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس لیے وہ چبھنے والے اور اہم سوال جو اس وقت ہر پاکستانی کے ذہن میں ہیں، ایک بار پھر پیش کرتا ہوں۔ یہ بھی عرض ہے کہ اگرچہ ان میں سے کچھ سوالوں کے جواب مختلف ڈاکٹرز نے دئیے ہیں لیکن ایک تو وہ دیگر ممالک کے اپنے حالات اور اپنی اختیارکردہ ویکسین کے مطابق ہیں۔ دوسرے وہ کس حد تک قابل اعتماد ہیں، کہا نہیں جاسکتا۔ پاکستان کے اپنے حالات کے مطابق اور یہاں موجود ویکسینز کے مطابق جواب ہونے چاہئیں۔ کیا یہ ذمے داری حکومت، وزارت صحت یا ڈاکٹرز کی تنظیموں کی نہیں ہے؟ اگر وہ روز پریس کانفرنسز میں ہولناک خبروں اور، ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہوجانے جیسی باتیں کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں تو ان سوالات کا جواب کس کا فرض ہے؟ کووڈ ویکسین تو حالیہ بات ہے‘ غیر ذمے داری کا یہ عالم ہے کہ پولیو ویکسین کے حکومتی طریق کار پر جائز سوالات اور شبہات کے جواب بھی اب تک نہیں مل سکے۔
پاکستان میں ابتدائی طور پر کووڈ کے لیے چین کی ویکسینز آئی تھیں۔ سائنوفارم اور سائنوویک سرکاری طور پر شروع میں لگائی گئیں، بعد میں چین کی سنگل شاٹ ویکسین‘ روسی سپوتنک اور دیگر ممالک کی تیارکردہ ویکسینز بھی شامل ہوتی گئیں۔ آسٹرازینیکا، موڈرینا بھی انہی کے بیچ ملک میں آپہنچیں۔ یہ سنا گیا کہ پاکستان میں بھی چین کے تعاون سے اس ویکسین کی تیاری کا کام شروع کیا گیا ہے۔ اس کا کیا بنا‘ کچھ علم نہیں۔
پہلا بڑا سوال تو یہ ہے کہ ان سب ویکسینز کی عمر کیا ہے۔ مثال کے طور پر سائنوفارم کتنے عرصے کے لیے مؤثر ہے۔ اس معاملے میں جتنے منہ اتنی باتیں۔ جب یہ ویکسین مجھے لگی تو ویکسین لگانے والے نے کہا کہ ساری عمر کے لیے کافی ہے۔ وہیں عملے میں کسی کی رائے تھی کہ چھ ماہ۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے پوچھنے پر پہلے بتایا کہ 18ماہ۔ ڈاکٹر نے بالآخر یہ کہا کہ ہمیں ٹھیک معلوم نہیں ہے، ابھی تحقیق جاری ہے۔ ہمیں ٹھیک معلوم نہیں ہے کا جواب اب تک چلا آرہا ہے۔ کسی ویکسین کے بارے میں ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں کہ انسان اس کے ذریعے کتنی مدت تک محفوظ رہ سکے گا‘ اور کیا ہر انسان؟ یا شوگر، بلڈ پریشر، دل کے امراض وغیرہ کے مریضوں کا معاملہ عام لوگوں سے الگ ہوگا۔ ڈاکٹرز سے پوچھو تو ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں جس کا خلاصہ یہی ہے کہ انہیں نہیں معلوم‘ تو پھر معلوم کسے ہے؟ ایسے اندازے تو مجھ سمیت ہر شخص لگا سکتا ہے۔ یہ بڑا سوال ہے اور اس کا جواب ملنا چاہیے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ بہت سے ممالک اپنی پسندیدہ یا کہہ لیں تجویزکردہ ویکسین کے علاوہ دیگر ویکسینز کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ آج سوشل میڈیا پر ایک مزے کا تبصرہ چل رہا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجیے۔ عنوان ہے ویکسین کے فرقے ''سائنوفارم لگانے والوں کو سعودیہ میں داخلے کی اجازت نہیں۔ سائنوویک لگانے والوں کو یورپ میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اسٹرازینیکا لگوانے والے روس میں داخل نہیں ہو سکتے۔ فائزر لگوانے والے چین نہیں جا سکتے۔ بعض طبقے تو ویسے ہی بدنام ہیں فرقہ بازی کے لیے‘‘۔ مزے کا تبصرہ ہے لیکن سچ پر مبنی ہے۔ کچھ مدت پہلے ایک غیر مصدقہ خبر نظر سے گزری تھی کہ ڈبلیو ایچ او یعنی عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس نے جن ویکسینز کو منظور کیا ہے‘ تمام ممالک پابند ہیں کہ وہ تمام ویکسینز لگوانے والے دنیا کے تمام ممالک میں جا سکتے ہیں اور انہیں مزید کوئی ویکسین لگوانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بہت اچھی خبر تھی جس سے بہت سے مسائل ہو سکتے تھے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوئی بلکہ یہ خبر بظاہر غلط تھی کیونکہ سعودی عرب نے اس کے بعد عمرہ مسافروں کے لیے جس لائحہ عمل کا اعلان کیا‘ اس میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ چینی ویکسین لگوانے والوں کو فائزر یا موڈرینا ویکسین کے بوسٹر انجکشن لگوانے ہوں گے۔ بتائیے بھلا؟ اگلے سوال سے پہلے اس کا ایک ضمنی سوال یہ کہ اگر ہر ملک اپنا الگ طریقہ کار بنا دے تو مسافروں کا کیا بنے گا؟ عالمی ادارہ صحت‘ جو تمام ملکوں کی نمائندگی کرتا ہے، ایسا مشترک راستہ کیوں نہیں بنا سکتا جو پوری دنیا کو قابل قبول ہو۔ اگر چین کی ویکسین کی مخالفت سیاسی ہے تو کیا لوگوں کی جانوں کو دیکھا جائے گا یا سیاسی مفادات کو؟ اور اگر وجہ سیاسی نہیں طبی ہے تو اس کی وضاحت کون کرے گا اگر ڈبلیو ایچ او ہی خاموش رہے۔ (جاری)